اسی طرح ہم جناب عمران خان سے بھی عرض کرناچاہیں گے کہ بظاہر آپ کا موقف جمہوری نظام کے تسلسل کے حق میں ہے اور یہ ایک اچھی روش ہے، مگر اس کے لئے آپ کو صبر واستقامت سے کام لینا ہوگا، بے احتیاطی اور عُجلت پسندی آپ کی منزل کو دور کرسکتی ہے۔ آپ ملک کی حکمرانی کی خواہش رکھتے ہیں، جو آپ کا جائز جمہوری حق ہے ، مگر اس کے لئے دوراندیشی کی ضرورت ہے۔ ابھی تو آپ کا سینٹ میں وجود ہی نہیں ہے۔ 2015ء کے شروع میں آپ کسی حدتک سینٹ میں داخل ہوپائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) سینٹ میں اپنی موجودگی کے باوجود تحفظ پاکستان بل سینٹ سے پاس کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور پہلے پارلیمانی سال میں پارلیمنٹ سے ایک بھی ایکٹ پاس نہیں کرایا جاسکا۔ صرف پنجاب میں چند سیٹیں زیادہ لینے سے آپ اپنے گوہرِ مقصود کو پانہیں سکیں گے اور آپ کی موجودہ اخلاقی برتری بھی پھر ختم ہوجائے گی۔
اس لئے آپ کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ سیاسی اور عوامی دباؤ کے ذریعے جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کے لئے پہلے بنیادی نوعیت کے فیصلے کرائیں۔ مگر اس کے لئے آپ کا ایجنڈا واضح ہوناچاہئے کہ آیا آپ جمہوری نظام کی اصلاح چاہتے ہیں اوردرحقیقت آئندہ انتخابات آپ کی منزل ہیں یا ہر قیمت پر حکومت کو گرانا چاہتے ہیں کہ: ''نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘والا منظر رونما ہوجائے۔سردست آپ جمہوری نظام کے اندر مؤثر طور پر موجود ہیں اور نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کی اصلاح چاہتے ہیں اور دباؤبرقرار رکھنے کے لئے عوام کو بھی ساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں ،یہ حکمتِ عملی درست ہے، جبکہ اس کے برعکس بعض رہنماؤں کا ایجنڈا آئین کے اندر رہتے ہوئے پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، لہٰذا فرق اور سَمت واضح ہونی چاہئے۔
ہمارا تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں صوبۂ خیبر پختونخوا میں جانا نہیں ہوا، صرف بعض آنے جانے والے عام لوگوں سے تاثرات معلوم کرتے رہتے ہیں ، جن کی رُو سے اسکولوں ، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں کسی حدتک باقاعدگی آئی ہے، عملہ اب حاضر رہتاہے،تعلیمی معیار اور کارکردگی میں بہتر ی کے لئے کچھ وقت لگے گا۔ اسی طرح ہماری معلومات کے مطابق ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی حاضری میں بھی باقاعدگی آئی ہے اور کسی حدتک عوام کو دوائیں بھی مل رہی ہیں، پٹوار کے نظام میں بھی بہتری آئی ہے اور رشوت میںبھی کمی آئی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہمارے ہاں حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بیوروکریسی کی نادیدہ مزاحمت کی بھی ایک روایت ہے اور انہیں ناکام بنانے کے حربے بھی ایجاد ہوتے رہتے ہیں ، پس بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں خسرے کے ٹیکے لگوانے سے صوبۂ خیبر پختونخوا کے چارسدہ اور سوات کے علاقوں میں بچوں کی اموات کے جوواقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ان کی بھی تحقیقات ضروری ہیں، کیونکہ اصل حقائق اور وجوہ سامنے نہ آنے کی صورت میں پوری مہم متاثر ہوسکتی ہے اور انسانی فلاح اور حفظانِ صحت کے شعبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
پولیس نظام میں بہتری اور امن وامان کے حوالے سے دعوے تو ہیں ، لیکن برسر زمین اِس کے مثبت نتائج ہمارے علم میں نہیں ہیں۔امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق صاحب میرے بیٹے کی تعزیت کے لئے تشریف لائے تھے، انہوں نے کہاکہ پولیس افسران کی پوسٹنگ میں ہمیں سیاسی اثر ورسوخ کے شواہد نہیں ملے، اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پاکستان میں بلاشبہ یہ ایک اچھی اور مثالی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔ مالی سال کے اختتام پر برسرِ زمین ترقیاتی کام بھی لوگوں کو نظر نہیں آرہے۔
اﷲتعالیٰ نے پاکستان کو ایسا جغرافیائی تزویراتی محلِّ وقوع عطا کیا ہے کہ علاقائی اور عالمی سیاست میں اسے مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ کھیلوں کے شعبے ، خاص طور پر بین الاقوامی ہاکی اور کرکٹ میں پاکستان کوگزشتہ ایک عشرے یا اس سے بھی زائد عرصے سے اچھوت بنا رکھا ہے اور اس میںاصل عمل دخل بھارت کا ہے، اس میں کچھ غیروں کی ستم رانی اور کچھ اپنوں کی نااہلی شامل ہے۔
''اے روشنیٔ طبع تو برمن بلاشدی‘‘کے مصداق اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں انعام بھی ہوتی ہیں اور بعض اوقات یہ آزمائش بھی بن جاتی ہیں ۔ یہی صورتِ حال پاکستان کے جغرافیائی تزویراتی پوزیشن کی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے صرف پاکستان کو للکارکر کہا کہ آپ بتاؤ کہ ہمارے دوست ہو یا دشمن؟،یعنی پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کے آپشن کو یکسر ختم کردیا گیا۔ دشمن ہوتو نیست ونابود کردیں گے ، دوست ہوتو ہماری غیر مشروط غلامی قبول کرو، جس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ، بحری ، فضائی اور برّی نقل وحمل کی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے ، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے بعض ہوائی اڈوں کا کنٹرول تک سنبھال لیا۔ ہمارے اُس وقت کے ہمہ مقتدرصدرنے غیر مشروط اطاعت ہی میں عافیت سمجھی، کیونکہ اُن کے بقول انہیں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے دھمکی دی تھی کہ اطاعت قبول نہ کرنے کی صورت میں پتھر کے دور میں لے جائیں گے اور نشانِ عبرت بنادیں گے۔پس سب معاملات زبانی کلامی یا سینہ بہ سینہ طے ہوگئے اور کوئی تحریری میثاق آج تک دستیاب نہیں ہوا۔
بعد میں کولن پاول نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس درجہ غیر مشروط اطاعت کا تو ہم نے خود بھی نہیں سوچا تھا ۔ صدرصاحب نے اس دھمکی کا ذکر اپنی کتاب ''In the line of fire‘‘میں بھی کیا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے اس ''صحیفۂ غلامی‘‘ کی تشہیری وتعارفی مہم کے دوران اس کی تردید بھی کردی۔ صدر صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو امریکہ میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر میجر جنرل (ر) محمودعلی درانی نے بتایا تھا۔ یہ قدرت کا تازیانۂ عبرت ہے کہ امریکہ اب افغانستان سے فاتحانہ شان کے ساتھ واپس نہیں جارہا ، بلکہ ایک حدتک ناکامی ونامرادی کاتأثر چھوڑ کر جارہا ہے، کیونکہ وہ اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق طالبانِ افغانستان کو نیست ونابود نہیں کرسکا۔ اور اب امریکہ نے اس سے سبق بھی حاصل کیا ہے، چنانچہ حال ہی میں امریکی صدر بارک اوباما نے ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوسروں کی جنگ میں نہیں کودیں گے۔
افغانستان پر سوویت یونین کی یلغار اور نائن الیون کے بعد ایسے مواقع آئے کہ پاکستان اپنے لئے کوئی دیر پا اقتصادی منصوبے بنالیتا، مگر دونوں مواقع پر فوجی حکمران تھے، اس لئے خوف اور لالچ پر مبنی پالیسی بنی، محدود مدت کے لئے ڈالر کی ریل پیل ہوئی، مگران دونوں مواقع کے نقصانات کی گہرائی بڑی عمیق اور گیرائی بڑی محیط ثابت ہوئی اور ہم اُسے آج تک بھگت رہے ہیں۔ ممکن ہے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسا کوئی بیدار مغز سیاسی رہنما ہوتا، تو ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کی بجائے کوئی بہتر سودے بازی کرلیتا۔ یہ بھی کیا دانش ہوئی کہ :''سو پیاز بھی کھاؤ اور سو جوتوں کی مار بھی برداشت کرو‘‘۔ایک بار امریکی سفیر سے مکالمہ ہوا ، میں نے ان سے کہاکہ ماضی میں حکومتیں ایک دوسرے کے بارے میں اپنی تشویش اور شکایات سفارتی ذرائع سے فریقِ ثانی تک پہنچاتی تھیں، مگر اب حال یہ ہے کہ ہمارے حکمران آپ کے فرمانبرداری بھی کرتے ہیں اور ہرروز سہ پہر کو وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں ڈانٹ بھی سنتے رہتے ہیں۔ لہٰذا عوام ان سے کہتے ہیں کہ:''اور چوپو‘‘، یعنی اور غلامی کرو۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے ''حوضۂ فکری(Think Tanks)‘‘ یا ہارورڈ یونیورسٹی کے علم السیاست کے ماہرین سے کہیں کہ وہ بین الاقوامی سفارت کاری کا کوئی نیا باوقار نظام وضع کریںتاکہ آپ کے اطاعت گزار حکمرانوں کی آبرو کسی حدتک سلامت رہے ۔
ہماری رائے میں پاکستان میں ایک متفقہ قومی ایجنڈے کی شدید ضرورت ہے جس میں ہماری فوری اور طویل المدتی ترجیحات کا تعین ہو، خودکفالتی(Self Reliance)معیشت کے خطوط متعین ہوں، اس کے لئے پارلیمنٹ میں مُعتدبہ نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لینا اوربا معنی مشاورت اور فیصلوں میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ سب جوابدہ بنیں اور ملک مشکلات کے بھنور سے نکل سکے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست کا رائج الوقت شِعار یہ ہے کہ حکومتِ وقت کو رگڑا لگاؤ، ملک کا جو حشر ہوتا ہے ، ہوتا رہے۔