''میلاد‘‘ کے معنی ہیں: ''پیدائش کا وقت‘‘ اور ''مَولِد‘‘ کے معنی ہیں: ''پیدائش کی جگہ یا وقت‘‘ ، دراصل یہ ظرف کا صیغہ ہے اور ظرف زمانی بھی ہوتا ہے اور مکانی بھی، یعنی کسی واقعے کے رونما ہونے کا زمانہ یا مقام، یعنی زمانۂ ولادت یا مقامِ ولادت۔ میلادالنبیﷺ کے معنی ہیں: ''نبیِ کریمﷺکی ولادتِ باسعادت کے احوال بیان کرنا‘‘۔ حدیثِ پاک کی مستند کتاب ''سننِ ترمذی‘‘ میں ہے: ''بَابُ مَاجَائَ فِیْ مِیْلَادِالنَّبِیِّﷺ‘‘، ''یعنی میلادالنبیﷺ کا بیان‘‘۔ اس باب کے تحت امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ قیس بن مَخرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں اور رسول اللہﷺ ''عامُ الفیل‘‘ میں پیدا ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے قُباث بن اَشیَم سے پوچھا: عمر میں آپ بڑے ہیں یا رسول اللہﷺ؟، تو انہوں نے کہا: (مرتبے میں تو یقینا) رسول اللہﷺ مجھ سے بڑے ہیں؛ البتہ میری ولادت اُن سے پہلے ہوئی۔ رسول کریمﷺ عامُ الفیل میں پیدا ہوئے (سنن ترمذی: 3619)‘‘۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے زمانۂ ولادت بیان کرنے کو ''میلادالنبیﷺ‘‘ کا عنوان دیا گیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا) اور ان پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہو گی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے، (مریم:15)‘‘۔ ''(حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں) اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہو گی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جاؤں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دونوں آیاتِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ انبیائِ کرام ؑکی ولادت کے دن اُن پر سلام بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود سُنّتِ انبیاء ؑبھی ہے۔ اور یہ مسلَّمہ اصول ہے کہ سابق انبیائِ کرام ؑکے حوالے سے جو امور قرآن مجید میں بطورِ فضیلت بیان فرمائے گئے ہیں اور اُن کی ممانعت نہیں فرمائی گئی، وہ ہماری شریعت میں بھی جائز ہیں۔
مسلمانوں کے میلادالنبیﷺ منانے کا مقصد اس کائنات میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکُّر کا اظہار کرنا، رسول اللہﷺ کی ولادتِ باسعادت کے احوال، آپ کے نسبِ پاک اور فضائل کا بیان کرنا ہے اور یہ خود رسول اللہﷺ سے ثابت ہے: ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہﷺ سے سوموار کے روزے کی بابت پوچھا گیا، آپﷺ نے فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت (اعلانِ نبوت) ہوئی یا مجھ پر (پہلی بار) وحی نازل ہوئی، (صحیح مسلم:2745)‘‘۔ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ اپنی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر سوموار کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے اور ولادتِ مصطفیﷺ کا تشکُّر خود رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاری لکھتے ہیں: ''اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس جگہ اور جس زمانے میں کوئی مبارک و مسعود واقعہ ہوا ہو، تو اس کی وجہ سے اس زمان و مکان کو شرَف و برکت مل جاتی ہے، (مرقاۃ المفاتیح، جلد:4، ص:475)‘‘۔ سنن ترمذی: 746 اور سننِ ابوداؤد: 2452 اور سننِ نسائی: 2419 میں بھی نبیِ کریمﷺ کے سوموار کے نفلی روزے کا بیان ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ سے اپنے نسبِ پاک کا بیان بھی ثابت ہے۔ ''واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا: رسول اللہﷺ فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل میں سے کِنانہ کو چن لیا اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا، (صحیح مسلم:2276)‘‘۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے اپنے والدِ ماجد حضرت عبداللہ سے بائیسویں پشت پر حضرت عدنان تک اپنا نسب بیان فرمایا اور فرمایا: جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا، میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں، مجھے زمانۂ جاہلیت کی
بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں، بدکاری سے پیدا نہیں کیا گیا۔ حضرت آدم و حوا ؑسے لے کر نسب کی پاکدامنی کا یہ سلسلہ میرے والدین تک قائم رہا، میں بطورِ شخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بطور باپ کے تم سب سے بہتر ہوں، (دلائل النبوۃ، جلد:1،ص:174-175)‘‘۔
آپﷺ سے روایت کردہ احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا نورِ نبوت اور نسب حضرت آدم و حوا علیہماالسلام سے لے کر حضرت عبداللہ و آمنہ تک مسلسل پاک پشتوں سے پاکیزہ ارحام میں منتقل ہوتا رہا اور آپ کے تمام آباء اور اُمَّہات میں عہدِ اسلام کے طریقۂ نکاح کے مطابق رشتۂ ازدواج قائم ہوا، لہٰذا آپ کا پورا سلسلۂ نسب طیب و طاہر اور کائنات میں سب سے اعلیٰ ہے، بیہقی کی ''دلائل النبوۃ ‘‘ اور محمد بن یوسف صالحی کی ''سُبُلُ الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد‘‘ اور دیگر کتبِ سیرت میں یہ احادیث موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہﷺ اس کائنات میں اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں میں سے واحد نعمت ہے کہ جس کا اس نے بطورِ خاص اہلِ ایمان پر احسان بھی جتلایا ہے، ارشاد ہوا: ''یقینا اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہی میں سے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا، جو ان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے (قلوب و اذہان) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے،(آل عمران:164)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے: ''اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو، (الضحیٰ:11)‘‘۔
قرآنِ مجید میں عید کا ذکر: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے کھانے کا خوان نازل فرما، (تاکہ) وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہو جائے اور تیری طرف سے (قدرت کی) نشانی ہو جائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے (المائدہ:114)‘‘۔ اس آیتِ مبارَکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ''خوانِ نعمت‘‘ کے نزول کے دن کو یومِ عید قرار دیا اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کر سکتے ہیں؛ چنانچہ سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کی بادشاہت کے قیام کے دن کو ''عیدُالوَطَنی‘‘ کہا جاتا ہے اور سعودی عرب کے علماء سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ تو دنیاوی معاملہ ہے، جبکہ میلادالنبیﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتا ہے، اس لئے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی ولادتِ مبارَکہ اور بعثت کا دن تشکر کا روزہ رکھ کر مناتے تھے اور رسول اﷲﷺ کا فعل شِعارِ دین ہی قرار پائے گا، کیونکہ نعمت کا تعلق بھی دین سے ہے۔ اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے: ''جب نبیﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، تو آپﷺ نے اس کی وجہ پوچھی؟، صحابہ نے عرض کی! یہ نیک دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوںسے نجات عطا فرمائی تھی، تو موسیٰ علیہ السلام نے (اس کے شکرانے کے طور پر ) روزہ رکھا۔ (نبی کریمﷺ نے) فرمایا: میرا موسیٰ سے تعلق تمہاری بہ نسبت زیادہ ہے، پس آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابۂ کرام کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا، (صحیح بخاری: 2004)‘‘۔ دوسری احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے صحابۂ کرام کو دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے (یعنی نو محرم) یا ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کو ملا کر دو دن کا نفلی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، اس سے یہ منشائِ رسالت معلوم ہوا کہ اگر کوئی کام فی نفسہٖ شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے اور کسی جہت سے اس میں مشابہت کا عنصر پایا جاتا ہے، تو محض مشابہت کی وجہ سے اس پسندیدہ کام کو ترک نہیں کیا جائے گا بلکہ مشابَہتِ صُوری سے بچنے کے لئے کوئی بہتر حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔