"MMC" (space) message & send to 7575

قرض کی پیتے تھے مے

غالب نے کہا ہے ؎
قرض کی پیتے تھے مے ، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری، ہمارے قومی منظر نامے کی حقیقی تصویر ہے۔ یمن کے حالیہ بحران نے اسے بالکل واضح کرکے رکھ دیا ہے اور اب اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا، سوائے اس کے کہ دانستہ اندھے بن جائیںیا خدانخواستہ بصیرت یعنی حقائق کے صحیح ادراک کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں۔ سعودی عرب کے ساتھ جو حرمین طیبین کی نسبت وابستہ ہے، اس سے عقیدت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور یہ لازوال اور اَبدی ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے ہم حرمین طیبین کی حُرمت اور اس مقدَّس نسبت کو ایک طرف بھی رکھ لیں، تو ہماری صورتِ حال میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آسکتی۔ 
ہم قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک68سال گزرنے کے باوجود قیادت کی نااہلی ، مفاد پرستی اور خودغرضی کی وجہ سے دوسروں پر مستقل انحصار کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔ ہمارا بال بال داخلی اور خارجی قرضوں میں جکڑا ہواہے اور خود کفالت کی منزل ابھی ہم سے کوسوں دور ہے۔ مگر متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش(اس کا عربی تلفُّظ گرگاش ہے) نے تو کسی رُو رعایت کے بغیر ہمارے حکمرانوں کو آئینہ دکھا دیااور یہ بیان دیا کہ ''یمن کے بحران کے حوالے سے پاکستان کی پارلیمنٹ کی قرارداد خطرناک نتائج ومُضمرات (Subsequences)کی حامل ہے‘‘۔ پھر سعودی عرب کی پارلیمنٹ نے بھی پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کو مایوس کن قرار دیا۔ 
سعودی عرب کے ہاتھ سے عراق اور شام نکل چکے ہیں، شام میں بَشّارالاسد کی حکومت کو گرانے میں امریکہ اور اہلِ مغرب نے وعدۂ فَردَا تو کیا، لیکن وقت آنے پر عملی تعاون سے انکار کردیا، حالانکہ اس وعدے کی قیمت سعودی عرب نے مصر میں الاخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو ناجائز طور پر معزول کرنے میں اعانت کی صورت میں ادا کی۔ اس کا سعودی حکمرانوں کو بہت صدمہ ہوا ۔ اس وقت سعودی عرب کی سرپرستی میں ''خلیج تعاون کونسل‘‘ کے رکن ممالک شامل ہیں اور سعودی عرب ایک طرح سے ان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو کنٹرول کررہاہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور مصرسعودی عرب اور کسی حدتک'' خلیج تعاون کونسل‘‘ ممالک کے وظیفہ خواروں میں شامل ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی بجا طور پر یہ توقع ہے اور اب اسے دھمکی بھی کہہ سکتے ہیں کہ دفاعی میدان میں ہمارا غیرمشروط تعاون کرواورسامانِ حرب اور فوجی دستوں کی فراہمی سمیت تمام مطلوبہ ضروریات پوری کرو۔ 
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستانیوں کے دسیوں ارب ڈالر کے اثاثہ جات اور تجارتی مفادات خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے وابستہ ہیں، ذرا سے جھٹکے سے سرمائے کی یہ فلک بوس عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے۔اس میں ہمارے آج کے حکمرانوں، بیشتر سیاست دانوں ، عام تاجروں اور صنعت کاروں کا سرمایہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ کہا جاتاہے کہ پاکستان کے تیس لاکھ سے زائد افراد کا روزگاربھی اس خطے سے وابستہ ہے اور اسے ہم تیس لاکھ خاندانوں سے بھی تعبیرکر سکتے ہیں۔ ہمارے بیرونی زرِ مبادلہ کے توازن کو کافی حدتک قائم رکھنے کے لیے یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مزدور اور ملازم پیشہ پاکستانی بیرونِ ملک سے زرِ مبادلہ کما کر پاکستان بھیجتے ہیں اوربعض حکمران ،کرپٹ بیوروکریٹ، بااثر لوگ اور تُجّار وصنعت کار اسی سرمائے کو غیرقانونی ذرائع سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ مجھے تو ایسا لگا کہ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیرخارجہ ڈاکٹر انورمحمد قرقاش کا بیان پڑھ کر ہمارے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہوں گی۔ یہ عجَب بات ہے کہ پاکستان میں سرمائے کو غیرمحفوظ سمجھ کر اسے بیرونِ ملک بھیجا جاتاہے، لیکن اس ایک بیان نے یہ ثابت کردیا کہ بیرونِ ملک بھی سرمائے کا یہ محل کتنا غیرمحفوظ اور کتنی کمزور بنیادوں پر قائم ہے۔ 
مشکل وقت میں بہر حال سعودی عرب پاکستان کو مالی سہارا دیتا رہا ہے، خواہ یہ زرِ مبادلہ کی شکل میں ہو، مفت یا طویل المدت قرض پر پٹرول کی فراہمی کی صورت میں ہو۔ پاکستان کے امریکہ کے علاوہ کسی اور خطے سے ایسے مفادات وابستہ نہیں ہیںاور امریکہ جس طرح غلامی کراتا ہے، کم ازکم خلیج تعاون کونسل کے ممالک نے ماضی میں پاکستان کو ایسے حالات سے دوچار نہیں کیا، لیکن ایک بیان نے یہ بتا دیا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے، کیونکہ آخرِکار ہر ایک کو اپنامفاد عزیز ہوتاہے ۔ سو غالب نے قرض کی مے پینے اور اس کے نشے میں مدہوش رہنے والوں کی فاقہ مستی کے رنگ لانے کی جو وعید بہت پہلے سنا دی تھی، اب اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لیکن ہم چونکہ آنکھیں ، کان اور دل ودماغ کے دریچے بند رکھنے کے عادی ہیں، اس لیے جب تک خطرہ سر پہ نہ آجائے، ہم اُس کا اِدراک نہیں کرپاتے۔ سو ہماری پارلیمان میں ہمارے خود ساختہ دانشور (Pseudo Intellectual)اور مدہوش قیادت کی تقاریر اسی کیفیت میں تھیں، انہیں ہوش نہیں تھا کہ ہم گردن تک قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مزید قرض لے کر اپنا نظام چلا رہے ہیں اور کوئی بھی ہمیں اچانک جھٹکا دے کر بے حال کرسکتا ہے۔ 
بہتر ہوتا کہ ہماری پارلیمانی قیادت بند کمرے میں اس صورتِ حال پر غور کرتی اور سعودی عرب کے ساتھ کوئی بہتر معاملات کرتی، پاکستان کے لیے کوئی باوقار اور دیر پا مفادات کی بات کرتی، پاکستانی مزدوروں ، ہنر مندوں اور مختلف پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں کے لیے روزگار کے بڑے مواقع پیدا کرنے کی بات کی جاتی تا کہ کم ازکم زَرِ مبادلہ کا توازن ہمارے حق میں ہونے کے امکانات پیدا ہوتے، اسی طرح پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بہتر مواقع اور امکانات پیدا کیے جاتے،پاکستان پر واجب الادابین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کی کوئی صورت پیدا کی جاتی۔ لیکن ہماری مجموعی قیادت کی بے بصیرتی کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ اس موقع پریہی کہا جاسکتا ہے کہ ع: ''چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی ‘‘ اور اہلِ نظر نے پہلے ہی کہا ہے : ''ہر کہ دانا کُنَد، کُنَد ناداں‘ لیک بعد از خرابیِ بسیار‘‘۔ اور کسی پنجابی صاحبِ نظر صوفی کا قول ہے:''عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں، عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘‘۔ جہاں تک جناب عمران خان نیازی کی بے نیازی کا تعلق ہے، اُن کے لیے بھی اِس قرارداد کے آفٹرشاکس(مابعد جھٹکے) کا مقابلہ کرنا دشوار ہوگا، کیونکہ اُن کے فلاحی منصوبوں کے لیے فنڈریزنگ کا ایک بڑا ذریعہ''خلیج تعاون کونسل کے ممالک ‘‘ میں مقیم پاکستانی تُجّار وصنعت کارہیں۔
قرآنِ مجید کے الفاظ میں ہمارا حال سوت کات کات کر اُسے ریزہ ریزہ کرنے والی بڑھیا جیسا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ، جس نے اپنا سوت مضبوطی سے کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کردیا ‘‘،(النحل:92)۔
یہاں تک یہ سطور اتوار کی صبح لکھی جاچکی تھیںکہ اتوار کی شام تک کے واقعات نے اِن حقائق کی توثیق کردی۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق تاحال قرارداد کی حمایت پر قائم ہیں، لیکن مولانافضل الرحمن نے یوٹرن لے لیا ہے۔ اُن کے ابتدائی ردِّعمل اور اتوار کی شام قرارداد پر تبصرے کو اگر میڈیا لائیودکھادے، تو فرق واضح ہوجائے گا۔ ہمارے نزدیک یمن کے تنازع میں غیرجانبدار رہنے کے الفاظ کا قرار داد میں اضافہ بے معنی ہے، کیونکہ جب یہ عہد کر لیا گیا کہ سعودی عرب کا دفاع ہماری ذمّے داری ہے، تو غیرجانبداری کے کیا معنی؟۔ اتوار کی شام کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا رَدِّعمل سامنے آیا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کا بیان توہین آمیز ہے اورپاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے ۔پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں مستقل وزیرِ خارجہ سے محروم ہے، چنانچہ ایسے مواقع پر بہت سی یقین دہانیاں اور وضاحتیں پسِ پردہ کرلی جاتی ہیں اور سرِعام تماشا نہیں لگتا، لیکن ہماری قسمت میں وقار وافتخار کہاں؟۔
اس موقع پر ایک نمبر گیم بھی چل رہی ہے ۔ بہت سی مذہبی جماعتیں ''تحفظِ حرمینِ طیبین ‘‘کے نام سے ریلیاں نکال رہی ہیں، سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں، ظاہر ہے کہ اس ساری تگ ودَو کا مقصد سعودی حکومت سے قربت کی تمنا اور اس کا اعتماد حاصل کرنے کی آرزو ہے۔ میرے نزدیک سعودی عرب سے قربت رکھنے والی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ انہیں خارجہ اُمور کی نزاکتوں کی بابت آگہی دیں ، پاکستان کے جمہوری نظام کی مجبوریوں اور موجودہ حکمرانوں پر سیاسی دباؤ کے حقائق سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ اُن کی خواہش بہرحال پوری ہوجائے گی، لیکن پاکستانی حکمرانوں کو بے توقیر کرناخود اُن کے مفاد میں نہیں ہے، آخر حب الوطنی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ 
نوٹ: حالات لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہیں، ان سطور کا تکملہ پیر کی صبح تحریر کیا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں