محرام الحرام کامہینہ تھا،چودھری نثارعلی خان،عمران خان اورچند باخبر صحافی حضرات کی روایت کے مطابق سات ہفتوں کی شبانہ روز کاوشوں کی بدولت مذاکرات کا ڈول ڈالا ہی جانے والا تھا کہ امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے مذاکرات کا قتلِ عام کردیا، یہ بہت بڑا اجتماعی نقصان تھا جس کی تلافی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ چودھری نثار علی خان نے مذاکرات کے ظالمانہ قتل کی انتہائی اثر انگیز ''شامِ غریباں‘‘منائی جسے ٹیلی ویژن چینلز پرایک دنیا نے دیکھا۔چوہدری صاحب ماشاء اللہ ایک اچھے خطیب ہیں اورالفاظ کو اپنے تن بدن بلکہ من پر بھی طاری کرکے اپنے خطاب کے تاثر کودوآتشہ بلکہ سہ آتشہ کردیتے ہیں،ان کے چہرے کا تاثراُن کے الفاظ سے بھی زیادہ پُرتاثیر ہوتاہے۔
ہم جیسے سیاستِ دوراں سے نابلد لوگوں کے لیے مقامِ حیرت واستعجاب یہ ہے کہ یہ نیک کام اوراعلیٰ قومی مشن چوری چھپے کیوں ہورہا تھا،کیا مذاکرات کاروں کو پہلے ہی سے ان کے چوری ہونے، لُٹ جانے اور سبوتاژ ہونے کا خدشہ تھا،ورنہ چھپ کر تومجرم ضمیری(Guilty Conscience)والے کام کیے جاتے ہیںاورجن سے مذاکرات ہونے جارہے تھے، وہ تو آئی ٹی کے بھی بڑے ایکسپرٹ ہیں، قومی وعالمی میڈیا میں ان کی جڑیں پیوست ہیں، خبر دینا یا لینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ تو حال ہی میں اپنے حریفوں کو اسکائپ پر مناظرے کی پیشکش کرچکے ہیں،تومذاکرات اسکائپ پرکیوں نہیں ہوسکتے تھے۔
ایک عشرے سے بین الاقوامی اورقومی سطح پر یہ الزام لگایا جارہا تھا کہ شمالی علاقہ جات میں مصروفِ جہاد لوگوں کا نظریاتی منبع مدارس اوراہلِ مدارس ہیںاوراس کی نموداورنشأۃ وزیرستان کے پہاڑوں میں ہوتی ہے اور پھر زیرِزمین اپنی راہیں بناتے ہوئے پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ہم اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے پلیٹ فارم سے انتہائی شدّ ومدّ کے ساتھ اس کی تردید کرتے رہے، لیکن چودھری صاحب نے اپنی سیاسی کرامت سے اس سے بھی آگے بڑھ کراستادی شاگردی اورپیری مریدی کے رشتے بھی ثابت کردیے۔اسی لیے جب تک ڈرون حملے نے نادیدہ غیبی مذاکرات کے غبارے سے ساری ہوا نہ نکال دی،چودھری صاحب نے کسی اورکواس کی ہوا بھی لگنے نہ دی ورنہ ہم جیسے طالبانِ علم کو بھی پتا چل جاتا کہ ان کی شرعی اساس کیا تھی اور کن اصولوں پرانہیں بتدریج آگے چل کر اختتام تک پہنچانا تھا۔ ہماری حکومت نے اپنی جانب سے کھلے دل کے ساتھ غیرمشروط طور پر مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا، مگر فریقِ ثانی نے بے بس حکمرانوں کے سرپرڈرون کا کوہِ گراں ڈال دیاجو اٹھائے نہ اٹھے اورچھُڑائے نہ بنے۔قراردادوں اور قومی وملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی تقدیس پر مشتمل پُراثراورپُردرد بیانات کے سحر سے یہ رک نہیں پارہے۔ ہلکی پھلکی بات ڈرون گرانے کی بھی ہوتی ہے، مگر سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیا ہوگا؟تو یہ بھی ہزارملین ڈالر کا سوال ہے۔بجا طور پر ایران کی مثال دی جاتی ہے کہ ایران نے ڈرون کے کمپیوٹرائزڈ نظام کو De Code کرکے یعنی کمپیوٹرائزڈنظام کے رموزواشارات کو دریافت کرکے کامیابی سے اتار بھی لیا تھااورشاید ہم بھی یہ کرسکیں، مگر تیل کے ذخائر نہیںہیں اور خزانہ خالی ہے، پس یا تو تیل کے وافر ذخائر چاہئیں یا ڈالر کے انباراورہمارے ملک میں دونوںچیزوں کا قحط طاری ہے۔
ہماری اے پی سی بھی اسی طرح باکرامت ہوتی ہے، چند گھنٹوں میں اس کے بطن سے ایک قرارداد برآمد ہوتی ہے اور قومی ہو یا بین الاقوامی، ہر مشکل سے مشکل مسئلہ دوچار گھنٹوں میں حل ہوجاتاہے۔ قائدینِ کرام قرارداد پر دستخط کرکے باہر نکلتے ہیں اور پھر سب کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں۔ سیدمنورحسن صاحب سے ایم کیو ایم کے بدلتے موقف کے بارے میں یہی سوال ہواتو انہوں نے کہا کہ صرف قراداد پر ان کے دستخط کو سچا ماننا چاہئے، باقی ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیناچاہیے۔
میں ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں پورا سچ بولنا مشکل بلکہ عملاً ناممکن ہوتاجارہا ہے،اُس دن میں نے اچانک ٹیلی ویژن اسکرین پر قمرزمان کائرہ صاحب کو سنا، وہ فرمارہے تھے کہ سچ کوئی نہیں بولتا،ہرایک کو اپنی جان کی امان چاہیے اور میں بھی ڈرتے ڈرتے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ریاست سے برسرپیکارلوگ ہمارے آئین وقانون کو نہیں مانتے۔کائرہ صاحب نے پانچ سال حکومت کی ہے،ان سے بہترکون جانتا ہے کہ شمال وجنوب کی ہوائیں بڑی گرم ہوتی ہیں، ان کی حرارت ڈرون سے بھی زیادہ ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی پنج سالہ حکومت کے صدقے کے طور پر آج کے حکمرانوں کو ٹھنڈے ائر کنڈیشنڈ ماحول میں اپنا دورانیہ پورا کرنے دیں۔ویسے وہ آج کل قدرے فارغ ہیں،کسی قریبی مدرسے میں چلے جائیں،رسول اللہ ﷺ نے ایسے نازک مواقع کے لیے نجات کا راستہ بتایا ہے کہ :جب پورااورکھراسچ بولنے میں جان کا خطرہ ہو توصریح جھوٹ سے بچنے کے لیے کوئی ذومعنی کلمہ بول کرجان کی امان پالیا کریں،کیونکہ جان ہے تو جہان ہے، ارشادِ نبویؐ ہے:صریح جھوٹ سے بچنے کے لیے تعریض کا شِعار اپنانا چاہیے(یعنی ذومعنی بات کرکے حق بیان بھی کردیںاورپھنس جائیں تونجات کا راستہ بھی نکل آئے)۔سب سے حقیقت پسندانہ بات قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے کی ہے کہ جب امریکہ آپ کا جنم جنم کا ساتھی ہے، مُرَبیّ ہے،کبھی گلے کا ہار بن جاتاہے اورکبھی گلے کاطوق اور پاؤں کی زنجیر بن جاتاہے،اس لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ اسے بھی On Boardلیںیعنی جوکرنے جارہے ہیں،اس پران کو بھی اعتمادمیں لیں تاکہ نجات کی کوئی راہ نکل آئے۔
امریکی سفارت کار سے ایک تقریب میں سامنا ہوا تو میں نے اُن سے پوچھا کہ ڈرون کے مسئلے پرآپ اپنی پوری بات ہمارے مشیرِ خارجہ کو نہ سمجھا سکے یا وہ نہ سمجھ سکے، ہم جیسے اردو میڈیم لوگوں سے تو اہلِ مغرب کے ساتھ تفہُّم وتفہیم یعنی سمجھنے سمجھانے میںغلطی ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے مشیرِخارجہ جناب سرتاج عزیز تو انگلش میڈیم ہیں، تو یہ غلط فہمی انہیں کیسے ہوگئی کہ باہرآکرانہوں نے پوری قوم کو بشارت سنائی کہ اب ڈرون حملے نہیں ہوں گے اور اگلے ہی روز اُن کی پوری قوم کے سامنے سبکی ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے تو انہیں یہ بتایاتھا کہ ہم صرف اپنے مطلوب افراد کو نشانہ بناتے ہیں،آپ کے لوگوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے اور ہمیں وہ لوگ مطلوب ہوتے ہیں جو ہمارے لوگوں کو مارچکے ہیں یا مارنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، معلوم نہیں اُن کو سیدھی سی بات سمجھنے میں کیا دشواری ہوئی؟میں نے کہا کہ کچھ لوگ جو پاکستان کو مطلوب ہوتے ہیں،وہ افغانستان میں آپ کے زیرسایہ رہتے ہیں یا آپ کی اُن تک رسائی ہوتی ہے، لیکن آپ نے ان کو توکبھی نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے حکومتِ پاکستان نے کبھی ایسا کوئی مطالبہ کیاہی نہیں۔واﷲاعلم بالصواب۔
کاش کہ من حیث ُ القوم ہم پرایسا وقت بھی آئے کہ ہم شامِ غریباں کے ماحول سے نکلیں اورصبحِ بہاراں بھی آئے۔ قوم کوکوئی حقیقی بشارت اور راحت بھی ملے ۔ ویسے چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں جوشِ خطابت میں حزبِ اختلاف کو ایک غیر معمولی پیشکش کردی ہے کہ آئیے! قومی اسمبلی کے سارے براہِ راست منتخب ہونے والے272اراکین کے نتائج کی چھان بین کراتے ہیںاور جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کے ذمے یہ کارِ خیر لگادیتے ہیں۔معلوم نہیں چودھری صاحب نے اپنی پارٹی سے کسی ایسی کھلی پیش کش کی منظوری بھی لی تھی یانہیں؟یا ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کی وجہ سے ترنگ میں آگئے۔مگر اندھے کو کیا چاہئے؟ دو آنکھیں۔ اپوزیشن تو ویسے ہی محرومِ اقتدار ہے، اسے اورکیا چاہیے کہ حکومت بھی گھر چلی جائے اور آزادانہ و غیرجانبدارانہ انتخاب کے نام پر ایک نیامیدان سج جائے۔ ان کے پاس گنوانے کے لیے توکچھ نہیں،یا تو لاٹری نکل آئے گی، ورنہ جہاں کھڑے ہیں وہ جگہ تو اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے:''اچھی بات کہو ورنہ خاموشی بہترہے‘‘۔