پاک سعودی تعلقات نئی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ ہمارے پاس ہتھیار ہیں اور سعودی عرب کے پاس دولت‘ جلد یا بدیر طاقت کو دولت کے ساتھ ملنا تھا۔ Strategic Mutual Defense Agreement ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس پر بھارت کا پریشان ہونا فطری ہے۔ کیونکہ اب اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہو گا۔ کئی ماہ سے سٹرٹیجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ پر کام ہو رہا تھا جسے مناسب موقع پر عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ جب دو ممالک دفاعی سطح پر بڑے معاہدے کرتے ہیں تو یہ معاملہ صرف دفاع تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا رخ معاشی ایکٹوٹی بڑھانے کی طرف بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب بڑے معاشی معاہدے کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب میں سکیورٹی کے معاملات امریکی کمپنیوں کے سپرد ہیں۔ سعودی عرب میں تین ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر سالانہ 50 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم خرچ ہو رہی ہے۔ ایف 15 طیاروں کو چلانے اور ان کی مرمت کے لیے سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ پیٹریاٹ میزائل سپورٹ کی مد میں 23 کروڑ ڈالرز‘ تربیت کی مد میں سالانہ 30 کروڑ ڈالرز‘ مشترکہ مشقوں کے لیے 10 کروڑ ڈالرز‘ انٹیلی جنس شیئرنگ میں تقریباً 20 کروڑ ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ 2020ء سے 2025ء کے درمیان ایڈوائزری سپورٹ کی مد میں سالانہ سات کروڑ ڈالرز امریکہ کو ادا کیے گئے۔ سعودی عرب نے پچھلے دس سالوں میں تقریباً 350 بلین ڈالرز کا اسلحہ اور دفاعی سامان امریکہ سے خریدا ہے‘ جو تقریباً 35 بلین ڈالر سالانہ بنتا ہے اور حال ہی میں سعودی عرب نے امریکہ سے 142 بلین ڈالرز مالیت کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو کسی بھی عرب ملک کی جانب سے سب سے بڑی دفاعی ڈیل ہے۔ ان اخراجات کے باوجود سعودی حکمران امریکہ پر بھروسا نہیں کر پا رہے اور انہیں اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ حجازِ مقدس کی حفاظت کسی بھی مسلم ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے لیکن حفاظتی اقدامات اسی صورت سود مند ثابت ہو سکتے ہیں اگر وسائل کا درست استعمال کیا جائے۔ پاکستانی فوج کی قابلیت دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ پاکستانی جوانوں نے چینی اسلحے کا درست استعمال کر کے دنیا کو باور کرا دیا ہے کہ اگر پاکستان کے پاس وسائل ہوں تو سپر پاورز کی نسبت زیادہ بہتر نتائج دیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں جدید اسلحے کی تیاری کے لیے بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے اور دونوں اطراف سے اس معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ پاک سعودی معاہدے کے تحت پاکستان ڈیفنس انڈسٹری میں تقریباً 15 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان انٹیگریٹڈ ایئر ڈیفنس نیٹ ورک قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہائپرسونک میزائل سسٹم میں مزید جدت لانے اور پی ایل 15 کو سعودی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سائبر ڈیفنس میں مدد لی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں انرجی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعت کا پہیہ نہیں چل رہا۔ پاکستان میں بجلی کی قیمت 15 سینٹس فی یونٹ‘ انڈیا میں سات سینٹس‘ بنگلہ دیش میں نو سینٹس اور چین میں چار سینٹس ہے۔ کئی سال محنت کرنے کے باوجود بھی پاکستان ٹریڈنگ ملک سے مینوفیکچرنگ ملک نہیں بن سکا۔ سعودی عرب سے تیل کی سستی سپلائی پاکستان کے صنعتی مسائل کو کم کر سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان سستی مینوفیکچرنگ نہیں کر سکتا اور مجبوراً چین سے امپورٹ کرکے ملکی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب پاکستان کو دو ارب ڈالرز دے سکتا ہے لیکن اس طرح کی امداد ماضی میں بھی پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں دے سکی۔ پاکستان کو امداد کے بجائے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے بجائے مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ سٹاک ایکسچینج بہتر پرفارم کر رہی ہے۔ بیرونی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں اور جولائی اگست میں پچھلے سال کے انہی مہینوں کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ منافع اپنے ملکوں میں لے جا چکی ہیں لیکن پاکستان میں مزید سرمایہ کاری نہیں کر رہیں بلکہ ان دو ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری تقریباً 22 فیصد کم ہوئی ہے۔ ان دو ماہ میں 59 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز منافع بیرونِ ملک منتقل ہوا اور 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز سرمایہ کاری ملک میں آئی۔ سب سے زیادہ منافع چین منتقل ہوا جو تقریباً 20 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ میں تقریباً نوکروڑ 60 لاکھ ڈالرز‘ نیدرلینڈز آٹھ کروڑ 70 لاکھ ڈالرز اور امریکہ کو تقریباً چار کروڑ 20 لاکھ ڈالرز منتقل ہوئے۔ سب سے زیادہ ڈالرز جو بیرونِ ملک منتقل ہوئے ہیں وہ توانائی کے شعبے سے حاصل ہونے والے منافع کی مد میں ہیں۔ یہ مہنگی بجلی کے منصوبوں کا نتیجہ ہے۔ نہ بجلی سستی ہو رہی ہے نہ سرمایہ کاری آ رہی ہے اور منافع بھی ملک سے باہر جا رہا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے مناسب لائحہ عمل سعودی عرب کے ساتھ مل کر طے کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ کامیابی حالیہ پاک بھارت جنگ کا ثمر ہے۔ پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد بھارت کا نہ صرف مورال گر گیا ہے بلکہ پوری دنیا سے اسے معاشی دھچکے لگ رہے ہیں جن کا فائدہ پاکستان کو ہو سکتا ہے۔ جنگ میں تقریباً 100 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانے کے بعد امریکہ سے 50 فیصد ٹیرف‘ چابہار بندرگاہ پر کام کرنے پر پابندی اور اب H1B ویزہ کی فیس 1500 ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کرنے سے انڈیا کو بڑا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔ H1B ویزوں میں بھارتیوں کی شرح تقریباً 72 فیصد ہے۔ سافٹ ویئر ٹیک ایکسپرٹس کی وجہ سے سب سے زیادہ بھارتی اس ویزے پر امریکہ جاتے رہتے تھے۔ اگر اس فیصلے کو چیلنج نہ کیا گیا تو لاکھوں بھارتیوں کو امریکہ چھوڑ کر بھارت واپس جانا پڑ سکتا ہے جس سے ترسیلاتِ زر میں کمی ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں بھارتی سافٹ ویئر ایکسپورٹ پر پہلے ہی 50 فیصد ٹیکس ہے۔ اگر ایک سال تک یہ معاملہ یونہی چلتا رہا تو پاکستانی ٹیک کمپنیاں امریکہ میں جگہ بنا سکتی ہیں اور پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں بھارتی ٹیکسٹائل بند ہونے کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا اور ملک میں ٹیکسٹائل ورکرز کی قلت ہو گئی تھی۔ وہی وقت دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔
دوسری جانب ملک میں آن لائن جوئے کی تشہیر کے خلاف مہم جاری تھی لیکن اس مہم کو لیڈ کرنے والے سرکاری آفیسر کو بغیر وجہ بتائے ٹرانسفر کر کے چھ ماہ کی رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اب جوئے کے خلاف مہم والا معاملہ سست روی کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں آن لائن جوئے کے غیر قانونی کاروبار کی مالیت تقریباً 20 کروڑ ڈالر سالانہ ہے اور اگلے سال کے اختتام تک یہ بڑھ کر 50 کروڑ ڈالرز ہو سکتی ہے۔ اتنے بڑے والیم کی مالی ٹرانزیکشنز میں بڑے مقامی گروپوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے ‘جسے مافیا بھی کہا جاتا ہے۔ شاید مافیاز کے دباؤ کی وجہ سے ہی اس پر مزید تحقیقات نہ کی جا سکیں اور غیر قانونی دھندا چلتا رہے۔ جب کسی پروجیکٹ میں اربوں روپوں کا منافع ہو تو تین لاکھ تنخواہ لینے والا ملازم اس کے سامنے کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے؟ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا‘ جب بھی ملک کے کرپٹ نظام کو درست کرنے کی کوشش کی گئی تو بااثر طاقتوں نے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہے۔