سیلاب‘ زرعی ایمرجنسی اور زراعت شماری

پاکستان میں اس وقت زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ ان حالات میں کوئی بیان دینے یا اعداد وشمار پیش کرنے میں پہلے زیادہ محتاط رویہ اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ ملک کی ایک بڑی ریسرچ کمپنی نے چند دن قبل سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کی‘ جسے بلوم برگ اور عرب نیوز سمیت دنیا کے بڑے میڈیا ہائوسز نے بھی رپورٹ کیا۔ پاکستان میں بھی انہی اعداد وشمار کو لے کر ملک کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا رہا۔ جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں تقریباً 60 فیصد چاول کی فصل سیلاب سے متاثر ہوئی‘ گنے کی فصل تقریباً 35 فیصد اور کپاس کی تقریباً 30 فیصد فصل متاثر ہوئی ہے۔ جب ان اعداد وشمار کو کراس چیک کیا تو حقائق خاصے مختلف دکھائی دیے۔ چاول کی فصل کے بارے میں کہا گیا کہ وہ 60 فیصد سیلاب کی نذر ہو گئی ہے۔ پچھلے سال کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں تقریباً 97 لاکھ ٹن چاول پیدا ہوا‘ جس میں سے تقریباً 60 لاکھ ٹن سندھ اور تقریباً 37 لاکھ ٹن پنجاب کی پیداوار ہے۔ اس میں سے تقریباً 50 لاکھ ٹن چاول برآمد اور تقریباً 36 لاکھ ٹن چاول ملک میں استعمال ہوا۔ یہ چاول باسمتی نہیں‘ اسے سیلا کہا جاتا ہے اور اس کا زیادہ استعمال جنوبی پنجاب اور سندھ میں ہوتا ہے۔ باسمتی چاول صرف پنجاب میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیداوار تقریباً 11 لاکھ ٹن ہے‘ جس میں سے تقریباً آٹھ لاکھ ٹن برآمد ہو جاتا اور باقی ملک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ٹوٹل کریں تو تقریباً 39 لاکھ ٹن ملک میں استعمال ہوتا اور 58 لاکھ میٹرک ٹن چاول برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو 60 فیصد چاول کی فصل سیلاب میں بہہ جانے کا مطلب ہے کہ اس سال تقریباً 58 لاکھ ٹن چاول کم حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی چاول کی سالانہ برآمدات تقریباً تین ارب 30 کروڑ ڈالرز ہیں‘ 60 فیصد کا مطلب ہے کہ تقریباً دو ارب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حقیقت میں بھی ایسے ہی ہو گا؟ چاول برآمد کنندگان اور رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین فیصل جہانگیر کے مطابق 60 فیصد نقصان کی رپورٹ قبل از وقت ہے۔ پنجاب ملک کے ٹوٹل چاول کا تقریباً 38 فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ رپورٹ جب جاری کی گئی تو اس وقت سیلاب صرف مغربی پنجاب میں آیا تھا۔ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پورے پنجاب کی چاول کی فصل سیلاب میں بہہ گئی تو بھی زیادہ سے زیادہ نقصان 38 فیصد تک ہو سکتا ہے‘ 60 فیصد نقصان پھر بھی ممکن نہیں۔ بقول اُن کے ملکی معیشت کو سیلاب سے زیادہ مذکورہ رپورٹ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ میرے ایک دوست پاکستان کی ایک بڑی رائس مل کے مالک اور بڑے رائس ایکسپورٹر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی خبریں انٹرنیشنل کلائنٹس پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ ایسی خبروں کے سبب ہی انہوں نے پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ کیا پاکستان ان کے آرڈرز وقت پر پورے کر سکے گا؟ ایسے حالات میں بھارت دس قدم آگے بڑھ کر معاملے کو ہوا دیتا ہے۔ اس سے پاکستان کے کلائنٹس بھارت منتقل ہو سکتے ہیں۔ چاول کے اصل سٹیک ہولڈرز رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن میں موجود ہیں جو چاول کی کاشت سے لے کر برآمدات تک ہر سیکٹر کی نمائندگی کرتی ہے لیکن مذکورہ رپورٹ میں ان کا مؤقف ہی نہیں لیا گیا۔ اگر ریسرچ کرنے والے ادارے چاولوں کے اصل سٹیک ہولڈرز سے بات کر لیتے تو بہتر حقائق پر مبنی رپورٹ جاری کی جا سکتی تھی۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق پچھلے سال تقریباً 11.8 ملین ایکڑ رقبے پر چاول کاشت کیے گئے تھے جس سے تقریباً 97 لاکھ ٹن چاول حاصل ہوئے۔ اس سال تقریباً 12.3 ملین ایکڑ رقبے پر چاول کاشت کیے گئے ہیں جس سے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ٹن چاول کی پیداوار متوقع تھی۔ ایک سابق وزیر خزانہ ایک چینل پر کہہ رہے تھے کہ چاول کی سالانہ ایکسپورٹ کی مد میں چار ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب پاکستان کی چاول کی سالانہ ایکسپورٹ ہی 3.3 بلین ڈالر ہے تو چار ارب ڈالرز ایکسپورٹ کا نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟
سیلاب نے ابھی تک سندھ میں چاول کی فصل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جبکہ برآمد ہونے والے چاول کی زیادہ مقدار بھی سندھ میں کاشت ہوتی ہے۔ رائس ایسوسی ایشن کے مطابق نقصان تقریباً 10 سے 15فیصد ہے‘ پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق چاول کی تقریباً 10 فیصد فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ رائس ایسوسی ایشن بھی 10سے 15فیصد کی خبر دے رہی ہے لہٰذا اس سال زیادہ بوائی کے سبب سیلاب سے نقصان کے بعد بھی چاول کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔ اسی طرح کی صورتحال کپاس کی ہے۔ نجی ریسرچ ادارے کے مطابق ملک میں 30 فیصد کپاس کا نقصان ہو چکا۔ جس وقت ریسرچ ادارے نے یہ رپورٹ جاری کی اس وقت سیلاب صرف مغربی پنجاب تک محدود تھا۔ مغربی پنجاب میں کپاس کی فصل جولائی میں کاٹ لی جاتی ہے۔ جس وقت سیلاب آیا اس وقت مغربی پنجاب میں کپاس کی کٹائی تقریباً مکمل ہو چکی تھی۔ اس وقت جنوبی پنجاب اور سندھ میں کپاس کی فصل تیار کھڑی ہے۔ جب سندھ میں سے سیلاب گزر جائے گا تبھی درست اندازہ ہو سکے گا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کے مطابق گنے کی فصل کو ابھی تک ہونے والا نقصان محض پانچ فیصد ہے جبکہ نجی ادارے کے مطابق 35 فیصد نقصان پہنچا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چاول اور کپاس کو دانستہ طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ ان میں بھارت پاکستان کا حریف ہے اور ان فصلوں سے متعلق نقصانات کی خبروں سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچنے کے امکانات ہیں۔ ابھی تک کی صورتحال میں پنجاب کے محکمہ زراعت کے جاری کردہ اعداد وشمار زیادہ مدلل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کپاس کی فصل کا 1.7 فیصد‘ مکئی کا 6.4 فیصد‘ تل کا 5.4 فیصد اور گھاس کا 7.2 فیصد نقصان ہوا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان سبزیوں کا بتایا جا رہا ہے۔ محکمے کے مطابق 25 فیصد نقصان سبزیوں کا ہوا ہے لیکن اس پر کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ادارۂ شماریات نے ایگریکلچر سینسز آف 2024ء کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس سے قبل زراعت شماری 2010ء میں ہوئی تھی۔ 2010ء میں ملک میں 83 لاکھ فارمز تھے‘ جو 2024ء تک بڑھ کر تقریباً 11 کروڑ 70 لاکھ ہو گئے۔ اس میں سالانہ اوسط اضافہ 2.5 فیصد ہے‘ جبکہ دیہات میں گھروں کی تعداد دو فیصد جبکہ فارم ایریا کا سائز صرف 0.8 فیصد بڑھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیہات میں جس رفتار سے آبادی بڑھی ہے‘ اس رفتار سے زرعی رقبہ نہیں بڑھا۔ اور جو رقبہ بڑھا ہے‘ اس میں سے تقریباً نو فیصد بارانی علاقہ ہے‘ جو سیلاب سے متاثر رہتا ہے۔ فارمز کی تعداد بڑھنے کی وجہ چھوٹے فارمز کی تعداد میں اضافہ ہے۔ بڑے فارمز چھوٹے فارمز میں تقسیم ہوئے ہیں اور زیادہ تر فارمز ڈھائی ایکڑ سے کم ہیں۔ چھوٹے فارمز کی تعداد 2010ء میں 43.5 فیصد تھی‘ جو 2024ء میں بڑھ کر 60 فیصد ہو گئی۔ 25 ایکڑ یا اس سے بڑے فارمز 4.1 فیصد سے کم ہو کر 1.4 فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ دیہات میں غربت بڑھنے کی علامت ہو سکتی ہے۔ ایک ایکڑ زمین کی اوسط سالانہ آمدن تقریباً چار لاکھ 70 ہزار روپے ہے۔ اوسط چھوٹے فارمز 0.6 ایکڑ پر مشتمل ہیں‘ جن کی اوسط آمدن تقریباً دو لاکھ 82 ہزار روپے سالانہ بنتی ہے۔ دیہات میں کم از کم سالانہ آمدن کی حد تین لاکھ 40 ہزار روپے ہے اور اس سے کم خطِ غربت سے نیچے تصور ہوتی ہے۔ ملکی کسان کی حالت پہلے ہی پتلی تھی اور اب سیلاب نے اسے مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ان حالات میں زرعی ایمرجنسی کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں