آرٹس کونسل کراچی میں ''ادبی سیمینار ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جناب پرویز رشید نے فرمایا: ''ہماری نفسیات کا حصہ ہے کہ بچوں کو بھی علم سے محروم رکھو اور بڑوں کو بھی علم سے محروم رکھو۔ اب کتاب تو وجود میں آچکی، اسکول تو وجود میں آچکے ،جب پاکستان بنتا ہے، یہ انگریز کا تحفہ ہے، اس کو بند نہیں کیا جاسکتا، اس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ پھر اس کامتبادل تلاش کیا گیا کہ کتاب چھپتی رہے لیکن وہ کتاب نہ چھپے جو آپ تحریر کرتے ہیں ، وہ فکرعام نہ ہو جس کی شمع آپ جلاتے ہیں ۔ لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتاب دی جائے تو کون سی دی جائے؟... ''موت کا منظر ‘‘عرف مرنے کے بعد کیا ہوگا؟(قہقہے)۔ جہالت کا وہ طریقہ جو پنڈت جواہر لال نہرو کو سمجھ نہیں آیا وہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آگیا کہ لوگوں کو جاہل کیسے رکھا جاسکتا ہے...کہ فکر کے متبادل فکردو،لیکن فکر کے متبادل'' مردہ فکر‘‘دے دو... اور پھر منبع جو فکر پھیلاتا ہے، کیا ہوسکتا تھا؟ لاؤڈاسپیکر... لاؤڈ اسپیکر بھی اُس کے قبضے میں دے دو، دن میں ایک دفعہ کے لیے نہیں بلکہ پانچ دفعہ کے لیے دے دو۔ اب آپ کے پاس اتنے اسکول اور اتنی یونیورسٹیاں نہیں ہیں، جتنی'' جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘ ان کے پاس ہیں (تالیاں)، اور بیس پچیس لاکھ طالبِ علم جن کو وہ'' طالبِ علم‘‘ کہتے ہیں ۔
آپ کو تو یہ شکایت ہے کھوڑوصاحب!کہ سندھی سے سندھ کی زبان چھین لی گئی، پختون سے پختون کی زبان چھین لی گئی، پنجابی سے پنجاب کاورثہ چھین لیا گیا، بلوچستان سے اس کی تہذیب اور ثقافت چھین لی گئی ۔ لیکن مجھے یہ بتائیے کہ یہ جو'' یونیورسٹیاں‘‘ ہیں، جن کو ہم سب چندہ بھی دیتے ہیں... عید بقر عیدپر فطرانے اور چندے اور کھالیں دیتے ہیں... خود پالتی ہے ہماری سوسائٹی... یہ جو ''جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں‘‘۔ پنجابی، سندھی ، پٹھان ، مہاجر ،بھائی! ان مسئلوں کا تو کوئی حل نکل سکتا ہے، ان کا حل پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے، بدقسمتی یہ کہ چونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا اس لیے جھگڑا باقی رہ جاتاہے‘ لیکن جو فکر انہوں نے دے دی، جو نفرت، تعصّب ، تنگ نظری انہوں نے پھیلادی اور جو روز پھیلاتے ہیں اور جو تقسیم انہوں نے ڈال دی۔ اسکول میں نصاب میں ایک ہی جماعت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو تقسیم کردیا گیا، ایک فرقے کا نصاب یہ ہوگا کہ زکوٰۃ کیسے دینی ہے اور دوسرے فرقے کا یہ نصاب ہوگا کہ زکوٰۃ کیسے نہیں دینی؟یہ پڑھایا جائے گا بچوں کو، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کو پاکستانی بنانا ہے، ہم ان کو پاکستانی تو نہیں بنا پائیں گے یہ دو مختلف چیزیں پڑھا کر، تو یہ حاوی ہوا آپ کی کتاب پر جہالت کا علم ‘‘۔
میں نے موصوف کے فرمودات لفظ بہ لفظ اس لیے نقل کیے ہیں کہ جب کوئی معقول عذر نہیں بن پاتا، تو کہا جاتاہے کہ میری بات کو سیاق وسباق (Context)سے ہٹ کر نقل کردیا گیا ہے یاغلط Quoteکیا جارہا ہے، اس میں قطع وبرید یا تحریف کی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اسے ایک بار پھر پڑھ لیں، سیاق بھی موجود ہے اور سباق بھی۔ اس بیان میں دین اور اہلِ دین، دینی مدارس وجامعات، دینی طلبہ اور علماء سے عناد واضح ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''اے اہلِ ایمان! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، انہیں (تو)وہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہنچے، اُن کے مونہوں سے بغض عَیاں ہوچکا اور جو (نفرت) وہ اپنے دلوںمیں چھپائے بیٹھے ہیں، اِس سے بہت زیادہ ہے،(آلِ عمران:118)‘‘۔
موصوف کے نزدیک موت اور اس کے بعد کے احوال بیان کرنا ''جہالت‘‘ ہے، اُن کی توانا فکر کے مقابلے میں ''مُردہ فکر‘‘ ہے، دین کا علم حاصل کرنے والے ''طالبِ علم ‘‘ کہلانے کے حق دار نہیں ہیں اور دینی مدارس ''جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘ ہیں ۔ موت اور اس کے بعد کے احوال اور آخرت کے معاملات یعنی جزاوسز اور جنت وجہنَّم کے بارے میں قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے ارشادات واضح ہیں، اِن پر ہر مومن کا ایمان ہے اور ''ایمان بالآخرت‘‘ کے بغیر کوئی شخص مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں بن سکتا۔
جزا اور سزا اور جنت اور جہنَّم کے بارے میںاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1): ''پس جس (کی نیکی) کے پلڑے بھاری ہوں گے ، تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس(کی نیکی) کے پلڑے ہلکے ہوں گے، تو اس کا ٹھکانا ''ہاویہ‘‘ ہوگااور آپ کیا سمجھے کہ ''ہاویہ‘‘ کیا ہے، وہ سخت دہکتی ہوئی آگ (کاسب سے نیچے والاگڑھا) ہے، (القارعۃ:6-11)‘‘۔ (3): ''(رہا اللہ کے برگزیدہ بندوںکا معاملہ تو) اُن کے لیے مقررہ روزی ہے، عمدہ میوے ہیں اور وہ عز وجاہ کے ساتھ نعمت والی جنتوں میں ایک دوسرے کے سامنے مسند نشیں ہوں گے ، اُن کے لیے شرابِ (طَہور) کا جام گردش کر رہا ہو گا، وہ شراب سفید اورپینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی ، نہ اس سے دردِ سر ہوگا اور نہ وہ اس سے بہکیں گے اور ان کے پاس(عِفّت وحیاسے) نگاہیں پست کیے ہوئے بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، گویا کہ وہ انڈوں (کے چھلکوں کے نیچے نرم ونازک) پوشیدہ جھلّی ہے، پس وہ جنتی روبرو ہوکر ایک دوسرے سے سوال کریں گے، ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا: بے شک (دنیا میں) میراایک ساتھی تھا، جوکہا کرتا تھا: کیا تم بھی (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا(وہاں) ضرور ہم کو بدلہ دیا جائے گا؟ (دوسراجواباً) کہے گا: کیا تم اُس (کی حالت) کو جھانک کر دیکھوگے ؟ پھر وہ اس کو جھانک کر دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے درمیان پائے گا۔پھر وہ (اس سے ) کہے گا : اللہ کی قسم! قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتااور اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی(آج) دوزخ میں پڑا ہوتا،تو(جنتی لوگ فرشتوں سے کہیں گے:)اُس پہلی موت کے سواکیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟ اور کیا ہم کو عذاب نہیں دیاجائے گا؟ (پھر تو)بے شک یہ بہت بڑی کامیابی ہے ، ایسی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ، آیا یہ زیادہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا درخت؟ بے شک ہم نے اس کو ظالموں کے لیے عذاب بنادیا ہے، بے شک وہ ایسا درخت ہے جو دوزخ کی جڑ سے نکلتا ہے ، اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں ، (دوزخی) ضرور اسی درخت سے کھائیں گے، سو اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر بے شک ان کے لیے (پیپ) ملا ہوا گرم پانی ہوگا، پھر بے شک ان کو ضرور دوزخ کی طرف لوٹنا ہوگا،(الصّٰفّٰت:40-68)‘‘۔
مسلم لیگ (ن) جو اپنے آپ کو اُس مسلم لیگ کی جانشین سمجھتی ہے ، جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح مرحوم کی پرعزم قیادت میں پاکستان حاصل کیا تھا، تو اسے پرویز رشید کے دین اور اہلِ دین کے بارے میں اِس معاندانہ بیان کا جائزہ لیناچاہیے، اِ س سے پاکستان کے تمام دین دار اور مذہبی طبقات کی دل آزاری ہوئی ہے، جذبات انتہائی حدتک مجروح ہوئے ہیں اور اس کی فوری تلافی ضروری ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے کریڈٹ پر تو اسلامی جمہوری آئین کی تشکیل ہے، اِرتدادِ قادیانیت کی ساتویں آئینی ترمیم ہے، جس میں عقیدۂ ختمِ نبوت کو تحفظ دیا گیا ہے، تمام مسلم حکمرانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے، اس کے برعکس مسلم لیگ کے کریڈٹ پر نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد شہباز شریف کے بارے میں عمومی تأثُّر یہ ہے کہ اپنے پسِ منظر اور خاندانی اعتبار سے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے یہ لوگ مذہب سے زیادہ قریب ہیں۔ اگر یہ تأثر کسی حدتک حقیقت پر مبنی ہے، تو پرویز رشید کو ایک لمحے کے لیے مزید برداشت نہیں کرنا چاہیے‘ ورنہ اسے دو عملی اور منافقت سے تعبیر کیا جائے گا۔پرویز رشید کے خلاف مذہبی طبقات کا احتجاج بالکل بجا ہے، لیکن بدقسمتی سے شریف برادران نے اصلاح پر مبنی بہت سے مشوروںاور آراء کے بارے میں اپنے کان بند کررکھے ہیں۔ انہیں ایک بار پھر مشورہ ہے‘ حق کی آواز پر کان دھریں اور اقتدار کے لیے قدرت کی عطا کی ہوئی فرصت کو اپنے حق میں ابتلاوامتحان کی بجائے انعام میں تبدیل کریں۔
ان مواقع پر کہہ دیا جاتاہے :'' ہمیں افسوس ہے، ہم معذرت کرتے ہیں‘‘۔ ''معذرت‘‘ کے معنی ہوتے ہیں:
''To Excuse‘‘ یعنی اپنی غلطی کی توجیہ کرنا ، تاویل کا سہارا لینا اور اس کے لیے عذر تراشنا، یہ ابلیسی شِعار ہے کہ اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور عقلی دلیل کا سہارا لیا اور ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کے برعکس ''عفو‘‘ کے معنی ہیں: ''اپنی غلطی کو تسلیم کرکے متاثرہ فریق سے معافی مانگنا‘‘۔