''امن کی فاختہ ‘‘ کے عنوان سے 26جنوری 2015ء کو میرا کالم چھپا ، اُس میں میں نے لکھا ہے کہ مذاہبِ باطلہ کے ساتھ تَشَبُّہ کے موضوع پر قدرے تفصیل کے ساتھ لکھوں گا۔ آج اس وعدے کی تکمیل کررہا ہوں ، سب سے پہلے چند احادیثِ مبارَکہ ملاحظہ کیجئے:
(1):حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:''بے شک ہم لوگ یہود سے کچھ ایسی باتیں سنتے ہیں، جو ہمیں اچھی لگتی ہیں، کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اُن میں سے کچھ لکھ لیا کریں؟‘‘ آپ ﷺ نے بہ طور زَجر وانکار فرمایا:کیا تم لوگ دینِ اسلام کے بارے میں حیرت میں ہو جیسا کہ یہود ونصاریٰ اس کیفیت میں مبتلاہوگئے تھے، حالانکہ میں تمہارے پاس ایک پاکیزہ روشن دین وملّت لے کر آیا ہوںاور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کے لئے(بھی) میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا،(مسنداحمد:387/3)‘‘۔ (2): رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے مذاہبِ غیر کے ساتھ تَشَبُّہ اختیار کیا وہ ہم میں سے نہیں ، یہودونصاریٰ سے مشابہت اختیار نہ کرو، کیونکہ یہود کا سلام انگلیوں سے اشارہ کرناہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا ہے،(سنن ترمذی:2695)‘‘۔
(3):حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دین میں کسی بات کی بابت اہلِ کتاب سے نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ہدایت ہرگز نہیں دینگے، جب کہ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں ، کیونکہ (دین کے بارے میںاُن سے مشابہت کرکے)یا تو تم باطل کی تصدیق کرو گے یا حق کو جھٹلاؤ گے ، کیونکہ اگر موسیٰ علیہ السلام (آج ) تمہارے درمیان زندہ ہوتے ، تو اُن پر بھی میری اتباع لازم ہوتی ، (مسنداحمد:14631)‘‘۔ (4):''مشرکین کی مخالفت کرو،(بخاری:5892)‘‘۔(5):''مجوس کی مخالفت کرو،(مسلم:260)‘‘۔ (6):''اور جس نے کسی ملت ِ باطلہ کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو اس کا شمار اُنہی میں سے ہوگا،(سنن ابو داؤد :4028)‘‘۔
علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں:''یادرکھو! کہ ہر بات میں اہلِ کتاب کے ساتھ تشبیہ مکرو ہ نہیں ہے، کیونکہ ہم بھی ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، صرف مذموم بات اور ایسی چیز میںجس میںتَشَبُّہ حرام ہے ان کے مذہب کے ساتھ مشابہت کا ارادہ کیا جائے ،(البحرالرائق ، جلد:2، ص:18)‘‘۔ امام احمد رضاقادری ،ملا علی قاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:''ہمیں کافروں اورمنکَر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شِعار میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے،وہ بدعت جو مباح کا درجہ رکھتی ہو اس سے نہیں روکا گیا ، خواہ وہ اہلسنت کے افعال ہوں یا کفار اور اہلِ بدعت کے، لہٰذا حرمت کا مدار مذہبی شِعار ہونے پر ہے،( منح الروض الازہرعلی الفقہ الاکبر،ص:185)‘‘۔
نیزامام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:''تَشَبُّہ دو وجہ سے ہوتی ہے ، التزامی ولزومی ۔ التزامی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی قوم کی خاص وضع کو اس نیت سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنائے اور ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرے ، حقیقی تَشَبُّہ اسی کا نام ہے۔ التزامی میں قصد کی تین صورتیں ہیں:اوّل:اس قوم کو پسندیدہ سمجھ کران سے مشابہت اختیار کرے، یہ بات اگر اہلِ بدعت کے ساتھ ہوتوبدعت اور معاذ اللہ! کفار کے ساتھ ہوتو کفر۔ دوم :کسی غرضِ مقبول (جیسے دشمن کی جاسوسی کرنا) کی ضرورت کے تحت اسے اختیار کرے، وہاں اس وضع کی شَناعت (خرابیاں)اور اس غرض کی ضرورت کا موازنہ ہوگا، اگر ضرورت غالب ہو تو ضرورت کی حدتک تَشَبُّہ، کفر تودور کی بات، ممنوع بھی نہیںہوگا۔ سوم: نہ تو انہیں اچھا جانتا ہے ، نہ کوئی شرعی ضرورت اس کی داعی ہے، بلکہ کسی دنیوی نفع کے لئے یا یونہی بطورِ ہَزل واستہزاء (یعنی غیر سنجیدہ انداز میںیا مذاق کے طور پر) اس کا مرتکب ہوا، تو حرام وممنوع ہونے میں شک نہیں ۔اور اگر وہ وضع ان کفار کا مذہبی و دینی شِعار ہے ، جیسے زُنّار، قَشقہ ، چُٹیایا چلیپا اور گلے میں صلیب لٹکانا، توعلماء نے حکمِ کفر قرار دیا ہے۔ لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں ہے ، مگر وہ وضع غیرمسلم قوم کا شِعار ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگی،اس سے بچنا بھی واجب ہے ۔اسی وجہ سے علماء نے فسّاق کی وضع کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے، (ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ ،جلد:24،ص:530-532)‘‘۔
شِعار کا واحدشَعِیرَہ یا شِعَارَہ ہے ،شِعَارَہ اور مَشْعَرہ کے معنی ہیں : ''خاص نشانی‘‘ ۔ اسی معنی میں خاص علامت کے حامل قربانی کے جانوروں کو اور صفاومروہ کو بھی قرآن میں ''شعائراللہ ‘‘کہا گیا ہے اور شعائراللہ کی تعظیم کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ اسی معنی میں بعض مقامات مثلاًکعبۃ اللہ ، میدانِ عرفات ، مُزدلِفہ ، جمارِثلاثہ اور مقامِ ابراہیم ہمارے دینی شعائرہیں ، اسی طرح زمانے کے بعض مخصوص اوقات ، جیسے رمضان، اَشہُرِحُرُم، عیدالفطر، عیدالاضحی، جمعہ ، ایامِ تشریق وغیرہ ہمارے دینی شعائر ہیں۔ اور بعض افعال جیسے اذان، اقامت ، نمازِ باجماعت، نمازِ جمعہ ، نمازِ عیدین اور ختنہ وغیرہ بھی ہمارے دینی شعائر ہیں،(تفسیر فتح العزیز ، ص:369)‘‘۔
الغرض یہود ونصاریٰ ، ہنوداور دیگر باطل ملّتوں کی وہ علامات جو اُن کا مذہبی شِعار ہیںاور جن پر نظر پڑتے ہی اُن کے مذہب کا تصور ذہن میں آتا ہے، ایسے اُمور میں اُن مذاہبِ باطلہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا حرام وممنوع ہے اور بعض صورتوں میں کفر بھی ہے۔ اسی طرح وہ افعال جو غیر مسلم قوم بطورِ مذہب انجام نہ دیتے ہوں بلکہ وہ ان کی طرزِ معاشرت ہو اور اسی قوم کے ساتھ خاص ہوں توان کو شِعار قومی کہا جاتاہے اور ان سے بچنا بھی لازم ہے۔ اس کے علاوہ ایسے امور میں اہلِ باطل کے ساتھ مشابہت ، جو ان کا مذہبی یا قومی شِعار نہیں ہے، حرام وممنوع نہیں ہے۔ چنانچہ امام احمد رضاقادری سے پوچھا گیا کہ: ''ایک خاص انداز میں باندھی جانے والی دھوتی کو ایک صاحب ہندو کاشِعار قرار دے کراس پر حُرمت کا فتویٰ لگا رہے ہیں‘‘۔ آپ لکھتے ہیں:''دھوتی باندھنے والے مسلمانوں کا یہ قصد تو ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کی سی صورت بنائیں اور فی نفسہٖ دھوتی کی حالت کو دیکھا جائے تو اس کی اپنی ذات میں کوئی حرج بھی نہیں ، بلکہ یہ ایک ایسا لباس ہے کہ جس سے سترِ عورت کا مقصدِ شرعی پورا ہورہا ہے، اصلِ سنت ولباس ِ پاک عرب یعنی تہبند سے صرف لٹکتا چھوڑنے اور پیچھے گُھرس لینے (اُڑس لینے)کا فرق رکھتی ہے، اس میں کسی امرِ شرع کا خلاف نہیں ، تو ممانعت کی دونوں وجہیں قطعاً نہیں پائی جاتیں۔رہا خاص شِعار کفار ہونا ، وہ بھی باطل ہوگا ۔ بنگالہ وغیرہ پورب (مشرقی ہند )کے عام شہروں میں ہند کے تمام رہنے والوں ،مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہی لباس ہے۔ اسی طرح سب اضلاعِ ہند کے دیہات میں مسلمان اور ہندو یہی وضع رکھتے ہیں، حتّٰی کہ شہروں میں بھی بعض اہلِ حِرفت کام کے وقت یہی لباس پہنتے ہیں، ہاںیہاں کئی معزز شہریوں میں اس کا رواج نہیں ہے، مگر وہ صرف اس غرض سے کہ اپنی تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں ، نہ یہ کہ باندھنے والے کو کفر یا حرام کا مرتکب سمجھتے ہیں، تو زیادہ سے زیادہ باوقار اور معاشرے میں ذی وجاہت لوگوں کو گھر سے باہر اس کے پہننے سے احتراز کرنا چاہئے،(ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ ، جلد:24، ص:534-35)‘‘۔
آج کل کوٹ ، پینٹ اور ٹائی عام لباس کی صورت اختیار کرگئے ہیں، جسے مسلم اور غیر مسلم سب پہنتے ہیں اور کوئی بھی اسے عیسائیت یا یہودیت کا مذہبی اورقومی شِعار نہیں سمجھتا، پس کفار کے ساتھ محض مشابہت ممنوع نہیں ہے، البتہ اگر کسی لباس سے سترِ عورت کا شرعی مقصد پورا نہ ہوتاہو، تو وہ اس اعتبار سے معیوب وممنوع سمجھا جائے گا۔ علامہ غلام رسول سعید ی لکھتے ہیں:''خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ تَشَبُّہ ان اُمور میں ممنوع ہے ، جو اُمور کفار کے عقائدِفاسدہ اور اعمالِ باطلہ کے ساتھ مخصوص ہوں یا جو امور کتاب وسنت کی تصریحات کے خلاف ہوں۔ اور جو امور ہمارے اور کفار کے درمیان مشترک ہوں یا جنہیں اختیار کرنا نفع مند ہو ، اُن میں اگر کفار کے ساتھ تَشَبُّہ واقع ہوجائے تو اُس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ احادیث میں اس قسم کے امور کو اختیار کرنے کی بکثرت مثالیں ہیں ، جیسے شہر کے دفاع کے لئے خندق کھودنا کفارِ عجم کا طریقہ تھا، لیکن جب حضرت سلمان فارسی نے غزوۂ احزاب کے موقع پر مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو نبی ﷺ نے اس مشورے کو قبول کرلیا، (تبیان القرآن ، جلد:9،ص:368)‘‘۔
اسی طرح انگریزی دنوں اور مہینوں کے نام ، جن کے پیچھے کوئی یونانی دیو مالائی تصورات ہیں ، اب انگریزی زبان میں ان دنوں اور مہینوں کا نام لینے والے عام آدمی کے ذہن میں وہ پسِ منظر قطعًا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ نام اس زمانے میں کسی باطل مذہب کا مذہبی یا قومی شِعار ہیں، لہٰذا اُن پر بھی مشابہت ِصُوری یا ظاہری کے اعتبار سے حرمت کا فتویٰ لگا نا درست نہیں ہے اور یہ دین میں بلاضرورت عُسر(تنگی) پیدا کرنا ہے، جو شارع علیہ السلام کو پسند نہیں ہے اور اس سے کوئی مقصدِشرعی باطل نہیں ہوتا۔ کسی کی یاد منانے کے لئے موم بتی جلانا یہ مسلمانوں کا شِعار نہیں ہے اوراِسراف ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ امر ہے۔