ہمارے الیکٹرونک میڈیا کا یہ شِعار بن گیا ہے کہ کسی بھی قضیے یا واقعے کے بارے میں ایک انتہائی درجے کی حسّاسیت (Hypersensitivity)پیدا کرتاہے، جیسے کوئی بھونچال آگیا ہے، دو چار دن اُسے جاری رکھتا ہے اور پھر کوئی نیا واقعہ رونما ہونے پر ''مٹی پاؤ‘‘ والے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اسے دفن کرکے آگے چل پڑتا ہے تاکہ اسکرین کی رونقیں بحال رہیں ، کسی حد تک اس میں پیشہ ورانہ رقابت اور مسابقت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ایگزیکٹ کے بارے میں نیو یارک ٹائمز میںڈیکلن والش کا آرٹیکل شائع ہوا، تو پاکستان میں جیسے ایک قیامت برپا ہوگئی، کیونکہ امریکہ اور یورپ سے کوئی الہامی چیز آجائے تو پھر اُس پر ایمان بالغیب لازمی ہے۔ حالانکہ ایگزیکٹ تو پاکستان میں برسرزمیں قائم تھا اور ہے اور مجوزّہ ٹیلی وژن چینل بول کی خبریں بھی دو تین سال سے گردش میں ہیں اور بعض اینکر پرسنز کے ناقابلِ یقین پیکجز یعنی اعلیٰ ترین مشاہرہ جات ومراعات پر ہائرنگ کی خبریں بھی زبان زدِ خاص وعام تھیں ، ایسا لگتا تھا کہ کہیں کوئی قارون کا پوشیدہ دفینہ وخزینہ ان کے ہاتھ لگ گیا ہے یا عالَمِ غیب سے کچھ نازل ہواہے۔ یہ سرگوشیاں بھی سننے میں آتی رہیں کہ اس کے پیچھے کوئی غیبی طاقت ہے یا خزائنِ عامرہ کے دیوتاہیں ۔ الغرض یہ سارا سلسلہ ایک پراَسرا ریت اورافسانوی صورت اختیار کیے ہوئے تھا۔ لیکن نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل سے پہلے کوئی اس سربستہ راز کو منکشف کرنے پر آمادہ نہ ہوا،حالانکہ ایف آئی اے، انٹیلی جینس اور سراغ رسانی کے سارے ادارے اور ایف بی آر بھی موجود ہے، لیکن آرٹیکل کا چھپنا تھا کہ گویا ایک طوفانی سیلاب کے آگے جونادیدہ بند تھا، اچانک ٹوٹ گیا۔
ہم تو اناڑی لوگ ہیں ، آئی ٹی انقلاب سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ اب تو انٹرنیٹ ہی بحرالعلوم بلکہ'' محیط العلوم ‘‘ہے۔ عربی میں دریا کو'' نَہَر‘‘ ، سمندر کو ''بحر‘‘اور Oceanکو محیط کہتے ہیں۔ ہر اینکر پرسن کے آگے انٹرنیٹ کھلا ہوتاہے اور سارے علوم اور معلومات اُس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور ہرخبر یا معلوم کی التجا ہوتی ہے کہ پہلے ہمیں لے لیجئے۔ اس موقع پر مجھے بے اختیار فارسی کا یہ شعر یاد آگیا جو اہلِ ذوق کے لیے پیشِ خدمت ہے کہ ایک محبِّ رسول نے عالَم حیوانات میں رسول اللہﷺ کی محبوبیت ومقبولیت اور جان نثاری کی کیفیت کو بہ کمال وتمام اس شعر میں بیان کیا ہے ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ برکف
بہ امید آنکہ روزے، بہ شکارخواہی آمد
یعنی صحرا کے تمام ہرن اپنا سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے اپنے دل میں امید کا یہ چراغ روشن کیے ہوئے ہیں کہ شاید کبھی رسول اللہﷺ کا گزر اس طرف سے ہو اوروہ ہمیں شکار فرما لیں اور ہمیں اُن کا شکار بننے کی سعادت نصیب ہوجائے۔
اہلِ مغرب دنیا کو اپنا اسیر بنائے رکھنے کے لیے یہ سارے طریقے پہلے سے اختیار کیے ہوئے ہیں اور اُن کی گنجائش نکالنے کے لیے قانون میں جھول بھی رکھتے ہیں ۔ مثلاً ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی ناجائز دولت کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے Off-Shoreیعنی بعض جزائر پر کاروباری کمپنیاں یا مالیاتی ادارے اور بینک قائم کیے جاتے ہیں ۔ ان کمپنیوں اور اداروں پر اخراجات بھی کم آتے ہیں اور وہ سخت گیر قوانین کی دسترس سے بھی باہر ہوتے ہیں ،وہ کسی سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ یہ بے پناہ دولت کیسے کمائی، کہاں سے آئی، کن ذرائع سے آئی اور کون لایااور دولت کا یہ انبار بھاری ٹیکسوں کی زد میں بھی نہیں آتا۔
اسی طرح یہ جعلی یونیورسٹیاں بھی امریکہ اور یورپ کی ایجاد ہیں ، انٹرنیٹ پر کورسزکا تعارف ، امتحانات کا انعقاد اور ڈگریوں کا اجرا بھی اُن کی ایجاد ہے اور اس کے ذریعے غیر معمولی Tax Freeدولت کی کمائی بھی انہی کا شاہکار ہے ۔ لیکن اگر ان کی اس ایجاد واختراع سے استفادہ کرکے محکوم دنیا کاکوئی بندہ یا ادارہ اس کاروبار میں حصہ دار بن جائے ، تو یہ شرکت انہیں ہر گز گوارا نہیں ہوتی اور پھر اچانک کوئی آرٹیکل چھپ جاتا ہے یا بریکنگ آجاتی ہے اور طوفان مچ جاتا ہے۔ یعنی اپنی انگیخت یا تحریک (Initiative)پر ہم کوئی کام نہیں کرتے ، ہمارا شِعار صرف نقالی اور تقلید ہے ، ایجاد واختراع (Innovation)نہیں ہے۔
کاش! کہ اس سکینڈل کی پاکستان کی سرزمین سے کوئی نشاندہی کرتا۔ کل ایک ٹیلی وژن چینل پر ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹوجناب شعیب شیخ کے انٹرویو کا کچھ حصہ سننے اور دیکھنے کو ملا اور وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سننے کو ملی ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جتنا شوروغوغا مچایا گیا ہے ، اتنا کچھ اس سے برآمد نہیں ہوگا اور آخر میں بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ایک وضاحت شعیب شیخ صاحب نے یہ پیش کی کہ آئی ٹی اور سافٹ وئیر کا کاروبار ٹیکس سے مستثنیٰ ہے،اس پر سابق وفاقی وزیرڈاکٹر عطاء الرحمن کا یہ تبصرہ سامنے آیا کہ سافٹ وئیر کا کاروبار 2016ء تک ٹیکس سے مستثنیٰ ہے ، لیکن آئی ٹی کی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوتاہے ۔
اب ہم بھی سیلاب بلاخیز کے نتائج کے منتظرہیں کہ اس کے بَطن سے کچھ برآمد ہوتاہے یا نہیںاور وزیرِداخلہ کی ساکھ کا بھی امتحان ہے ۔ ڈاکٹرعطاء الرحمن نے بھی کہا ہے کہ جس آمدنی پر ٹیکس ادا نہ کیا ہو، وہ حرام ہے، ہمارے نزدیک وہ غیر قانونی ہے اور ہراُس قانون کا احترام لازم ہے، جس سے شریعت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے ۔اصل جو کرنے کاکام ہے، وہ یہ ہے کہ جن افراد یا اداروں کے تموُّل یعنی اِفراط ِ دولت اور نمودِ دولت کا ایک سمندر موج زن ہے، اس کا تعاقب کیا جائے ، اُس کے مَنابع(Sources)اور سوتوں کا سراغ لگایا جائے ۔ اس کے لیے جیمزبانڈ 007کی ضرورت نہیں ہے ، یہ سب کچھ برسرزمین ہے اور ذمے داروں کے سوا سب کو نظر آرہا ہے۔ انہوں نے آنکھیں‘ کان اور دل ودماغ کے دریچے بند کررکھے ہیں یااُن پر کوئی دباؤ ہے۔
سب سے زیادہ باعثِ حیرت یہ امر ہے کہ بول چینل کی حدتک جولوگ ان کے نیٹ ورک سے وابستہ ہوئے ، وہ جدید تعلیم یافتہ، پروفیشنل اور باخبر لوگ ہیں ، بعض انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کے ایکسپرٹ ہیں ، انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا انہوں نے آنکھیں بند کرکے اسے جوائن کرلیا ہے۔
خود آئی ٹی کی وزیر انوشہ رحمان صاحبہ کا بیان سامنے آیا کہ سائبر کرائم کے لیے ہمارے ہاںکوئی قانون موجود نہیں ہے اور احتساب کامسودہ قانون ہو، سائبر کرائم ہو یا فریڈم آف پریس کے لیے کوئی حد بندی مقصود ہو، ایسے قوانین کا بننا ہمارے ہاں آسان نہیں ہے ، کیونکہ جو اسٹیک ہولڈر یا مراعات یافتہ طبقات ہوتے ہیں ، وہ اس کی راہ میں مزاحم ہوجاتے ہیں ۔ حکومتیں میڈیا سے سہمی رہتی ہیں اور اپنی عزت بچانے میں عافیت سمجھتی ہیں ، سیاست داں اور پارلیمنٹیرین سمجھتے ہیں کہ کڑے احتساب کے کسی بھی قانون کا پھندا سب سے پہلے ان کے گلے میں فٹ ہوگا۔
مسلم لیگ (ن)کی حکومت سینیٹ میں اقلیت میں ہے ، لہٰذا حزبِ اختلاف یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر ان کے لیے قانون سازی عملاً ممکن نہیںہے ۔''تحفظِ پاکستان ایکٹ‘‘ اور اکیسویں آئینی ترمیم یعنی نیشنل ایکشن پلان چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف کی ذاتی دلچسپی اور خواہش یا دباؤ کے تحت منظور کیے گئے ہیں ۔ کراچی میں رینجرز کا آپریشن بھی مسلح افواج کی پشت پناہی کے سبب چل رہا ہے اور حال ہی میں کور کمانڈر جناب لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کراچی کے مسائل کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں دو ٹوک انداز میں بیان کیا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی بقا جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں حزبِ اختلاف کی پشت پناہی کی مرہونِ منّت ہے، اس پر اگر چہ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف کے ''مک مکا ‘‘کی پھبتی کسی جاتی ہے اور جناب عمران خان تقریباً روزانہ کسی نہ کسی انداز میں اس کا اعادہ کرتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس حدتک سیاسی بلوغت (Political Maturity)کے دور میں داخل ہوچکی ہے کہ انہیں اپنا دیرپا مفاد سمجھ آگیا ہے اور اب وہ کسی طالع آزما کا آلۂ کار بن کر لگ بھگ دس سال تک اپنا سیاسی مستقبل تاریک نہیں کرناچاہتے۔ زرداری صاحب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بالعموم جذبات میں نہیں آتے اور مغلوب الغضب نہیں ہوتے اور نہ ہی بعید از عقل بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ۔ جناب عمران خان ہماری قومی سیاست کی ایک منفرد پروڈکٹ ہیں، وہ اس شعر کی مجسم تصویر ہیں ؎
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
لیکن اب وہ بھی آہستہ آہستہ سیاسی پختگی کی طرف آرہے ہیں اور گرجنے کے بعد برسنے کا تأثر دے کر آخرِ کار اب ضبطِ نفس سے کام لینے لگے ہیں اور ''قہردرویش برجانِ درویش‘‘کے مصداق کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں۔