"MMC" (space) message & send to 7575

سات طبقات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:''سات اشخاص ایسے ہیں، جنہیں اﷲتعالیٰ اپنی خصوصی سایۂ عاطفت میں رکھے گا، جس دن اس کے سایۂ رحمت کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ (1)عادل حکمران،(2)وہ نوجوان جس نے عنفوان شباب میں اپنی زندگی اللہ کی عبادت میں گزاری،(3)وہ شخص جس کا دل(ہمیشہ) مسجد میں لگارہے، (4)ایسے دو اشخاص جو محض اﷲ(کی رضا) کے لئے آپس میں محبت کریں، ان کے باہم تعلق قائم کرنے اور توڑنے کا (سبب) صرف رضائے الٰہی ہو،(5)ایسا شخص جسے کسی منصب (Status) اور جمال والی عورت نے دعوتِ (گناہ) دی ہو، تو وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں(اور اس کے قدم گناہ کی طرف بڑھنے سے رک جائیں)، (6)ایسا شخص جو اس قدر راز داری سے صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کیا،(7)اور ایسا شخص جس نے خَلوت میں اللہ کو یاد کیا ہواور (خوفِ الٰہی سے بے اختیار) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں ، (بخاری:660)‘‘۔
اس حدیث میں ایسے سات انسانی طبقات (Categories)کو بیان کیا گیا ہے ، جو اﷲ عزّوجلّ کو اَزحد محبوب ہیں اور جنہیں وہ حشر کے دن اپنی رحمت کے سائبان میں خصوصی پناہ عطا فرمائے گا، جس دن اس کے سایۂ رحمت کے سوا کسی کے لئے کوئی جائے امان نہیں ہوگی ۔ ان میں سے سب سے پہلے رسول اللہﷺ نے ''امامِ عادل‘‘ کا ذکر فرمایا ، کیونکہ عدل ہی کے ذریعے لوگوں کو حقوق ملتے ہیں، ظالموں سے امان ملتی ہے اور اللہ کی زمین امن وآشتی اور عافیت کا گہوارہ بنتی ہے، ورنہ فساد اور انتشار‘ امن وامان‘ دلوں کے چین اور ذہنوں کے سکون کوغارت کردیتاہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عادل حکمران کا ایک دن (جس میں وہ مظلوموں کو انصاف فراہم کرے) ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور اللہ کی زمین پر قائم کی جانے والی ایک حد، جس میں اس کے حق کی پوری رعایت کی گئی ہو، چالیس سال کی بارش سے زیادہ زمین کو (شر سے) پاک کردیتی ہے، (نصب الرأیۃ، جلد:4، ص:67)‘‘۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت کا فائدہ اجر کی صورت میں عبادت گزارکو ملتاہے، مگر عدل کے سبب مظلوم انسانوں کو حقوق ملتے ہیں، ظلم سے نجات ملتی ہے اور ان کے لئے اللہ کی زمین راحت کدہ بن جاتی ہے۔
اللہ کے محبوب بندوں کا دوسرا طبقہ وہ جوان ہیں ، جنہوں نے آغازِ شباب ہی سے اپنی زندگی اپنے رب کی عبادت میں گزاری ہو۔ انسان کبھی بھی اپنے آپ کو دنیوی حاجات اور ضروریات سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ دنیا کی محبت اس پر اس قدر غالب نہ ہوجائے کہ اسے یادِ خدا سے غافل کردے۔ اس لئے وہ بشری تقاضوں کے مطابق دنیوی کام کاج بھی کرتاہے، لیکن اس کا دل مسجد میں لگا رہتاہے، یعنی اللہ کی عبادت کا شوق اس پر غالب رہتاہے۔ ہم ایک ایسے دور میں ہیں کہ ہمارے تعلقات کا مَدار ترغیب وترہیب پر ہے، یعنی یا تو طمع ولالچ کے سبب کسی سے جڑے رہتے ہیں یا اس کے ضرر اور شر سے بچنے کے لئے تعلق قائم کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ایک مومن کا دوسرے مومن سے تعلق صرف اللہ کی رضا کے لئے ہوناچاہئے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ''اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں، جو نہ نبی ہیں نہ شہید ، قیامت کے دن اللہ سے ان کا قرب دیکھ کر انبیاء علیہم السلام اور شہدائِ کرام ان کی تحسین کریں گے۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !یہ کون لوگ ہیں؟(یعنی ان کی صفات کیا ہیں)،آپ ﷺ نے فرمایا:یہ وہ ہیں جو کسی رشتے داری اور لالچ کے بغیر صرف میری رضا کے لئے لوگوں سے محبت کرتے ہیں، ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور جب (قیامت کے دن) لوگ خوف زدہ ہوں گے ، انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا،(سنن ابوداؤد:3528)‘‘۔
نفلی صدقات کو چھپاکردینے کی اس حدیث ِ پاک میں فضیلت بیان فرمائی گئی ہے،چونکہ اس میں ریا اور نام ونمود کا شائبہ نہیں رہتا ، اﷲعزّوجلّ کا ارشاد ہے:''اور اگر تم صدقات عَلانیہ طور پر دو ،کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر تم ان کو پوشیدہ رکھ کر فقرا کو دو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے،(البقرہ:271)‘‘۔ یعنی کسی دینی حکمت کے تحت صدقات عَلانیہ طور پر دئیے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کارشاد ہے:''اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کراور اذیّت پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو، جو اپنا مال ریاکاری کے لئے خرچ کرتاہے اور وہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا، بس اس کی مثال اُس (چکنے) پتھر کی طرح ہے، جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زور کی بارش ہوئی، جس نے اس پتھر کو بالکل صاف کردیا، (البقرہ:264)‘‘۔ اورپھر اگلی آیت میں فرمایا:''اور جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی رضا جوئی اور اپنے دلوں کو مضبوط رکھنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اونچی زمین پر ایک باغ کی طرح ہے، جس پر زور دار بارش ہو تو وہ اپنا پھل دُگنا لائے ، پھر اگر اس پر زور دار بارش نہ ہوتو اسے شبنم ہی کافی ہے، (البقرہ:265)‘‘۔
اس حدیث میں یہ بھی بتایا کہ انسان کے ضمیر میں خوفِ خدا ہی ایسا جوہر ہے جو اسے شہوت رانی اور نفس پرستی سے روکتاہے اور اس کے ایمان وعمل کی حفاظت کرتاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور رہا وہ جو(قیامت کے دن)اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر (جواب دہی کے تصور سے) ڈرا اور نفسِ امّارہ کو اس کی خواہش سے روکا، پس بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے،(النازعات:40-41)‘‘۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کے تصور سے ڈرا، اس کے لئے دو جنتیں ہیں، (الرحمن:46)‘‘۔اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''بے شک جو لوگ اﷲسے ڈرتے ہیں، انہیں اگر شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھوبھی جاتاہے، تو وہ خبردار ہوجاتے ہیںاور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، (الاعراف:201)‘‘۔یعنی وہ غفلت سے نکل آتے ہیں اور گناہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔
اسی طرح اس حدیثِ پاک میں مومن کے دل پر اﷲتعالیٰ کی ہیبت اور جلالت کے طاری ہونے اور اس کے نتیجے میں آنکھوں سے آنسوجاری ہونے کی کیفیت کابیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جب وہ رسول کی طرف نازل کئے ہوئے کلام کو سنتے ہیں ، تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے، (المائدہ:83)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جو شخص اللہ کے خوف سے رویا، وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا ، حتیٰ کہ دودھ تھن میں لوٹ جائے اور اللہ کی راہ میں پڑنے والا غبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہوگا،(ترمذی:1633)‘‘۔ یعنی جس طرح تھن سے دودھ نکلنے کے بعد واپس تھن میں نہیں جاسکتا، اسی طرح جس دل میں خَشیَتِ الٰہی ہو اسے اﷲتعالیٰ جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ اور آپﷺ نے فرمایا: ''دو قسم کی (آنکھوں کو) دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، (1)وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو،(2)اور وہ آنکھ جس نے اللہ کے دین کی حفاظت میں (اسلامی ریاست کی سرحد پر ) رات گزاری ہو،(سنن ترمذی: 1639)‘‘۔ مگر یہ اس رونے کی فضیلت ہے ، جو خَلَوت میں ہواور اﷲ عزّوجلّ کی ہیبت وجلالت اور اس کی بارگاہ میں جواب دہی کے تصور سے گریہ طاری ہو، کیونکہ اس میں ریاکاری کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔ یہ اس گریہ وزاری کی فضیلت نہیں ہے، جس کے اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ رقت آمیز دعا کی جائے گی، اشتہاری رقّت‘ اداکاری اور ریا کاری کا ہی مظہر بن سکتی ہے۔ جب کہ خَلَوت کے آنسو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابلِ قدر ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں