سیلاب اور این ایف سی ایورڈ کے معاشی اثرات

ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ پہلے خیبر پختونخوا شدید متاثر ہوا‘ کلائوڈ برسٹ اور بارشوں نے ایسے سانحات دکھائے جو پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس کے بعد پنجاب متاثر ہوا اور اب سیلاب سندھ میں تباہی مچا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی آزمائش کچھ کم ہو چکی ہے لیکن پنجاب کی آزمائش ابھی جاری ہے۔ مزید بارشوں کی پیشگوئی بھی کی گئی ہے۔ اس بار بلوچستان زیادہ متاثر نہیں ہوا مگر سندھ میں سیلاب کی صورتحال سنگین ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ابھی تک پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ 2022ء کے سیلاب میں پنجاب سب سے کم متاثرہ صوبہ تھا۔ تقریباً 16 ارب ڈالرز کے نقصانات میں سے پنجاب کا نقصان ایک ارب ڈالر کے قریب تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب کے تین دریائوں میں ایک ساتھ سیلاب نے صورتحال یکسر بدل دی ہے۔ پنجاب کے دریاؤں میں طغیانی کا سبب بھارت کی جانب سے چھوڑے جانے والا پانی ہے۔ بھارت میں واٹر مینجمنٹ کے لیے ڈیمز کی تعداد پاکستان کی نسبت زیادہ ہے اس لیے مون سون کی طوفانی بارشوں سے پاکستانی پنجاب میں بھارتی پنجاب کی نسبت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ بعض ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بھارت نے سیلابی صورتحال کا غلط استعمال کیا‘ جو پانی نارمل فلو کے ساتھ پاکستان میں چھوڑا جا سکتا تھا اسے ڈیم کے ذریعے اکٹھا کر کے پریشر کے ساتھ چھوڑا گیا۔ اگر سیلاب کے زرعی اثرات کی بات کریں تو چاول کی فصل تقریباً 60 فیصد‘ کپاس کی 35 فیصد اور گنا بھی تقریباً 30 فیصد تک متاثر ہو چکے ہیں۔ بھارت میں بھی سب سے زیادہ چاول کی فصل متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان بزنس فورم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چونکہ اس وقت ملک میں ہنگامی صورتحال ہے‘ لہٰذا اس سے نمٹنے کے لیے وقت ضائع کیے بغیر بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور اس کیلئے سیلاب ختم ہونے تک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے اور سیلاب متاثرین کو بروقت بڑا مالی پیکیج دینا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ بروقت ایکشن کا مطالبہ بروقت ریلیف کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے بغیر سود آسان قرضوں کو ممکن بنائے۔ ہر متاثرہ خاندان کو تقریباً 25 لاکھ روپے قرض ملنے سے نئی فصل کی تیاری اور گھروں کی تعمیر میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ جو فصلیں تباہ ہو چکی ہیں‘ ان سے ملکی معیشت کو بھی بڑا دھچکا پہنچے گا لیکن اگر سرکار نے سستی دکھائی تو نئی فصلوں کی بوائی مشکل ہو سکتی ہے‘ جس سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب تک معاشی استحکام اور ترقی کے دعوے کیے جا رہے تھے کہ برآمدات بڑھائی جائیں گی‘ آئی ایم ایف اہداف حاصل کیے جائیں گے اور کرنٹ اکائونٹ سرپلس میں اضافہ کیا جائے گا لیکن سیلاب کے سبب ان اہداف کا حصول ناممکن ہے بلکہ خدشہ ہے کہ شاید پاکستان مزید تین سال پیچھے چلا گیا ہے۔ قبل ازیں مئی کے مہینے میں بھارت سے محدود جنگ میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا تقریباً 16 ارب ڈالر خرچ ہوا تھا اور انڈیا کو تقریباً 84 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کا نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ گو کہ روایتی جنگ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف ہمیشہ فتح حاصل کی ہے اور پاکستان کا دفاع بھارت کی نسبت بہت مضبوط ہے مگر جس طرح روایتی دفاع مضبوط ہے‘ اسی طرح آبی جارحیت سے نمٹنے کے لیے بھی مضبوط دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت ہر سال اسی طرح آبی جارحیت کرتا رہا تو زرعی تحفظ‘ ملکی برآمدات اور معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اس وقت سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں بڑا اضافہ متوقع ہے۔ ٹماٹر کی قیمت میں 45 فیصد‘ آٹے کی قیمت میں 26 فیصد تک اضافہ ہو چکا۔ تقریباً 55 فیصد بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ ابھی ابتدا ہے‘ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید گمبھیر ہو سکتی ہے۔ سندھ میں گندم کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ یکم اگست سے اب تک گندم کی قیمت میں تقریباً 35 روپے جبکہ آٹے کی قیمت تقریباً 29 روپے اضافہ ہوا ہے۔ یکم اگست کو گندم کی قیمت 62 روپے فی کلو تھی‘ جو 7 ستمبر کو 98 روپے فی کلو تک پہنچ چکی۔ یکم اگست کو ڈھائی نمبر آٹا 76 روپے فی کلو تھا جو آج 99 روپے اور فائن آٹا‘ جو 79 روپے کلو تھا اب 108 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ مارکیٹ میں گندم کی قیمت 96 روپے ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں تقریباً 85 روپے فی کلوہے۔ اگر سندھ حکومت اگلے ہفتے گندم ریلیز کرتی ہے تو بازار میں گندم کی قیمتیں کم ہو سکتی ہے۔ اس سال کم از کم 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے‘ بصورت دیگر قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی اور بڑھے گی۔ اس حوالے سے سارا فوکس صرف گندم کی درآمد پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ کم ریٹ پر گندم امپورٹ کرنے اور اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کا بھی مکمل انتظام کیا جانا چاہیے۔ ماضی کی فیصلوں اور ان کے اثرات کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر امپورٹ مافیا موقع سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہو چکا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ گزشتہ ماہ چینی کی قیمت کو کم کرنے کا جواز بتا کر چینی درآمد کی گئی‘ اب جبکہ چینی کی وافر مقدار ملک میں پہنچ چکی ہے‘ چینی کی قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ سب سے بڑھ کر ظلم یہ کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہر چند سال بعد ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس کے مستقل تدارک بارے نہیں سوچا جاتا۔ اس اپروچ کا فائدہ کس کو ہے؟ کیا سیاستدان اس کے بینی فشری ہیں یا بیورو کریٹس اس مسئلے کے حل کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے؟ بعض افراد اسے بیرونی امداد کے لالچ سے بھی جوڑتے ہیں۔
آج کل ملک میں نئے صوبوں کی بحث جاری ہے۔ وسائل اور مسائل کی تقسیم کے لیے نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس وقت وفاق پر بوجھ بڑھ رہا ہے‘ لہٰذا این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ 2010ء میں این ایف سی ایوراڈ کو پانچ سال کے لیے لاگو کیا گیا تھا لیکن سیاسی جماعتوں نے اسے جاری رکھنا مناسب سمجھا۔ این ایف سی کے فارمولے کو تبدیل کرنے سے وفاق کے مالی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کیا گیا تھا۔ اس فارمولے کی بنیاد 82 فیصد آبادی‘ 10.3 فیصد غربت‘ پانچ فیصد ریونیو اور 2.7 فیصد انورس پاپولیشن ڈینسٹی پر ہے۔ 2010ء سے 2024ء تک این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے وفاق کو 44 ٹریلین روپے کا مجموعی نقصان ہوا۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو 2030ء تک یہ نقصان 200 ٹریلین تک پہنچ سکتا ہے۔ بجٹ برائے مالی سال 2026ء میں ایف بی آر کی آمدن 14کھرب اور نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ پانچ کھرب روپے ہے۔ یعنی کُل 19 کھرب روپے میں سے آٹھ کھرب صوبوں کا حصہ نکل جائے گا اور آٹھ کھرب بیس ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص ہیں۔ یعنی گرانٹس اور سبسڈی کے بعد وفاق کے پاس کچھ بچتا ہی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈیفنس کے لیے 2.5 ٹریلین‘ پنشن کے لیے ایک ٹریلین‘ ڈویلپمنٹ کے لیے 1.3 ٹریلین‘ سول گورنمنٹ آپریشن کیلئے 971 ارب اور ایمرجنسی کیلئے 389 ارب روپے ادھار لینا پڑیں گے۔ اس لیے یہ فارمولا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیفنس اور سود کی ادئیگی صرف وفاق کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے صوبوں کا حصہ دینے سے پہلے سود اور دفاعی اخراجات کی رقم منہا کرنی چاہیے اور جو باقی بچے‘ اسے صوبوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ اس سے وفاق کا بوجھ 42.5 فیصد اور صوبوں کا 57.5 فیصد ہو جائے گا۔ بقیہ فنڈز آبادی کے حساب سے پہلے سے طے شدہ طریقے کے تحت تقسیم ہو سکتے ہیں۔ وفاق پر بوجھ کم ہونے سے کرنسی مضبوط ہو گی جبکہ صوبے اپنی آمدن بڑھانے پر زیادہ فوکس کر سکیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں