رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’ بنی اسرائیل کے اُمورِ سیاست انبیائے کرام انجام دیتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوجاتاتودوسرا نبی اُن کی جگہ لے لیتا مگر اب یہ اَمر قطعی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،سوتم میں خُلفاء ہوں گے‘‘۔(صحیح بخاری:3455)اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہواکہ سیاست شِعارِنبوت ہے جس کے بغیرمعاشرے کے نظم میں تواز ن قائم نہیں رہتا اور معاشرہ افراتفری کا شکار ہوجاتا ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست کے شعبے میں پَے دَرپَے ایسے عناصر آئے کہ سیاست گالی بن گئی۔ ہمارے سیاست دان یہ جاننے کے باوجود کہ ملک کو درپیش حالات اور دستیاب وسائل میں ان دعوئوں اور وعدوں پر پورا اترناعملاً ممکن نہیں ،اپنی انتخابی مُہم اور انتخابی منشور میںبلندبانگ دعوے اور وعدے کرتے ہیں ۔ آج کل جب کوئی کسی سے کہتاہے کہ مجھ سے سیاست نہ کروتو اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے دھوکہ نہ دو، مجھ سے جھوٹ نہ بولو ۔یہ ہمارے معاشرتی زَوال اور اَخلاقی تَنزُّل کی اِنتہاہے ۔یہ سطور لکھنے پر میں اِس لئے مجبور ہواکہ حال ہی میں ہمارے مذہبی سیاست دان بھی آپے سے باہر ہوگئے اور دین کی حساسیت اور نزاکتوں کو خیرباد کہہ دیا ۔امریکہ دشمنی اور امریکہ سے نفرت مُسلَّم اور اُس کا جوازبھی موجود ہے ،لیکن کیا اِظہارِ نفرت وعداوت کے لئے ہماری بولیاں اور لُغتیںاتنی بانجھ ہوگئی ہیں کہ ہمیں اس کے لئے الفاظ نہیں مل پارہے اور اِس کے لئے شہادت اور شہید کے مُقَدّس شِعار کو استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے عوام وخواص میں اگرچہ بے عملی اور بے حمیّتی دَر آئی ہے مگر اِس کے باوجود دین اور دینی شعائر کے بارے میں حسّاسیت موجود ہے ۔ایسی بات کیوں کہی جائے کہ بعد میں دور اَز کار تاویلات کا سہارا لینا پڑے ۔ہمارے یہاں شہادت کا اعزاز عطاکرنے کا حق لوگوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیاہے؛چنانچہ اپنا بندہ دوچار قتل کرنے کے بعد بھی ماراجائے تو شہید ہے اور فریقِ مخالف مظلوم بھی ہو تو ہماری نفرتوں کا مستحق ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اِن لوگوں کی جاری کردہ شہادت کی اسناد مُقتولین کے کفن یا تابوت میں رکھی جائیں گی اور اُس پر اُن کی جزاوسزاکے فیصلے ہوں گے۔ لِلّٰہ!یہ شِعار چھوڑ دیجئے ۔کون عصبیّتِ جاہلیت پر مرا ،کس نے دولت کی خاطر جان دی ،کس کو اپنے شَجاعت کے جوہر دکھانے تھے اور کس کو ناموری مطلوب تھی اور کس نے’’ فی سبیل اللہ‘‘ جان دی، یہ سب فیصلے اللہ عزّوجلّ کی عدالت میں ہوں گے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اﷲ خیانت کرنے والی نگاہوں اور دلوں میں چھپے رازوں کو خوب جانتاہے‘‘۔ (غافر:19)ہم زیادہ سے زیادہ ظاہرِ حال پر بات کرسکتے ہیں، لیکن اُس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حدودکی پاس داری ہونی چاہیے۔ دینی شعائر ، علامات، اصطلاحات اور مناصب کے اِطلاق میں اِبتذال کاانداز اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ اکابر علمائیِ دیوبند دوسال پہلے جامعہ اشرفیہ لاہور میں تین روز تک بند کمرے میں اجلاس کے بعد ایک اجماعی بیان جاری کرچکے ہیں جس میں واضح طور پر یہ قراردیا گیا تھاکہ اسلامی ریاست میں نفاذِ شریعت کی مسلّح جدوجہد جائز نہیں ہے۔ جمعیت علمائیِ اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن اور جماعتِ اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد بھی ایک سے زائد بار یہ پالیسی بیان جاری کرتے رہے ہیں، یعنی موجودہ دور میں پرامن اور جمہوری طریقوں ہی سے شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ہر متبادل راستہ فساد وانتشار کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جن لوگوں نے خلوصِ نیت ہی سے سہی جو متبادل راستے اختیارکئے، ان کا انجام کیاہوا، مابعدنتائج سے امت کو فائدے زیادہ حاصل ہوئے یا نقصانات ، اس کا کوئی نہ کوئی تخمینہ ضرور مرتب ہونا چاہیے۔ہم ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں جس میں پورا سچ بولنا ناممکن نہیں توانتہائی مشکل ضرور ہے۔گزشتہ برسوں میں مختلف این جی اوزنے مختلف مسالک کے علماء اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو جمع کرکے مکالمے کرائے اور پھر ان کے نتائج کو کتابی شکل میں شائع کیا۔اُن میں بڑے معتبر نام بھی شامل ہوئے ۔میں نے اُن سے کہا کہ آپ لوگوں نے خروج اور خوارج کا حکم تو بیان کردیامگر اپنے ملک کے داخلی تناظر میں اس کا مصداق کون ہے اور اس کا حکم کیا ہے؟ یہاں آکر سب کے پَر جلتے ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ جب اپنے ملک کے داخلی تناظر میں اس کا اطلاق نہیں کرنا تواس ساری مشق کی ضرورت یا افادیت کیا رہ جاتی ہے اور اس پر جووسائل خرچ ہوئے اُن کا عملی زندگی میں ماحَصَل(Output)کیا ہے؟ دوسرا نزاعی مسئلہ جو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر داخلی انتشاروفساد اور تَمرُّد (Insurgency)کو کنٹرول کرنے کے لئے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے امن وامان کے قیام کے لئے میدان عمل میں آتے ہیں، بعض اوقات وہ جان سے جاتے ہیں ، ان کی شہادت کو بھی محل نزاع بنادیا گیا ہے۔ آپ حکمرانوں اور مُقتَدِرہ پر تنقید ضرور کریں جو پالیسیاں بناتے ہیں، بیرونی قوتوں کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں اور ملک وقوم کے مستقبل کے فیصلے اپنے اقتدار کے دَوَام کے لئے کرتے ہیں ، لیکن اُن سے تو آج تک کسی نے جواب طلبی نہیں کی۔نائن الیون کے بعد ملک وقوم کے مستقبل کا سودا کن شرائط پر ہوا، کیسے ہوا، کیونکر ہوا؟ یہ تو آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ہماری نام نہاد ہمہ مقتدرپارلیمنٹ2002ء تا2007ء اور پھر 2008ء تا2013ء رہی۔کیااس نے اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کیں ، کسی سے حساب مانگا ، عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا؟ لیکن اگر آپ سیاسی یا برسرزمین مصروف عمل فوجی جوانوں اور افسروں کو اس بات کا مکلف (Accountable)بنائیں گے کہ وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کریں کہ کس کے مقابل کھڑا ہونا ہے، کس پر گولی چلانی ہے اور کس پر نہیں چلانی تو پھرفوج کانظم تو تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ ماتحت نے تو اپنے افسر کا حکم ماننا ہے۔ جواب طلبی ہرادارے کی مقتدرہ اور اتھارٹی سے ہونی چاہیے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے( کفار کے مقابلے کے لئے )ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر بنایا، اُس (امیر نے) آگ جلائی اور سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میںداخل ہوجاؤ، کچھ لوگ (اطاعت امیر کو لازم سمجھتے ہوئے) اس کے لئے تیار ہوگئے لیکن کچھ دوسرے سپاہیوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے توہم نے اسلام قبول کیا ہے۔اس واقعے کو (واپسی پر) رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا گیا توآپﷺ نے اُن مجاہدین کو جو امیر کے حکم پر آگ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوگئے تھے ، فرمایا: اگر تم (خدانخواستہ ) آگ میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک آگ میں جلتے رہتے اور دوسرے گروہ (جنہوں نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا) کی تحسین فرمائی اور آپﷺ نے فرمایا: کسی ایسے امر میں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آئے، مخلوق (خواہ اس کا منصب کوئی بھی ہو) کی اطاعت لازم نہیں ہے ، اطاعتِ امیر صرف معروف میں ہے(یعنی صرف اُن امور میں جو شریعت میں جائز ہیں )‘‘(صحیح مسلم:4761) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جن منکرین ِزکوٰۃسے جہاد کیا وہ کلمہ گو تھے، صرف دین کے قطعی فریضے یعنی زکوٰۃ کا انکار کیا تھا؛ چنانچہ اُنہوں نے فرمایا: واللہ! میں اُن کے خلاف ضرور قِتال کروں گا جو فریضۂ دین اور حکم ربانی ہونے کے اعتبار سے صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ پس تاریخِ اسلام سے یہ ثابت ہے کہ مجاہدین اسلام نے امیر کی اِطاعت میں تلوار چلائی اور جان قربان کرنے والے شہید کہلائے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اہلِ نہروان (یعنی ان کے عہد کے خوارج) کے بارے میں (شرعی حکم) پوچھاگیا کہ کیاوہ مشرک ہیں؟ توحضرت علیؓ نے فرمایا: شرک سے بچنے کے لئے تووہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔پھر اُن سے سوال ہوا : کیاوہ منافق ہیں؟انہوں نے فرمایا: منافق تواللہ تعالیٰ کا ذکربہت کم کرتے ہیں۔پھرسوال ہوا:امیرالمومنین !توپھر یہ کون لوگ ہیں؟اُنہوں نے فرمایا: یہ ہمارے بھائی ہیںجنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے توہم نے اُن کی بغاوت کی وجہ سے اُن پر تلوار اٹھائی ہے۔اس روایت کو اس مقام پر ابن جریر اوردیگر محدثین نے بھی بیان کیاہے‘‘۔(البدایہ والنہایہ لابن کثیر ،جلد5، ص:393) اِس سے واضح طور پرمعلوم ہوتاہے کہ خلفائے راشدین نے حکومتِ اسلامی کے باغیوں کے خلاف جہاد کیا۔اب فُقہائے عصر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر خالص قطعی شرعی حکم بیان فرمائیں تاکہ اُمّت کے لئے اِس مشکل اوراِبتلا میں صحیح سمت کا تعین ہوسکے۔