اللہ تعالیٰ انسان اور اُس کی فطرت کا خالق ہے۔ اس نے انسان کی جبلّت میں بیک وقت غضبانی اور ملکوتی استعداد (Potential) ودیعت فرمائی، اسی لیے خیر و شر کی ایک کشمکش ،نیکی اور بدی کی ترغیبات (Motives) کی صورت میں انسان کے وجود کے باہر برپا رہتی ہے اور ایک خود انسان کے اپنے وجود میں، کیونکہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ پیدا نہیں کیے اور اسے نیکی اور بدی میں تمیز کا شعور عطا نہیں کیا۔‘‘(البلد:8تا10) ...اور فرمایا: ''اور نفس کی قسم اور جس نے اس کو درست بنایا، پھر بدکاری اور پرہیزگاری (میں تمیز کا ملکہ) اس کو الہام فرما دیا، سو جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کر لیا، وہ کامیاب ہوا اور جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ کرلیا وہ ناکام رہا‘‘۔ (الشمس:7تا10)
ان آیاتِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ہدایت کے دو اسباب پیدا فرمائے۔ ایک انسان کے وجود کے اندر ہے اور وہ اس کا ضمیر یا نفسِ لوّامہ (Conscience) ہے، یعنی انسان کی فطرت میں وہ ملکہ جو اُسے نیکی اور بدی میں تمیز کا شعور عطا کرتا ہے اور انسان کے وجود سے خارج بھی ہدایت کے دو اسباب مقدر فرمائے، ایک انبیائِ کرام علیھم السلام کی بعثت اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ الہامی اور سماوی کتابیں۔
انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا تخلیقی شاہکار ہے، ارشاد فرمایا: (1) ''اور بے شک ہم نے انسان کو عزت و تکریم سے نوازا‘‘ (الراء:70)۔ (2) ''اور ہم نے انسان کو سب سے بہترین ساخت میں پیدا کیا‘‘۔ (التین:4) لہٰذا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انسان کے لیے کوئی رحیم و کریم نہیں ہو سکتا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''رسول اکرمﷺ کے پاس قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی، جب وہ اپنے بچے کو دیکھتی تو اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے چمٹاتی اور اس کو دودھ پلاتی تو نبیﷺ نے ہم سے فرمایا: کیا تم سمجھتے ہوکہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے کہا: اگر اس کا بس چلے گا تو یہ اپنے بچے کو آگ میں (ہرگز) نہیں ڈالے گی، تو نبیﷺ نے فرمایا: یہ ماں اپنے بچے پر جتنی مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ مہربان ہے‘‘ (صحیح بخاری:5995) ۔اسی طرح رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے: ''اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا کیا تو اس نے سو رحمتیں پیدا کیں، تو اس نے ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھ لیں اور ایک رحمت تمام مخلوق میں بھیج دی، اگر کافرکو ان تمام رحمتوں کا علم ہو جائے‘ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں‘ تو وہ جنت سے مایوس نہیں ہوگا اور اگر مومن کو اس تمام عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوزخ سے بے خوف نہیں ہوگا‘‘۔ (بخاری:6469)
حدیث کے یہ معنی نہیں لینے چاہئیں کہ پوری کائنات میں تمام حیوانات کی ماؤں کو اپنی اولاد پر جو رحمت و رأفت ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا 100واں حصہ ہے، ہرگز نہیں! یہ نسبت بھی محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دَرحقیقت اللہ تعالیٰ کی لامتناہی اور لامحدود (Infinite) رحمت کے ساتھ سرے سے کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ کائنات کی ہر چیز کی ایک انتہا اور حد ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی حد نہیں ہے؛ تو سوچنے کا مقام ہے کہ ایک ماں کے حصے میں پوری کائنات کی مجموعی رحمت میں سے کتنا حصہ آتا ہوگا اور جب اس کا عالَم یہ ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو آگ میں جلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تو اللہ تعالیٰ کیوں اپنی مخلوق کو عذاب دینا پسند فرمائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر ادا کرو اور (خالص) ایمان لے آؤ‘‘ (النساء:147) ،یعنی عذاب دینا اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشا نہیں، مگر یہ اس کا قانونِ مکافاتِ عمل ہے جو اس کے حکم سے نافذ ہوتا ہے۔
یہ چند تمہیدی کلمات میں نے اس لیے عرض کیے کہ پاکستان میں سزائے موت کی بحالی کے بعد بعض اخبارات نے یہ بحث چھیڑی کہ آیا سزائے موت اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے اصلاحِ معاشرہ کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے بڑھ کر اپنی مخلوق کے لیے کوئی بھی رحیم وکریم نہیں ہو سکتا اور اگر ظالم، قاتل، جابر، مفسد، دہشت گرد اور مشرک وکافر کو سزا دینا رحمتِ باری تعالیٰ کے منافی ہوتا تو جہنم کو پیدا ہی نہ کیا جاتا اور عقوبت و سزا کا کوئی نظام ہی نہ بنایا جاتا۔ اہلِ مغرب نے تو اپنی عقلِ اجماعی (Collective Wisdom) یا اکثریتی دانش کو حاکم علی الاطلاق مان لیا ہے اور انہوں نے طے کر لیا ہے کہ ان کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، جزا کیا ہے اور سزا کیا ہے؟ اس کا فیصلہ انہوں نے خود ہی کرنا ہے اور اسے انہوں نے مذہبِ انسانیت یا انسانیت نوازی (Humanism) کا نام دے رکھا ہے؛ مگر مغرب میں بھی جیل خانے، عقوبت خانے اور کسی نہ کسی درجے میں جزا و سزا کا نظام بہرحال موجود ہے اور حال ہی میں امریکی سینٹ سے سی آئی اے کے بارے میں چھ ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹس کا خلاصہ‘ جو مختلف چھلنیوں سے چھَن کر یعنی Filter ہوکر تقریباً پانچ سو صفحات کی صورت میں سامنے آیا ہے، اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سے بڑھ کر جلّاد اور سفّاک کوئی نہیں اور ظلم و عُدوان کا شاید ہی کوئی عنوان رہ گیا ہو جو انہوں نے گوانتانامو بے، ابو غُریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں اپنے قیدیوں پر نہ آزمایا ہو اور یہی لوگ انسانیت کو رحمت و رأفت کا درس دینے بیٹھ جاتے ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ سفّاک، بے رحم اور درندہ صفت قاتلوں اور دہشت گردوں پر تو انہیں رحم آتا ہے مگر اُن ہزاروں مظلوم اور بے قصور بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں پر رحم نہیں آتا جنہیں کسی قصور کے بغیر ان کی زندگی کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اسلام کی رُو سے انسانی جان کی حرمت اور تحفظ ہر انسان کا انفرادی حق بھی ہے اور پوری انسانیت کا اجتماعی حق بھی، اس حق کے تحفظ کے لیے اسلام نے ''قانونِ قصاص‘‘ نافذ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اے اہلِ دانش تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘ (البقرہ:179) ۔ اگرچہ بظاہر قصاص میں ایک شخص کی جان لی جا رہی ہے، لیکن اس قانون کے بلاامتیاز نفاذ میں تمام بے قصور لوگوں کی جانوں کے تحفظ کا راز مضمر ہے؛ چنانچہ اس زمین پر اولادِ آدم میں رونما ہونے والے سب سے پہلے قتل کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لازم کردیا کہ جس شخص نے قصاص یا فساد فی الارض کے بغیر کسی (بے قصور) شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی (بے قصور) شخص کی جان کو بچا لیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا‘‘ (المائدہ:32)۔
آج کی دنیا میں اپنی عقل و دانش کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کرنے والے صرف ظالمانہ قتل اور فساد و دہشت گردی کی مذمّت کو کافی سمجھتے ہیں اور ظالم، قاتل اور دہشت گرد کی جان کو بچانے کے دَرپے ہو جاتے ہیں اور اسے انسانیت نوازی اور تَرَحُّم (Mercy) سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس نظریے کا مَدار اِس پر ہے کہ ایک جان تو چلی گئی ہے، دوسری جان کو بچا لیا جائے، بھلے قاتل دندناتا پھرے، جبکہ حیاتِ انسانی کا خالق یہ فرماتا ہے کہ بے قصور انسانی جانوں کا تحفظ ''قانونِ قصاص‘‘ کے نفاذ میں ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اپنی نوعیت کے اس منفرد ''جذبہ ٔ تَرَحُّم‘‘ کا پرچار کرنے والوں کی ہمدردی کے مستحق بھی ظالم، قاتل، مفسد اور دہشت گرد قرار پائے۔ کیا کوئی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بھی اپنی مخلوق پر مہربان ہو سکتا ہے جبکہ وہ ایسے ظالموں اور سرکشوں کے بارے میں فرماتاہے: ''(جہنم میں) جب بھی ان کی کھالیں جل کر پک جائیں گی، انہیں دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کو (ہمیشہ) چکھتے رہیں‘‘ (النساء:56)۔
موجودہ دنیا میں بھی ہم سعودی عرب کے نظامِ حکومت کی اچھائیوں یا برائیوں سے قطع نظردیکھتے ہیں کہ وہاں چونکہ حدود و قصاص کے قوانین نافذ ہیں، اس لیے وہاں ان جرائم کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت تو یہ ہے کہ بعض سزائیں برسرِ عام دی جائیں تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور جرائم سے باز رہیں؛ چنانچہ زانی کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور ان پر شرعی حکم کو نافذ کرنے میں تمہارے لیے جذبۂ رحم رکاوٹ نہ بنے‘‘(النور:02) ۔اسی طرح فرمایا: ''چوری کرنے والے مرد و زَن کے (دائیں) ہاتھ کو کاٹ دو، یہ ان کے کرتوت کا بدلہ ہے (اور) اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے‘‘ (المائدہ:38) ۔الغرض اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانونِ حدود و قصاص میں انسانیت کی فلاح ہے اور سب کے لیے عافیت و سلامتی کی ضمانت ہے اور اسی میں سب کے حقوق کا تحفظ ہے۔