پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نئی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ جس طرح وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی امریکی سرزمین پر عزت افزائی ہو رہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اگلا مرحلہ ان قربتوں کو معاشی تعلقات میں تبدیل کرنا ہے۔ جس طرح سیاستدانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر شہرت اقتدار نہ دِلا سکے تو وہ شہرت بے معنی ہو جاتی ہے‘ اسی طرح آج کل ملکوں کے درمیان تعلقات سے اگر معاشی فوائد حاصل نہ کیے جا سکیں تو گہری اور مضبوط دوستیاں اور عزت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ امریکہ جیسا امیر اور طاقتور ملک بھی ہر ملک سے اپنے تعلقات کو معاشی معاہدوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ پاکستان پر اس وقت قدرت ہر طرح مہربان دکھائی دے رہی ہے کہ امریکہ ایک طرف پاکستان کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کے لیے معاشی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں ایسی صورتحال بہت کم دیکھنے کو ملی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے ہوئے ہیں اور بھارت کیلئے ڈراؤنے خواب کی صورت ختیار کر چکے ہیں۔ اگر اب بھی پاکستان امریکہ سے معاشی فوائد حاصل نہ کر سکا تو شاید دوبارہ یہ وقت آنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ فیلڈ مارشل نے ملک کی نایاب معدنیات امریکی صدر کو بطور تحفہ دی ہیں۔ یہ ایسا سیکٹر ہے جس میں پاکستان بھارت سے بہت آگے ہے۔ بھارت کے پاس تقریباً تین سے چھ ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر ہیں جبکہ پاکستان کے پاس آٹھ ٹریلین ڈالرز سے زائد کے معدنی ذخائر ہیں۔ آٹھ ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر کو ان حالات میں بہتر بیچا جا سکتا ہے۔ یہ سب سے بڑا اور مؤثر سیکٹر ہے جو پاکستان کو معاشی ٹائیگر بنا سکتا ہے۔ شاید امریکہ 10 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری پر رضامند ہو جائے۔ ماہرین کے مطابق 10 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے امریکہ بیس سالوں میں تقریباً 100 ارب ڈالرز پاکستان سے کما سکتا ہے۔ لیکن اس کیلئے سرمایہ کاری کا ماحول بنانا‘ سکیورٹی دینا ‘ ون ونڈو سہولت مہیا کرنا اور ایس آئی ایف سی کا بہتر استعمال کرنا ضروری ہے۔
دشمن ملک کو نقصان اس وقت فائدہ مند ہوتا ہے جب مدمقابل ملک اس میں سے اپنا حصہ وصول کرے۔ بصورت دیگر یہ انا کی تسکین سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ بھارت اور امریکہ کے مابین تجارتی حجم تقریباً 213 ارب ڈالر ہے۔ تقریباً 129 ارب ڈالر کی انڈین ایکسپورٹ اور تقریباً 40 ارب ڈالرز امریکہ انڈیا کو برآمد کرتا ہے۔ انڈین ایکسپورٹ امریکہ کی نسبت تقریباً 45 ارب 60 کروڑ ڈالرز زیادہ ہے۔ امریکی پابندیوں کے بعد اس حجم میں کمی آ سکتی ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ امریکہ مرحلہ وار بھارتی معیشت کو کمزور کر رہا ہے۔ ابھی تک نقصان کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ پہلے 79 ارب ڈالر کی اشیا کی برآمد پر 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا‘ لیکن سروس سیکٹر پر اضافی ٹیرف لاگو نہیں ہوا تھا۔ انڈیا تقریباً 50 ارب ڈالرز کی سروسز براہ راست امریکہ کو فراہم کرتا ہے۔ اگر امریکی انڈین کمپنیوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ ویلیو تقریباً 101 ارب ڈالر بنتی ہے‘ جس میں سرفہرست آئی ٹی سروسز ہیں۔ اس سیکٹر کی حوصلہ شکنی کے لیے H1B ویزوں کی فیس میں 66 گنا اضافہ کیا گیا۔ ان ویزوں کا تقریباً 72 فیصد انڈیا اور ان میں سے تقریباً 80 فیصد صرف دو بھارتی کمپنیاں استعمال کرتی ہیں۔ ایک سال میں تقریباً 60 ہزار H1B ویزے بھارتیوں کو جاری ہوتے ہیں۔ اس حساب سے اگلے سال اتنے ویزے جاری کرانے کیلئے انڈین کمپنیوں کو تقریباً چھ بلین ڈالرز سالانہ درکار ہوں گے جبکہ پہلے اگر 60 ہزار انڈینز کو امریکہ بلانا ہوتا تو تقریباً آٹھ سے 12 کروڑ ڈالرز خرچ ہوتے تھے۔ انڈین کمپنیوں کے منافع کی شرح پہلے ہی کم ہے‘ اس اقدام کے بعد دونوں کمپنیاں بھاری نقصان میں جا سکتی ہیں۔ اس لیے سستی سروسز لینے کے لیے پاکستان کو آئی ٹی معاہدے ٹرانسفر کیے جا سکتے ہیں۔ انڈیا کے سافٹ ویئر انجینئرز کا ریٹ پاکستان سے زیادہ ہے اور معیار میں پاکستان انڈیا سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم ملک کی بڑی ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز کو ساتھ لے جا کر امریکہ میں لابنگ کریں تو اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس طرح کورونا میں انڈیا کے ٹیکسٹائل آرڈرز پاکستان نے بروقت حاصل کیے تھے اور آج کل پاکستان اور انڈیا میں سیلاب سے فائدہ اٹھا کر افغانستان نے اپنی برآمدات میں 54 فیصد اضافہ کر لیا ہے‘ اسی طرح پاکستان امریکہ سے آئی ٹی آرڈرز حاصل کر سکتا ہے۔
دوسری جانب افغانستان‘ روس اور سینٹرل ایشیا کے ساتھ بھارتی تجارت کو نقصان پہنچانے کے لیے چابہار بندرگاہ سے تجارت پر پابندی لگا دی گئی۔ انڈیا اگر سینٹرل ایشیا اور افغانستان تک تجارت کرنا چاہتا ہے تو چابہار آئیڈیل بندرگاہ ہے۔ اس لیے وہ چابہار پر سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ انڈیا کا افغانستان کے ساتھ زمینی بارڈر نہیں لگتا وہ پاکستان کا محتاج تھا۔ اس لیے انڈیا نے پاکستان کو بائی پاس کرنے کے لیے نیا روٹ ڈیزائن کیا تھا۔ وہ ممبئی سے چابہار بندرگاہ اور چابہار بندرگاہ سے زارنج کے راستے افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ زارنج افغانستان کے صوبے نیمروز کا سرحدی علاقہ ہے جس کی سرحد ایران سے ملتی ہے۔ انڈیا نے افغانستان میں زارنج دلارام ہائی وے بنائی تھی۔ یہ ہائی وے ہرات‘ قندھار ہائی وے سے جڑتی ہے اور وہاں سے انڈین مال پورے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں بھیجا جاتا تھا۔ لیکن چابہار بندرگاہ پر پابندی سے انڈیا کے لیے یہ راستہ بند ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھارت کی تجارت تقریباً ایک ارب ڈالر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انڈیا پر چابہار بندرگاہ کی پابندی سے افغانستان میں پچاس کروڑ ڈالرز اور سینٹرل ایشیا میں تقریباً 25 سے 30 کروڑ ڈالرزکا فوری نقصان ہو سکتا ہے اور اگر پابندیاں جاری رہیں تو مستقبل میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے آئیڈیل ہے۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کی اہمیت میں زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ انڈین مصنوعات کی افغانستان میں کمی کو پاکستان بہتر انداز میں پورا کر سکتا ہے اور افغان مصنوعات سستے داموں پاکستان آ سکتی ہیں۔ اگلے مرحلے میں امریکہ نے برانڈڈ ادویات کی درآمد پر 100 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے اور اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان انڈیا کو ہو سکتا ہے۔ انڈیا کی ٹوٹل ادویات کی برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالر ہیں‘ جس میں سے تقریباً آٹھ ارب ڈالر کی ادویات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کو تقریباً 35 کروڑ ڈالرز کی ادویات برآمد کرتا ہے جس میں سے امریکہ کو تقریباً نو لاکھ 50 ہزار ڈالرز کی برآمدات ہوتی ہیں۔ بہتر سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو ادویات کی درآمدات میں خصوصی رعایت حاصل کی جا سکتی ہے اور پاکستان امریکہ میں انڈیا کی ادویات کے گیپ کو پُر کرنے میں کافی مددگار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں پاکستانی چاول کی برآمدات بڑھانے پر بات ہو سکتی ہے‘ کیونکہ اس وقت انڈیا کے لیے امریکہ چاول برآمد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انڈیا امریکہ کو تقریباً 455 ملین ڈالرز کے چاول برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف تقریباً 57 ملین ڈالرز کے چاول امریکہ برآمد کرتا ہے۔ اس مرتبہ سیلاب سے انڈین چاول کو پاکستان کی نسبت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ میں نے پچھلے کالموں میں اعداد وشمار کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ پاکستانی چاول کو 60 فیصد نقصان پہنچنے کی خبریں غلط ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ چاول کی فصل پچھلے سال سے زیادہ ہو گی تو شاید غلط نہ ہو۔ آج تمام ملکی اور غیر ملکی ادارے یہی خبریں دے رہے ہیں‘ جن کا دعویٰ ہم نے دو ہفتے قبل کیا تھا۔ بہرکیف امریکی مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈین چاول کی ڈیمانڈ میں کتنی کمی آتی ہے یہ جاننا ضروری ہے تاکہ بروقت سٹرٹیجی بنائی جائے اور سفارتی ذرائع کو تجارت بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔