ہمارے ایک سیاسی رہنما جناب عمران خان وقتاً فوقتاً یہ پھبتی کستے رہتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے، کوئی بنانا ریپبلک نہیں ہے۔ بنانا ریپبلک دراصل استعارہ ہے انارکی ، لاقانونیت، بے امنی، فساد اور کرپشن کی گرم بازاری سے، جہاں جنگل کا قانون ہو، طاقت کا راج ہو، کوئی کسی مظلوم کی دادرسی نہ کرسکے اور کسی ظالم کے ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روک نہ سکے، جو ہوا کے رخ پر چلے وہ کامیاب وکامران قرار پائے اور جو ظلم کے ریلے کے آگے بند باندھنا چاہے یاسدِّراہ بننے کی کوشش کرے، وہ بے نام ونشان ہوجائے، صفحۂ ہستی سے مٹ جائے اور نشانِ عبرت بن جائے۔ لیکن منظر کی صحیح تصویر یہی ہے کہ ہم بنانا ریپبلک ہی بنتے جارہے ہیں ۔ فطرت کا دائمی اور ابدی اصول یہ ہے کہ ظلم، ظلم ہے، وقت کے ساتھ اس کے معیارات اور پیمانے بدل نہیں جاتے۔ اسی طرح حق، حق ہے، اس کا پیمانہ بھی ہرایک کے لیے اور ہر دور میں ایک ہی ہوتاہے، تمیز بندہ وآقا اس میں نہیں ہوتی، نہ ہی مَن وتواور یگانہ وبیگانہ کی نسبت سے معیارات بدلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ، خواہ یہ گواہی تمہاری اپنی ذات یا تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،(فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ (تم سے) زیادہ ان کا خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہشِ نفس کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا پہلو تہی اختیار کی ، تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے، (النساء:135)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو گواہی کو چھپائے گا، تواس کا دل گناہ سے آلودہ ہے،(البقرہ:283)‘‘۔ اور ربِّ ذوالجلا ل نے فرمایا:''اور (خبردار!) کسی قوم کی عداوت تمہیں تو عدل نہ کرنے پر برانگیختہ نہ کرے، عدل کرتے رہو، یہی (شِعار) تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے،(المائدہ:8)‘‘۔
ڈسکہ، سیالکوٹ میں جودووکلاء حضرات کے قتل کا سانحہ رونما ہو، یہ بلاشبہ انتہائی سنگین اور افسوسناک ہے، لیکن اُس کے بعد اُس کے ردِّعمل میں وکلائِ کرام نے، جو قانون کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، پے درپے قانون شکنی کے اقدامات کیے ، یہ ایک المیے سے کم نہیں۔ یہ رُجحان انتہائی اذیت ناک اور رسوا کن ہے ۔ آزاد عدلیہ کی بحالی میں وکلائِ کرام کا کردار سب سے نمایاں تھا، وہی سالارِ قافلہ تھے، پھر آزاد میڈیا، سول سوسائٹی اور بیشتر سیاسی جماعتیں بھی ان کے ہم رکاب ہوگئیں اور بالآخر ایک طویل، صبر آزما اور عظیم تحریک کے نتیجے میں یہ ہمالیہ سر ہوگیا اورجناب چیف جسٹس سمیت تمام قابلِ احترام معزول جج صاحبان بحال ہوگئے ، پی سی او کے حلف یافتہ جج صاحبان گھر بھیج دئیے گئے۔
لیکن اس کے بعد متعدد ایسے واقعات ہوچکے ہیں ، جن سے یہ مترشح ہوتاہے کہ وکلاء حضرات اپنے آپ کو قانون سے مُبرّا سمجھنے لگے ہیں ، ماتحت عدلیہ کے ججوں کی بے حرمتی کی گئی ، نجی وقومی اَملاک کی توڑ پھوڑ کے واقعات کیمروں کی آنکھوں میں آج بھی محفوظ ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ ان کی قانون شکنی سے صرفِ نظر کرتی رہی ہے، موجودہ اور ماضی کی قانون شکنی کے واقعات پر اعلیٰ عدلیہ نے گرفت نہیں فرمائی، اگر گرفت فرمائی ہوتی تو شاید قدرے بہتری آجاتی اور وکلائِ کرام کے مزاج میں کچھ ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا۔ سیاسی قائدین کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے نزدیک اقدار وروایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، بس حکومتِ وقت کوجس حربے سے دباؤمیں رکھا جاسکتا ہو ،اُس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دوتاکہ مناسب قیمت وصول کی جاسکے۔ مگرسوچنے کا مسئلہ یہ ہے کہ : قانون شکنی اور اَقدار کی پامالی کے اس ماحول میں آئندہ کوئی بھی حکمران باوقار انداز میں حکومت کرسکے گا؟۔ ہمارا ایٹمی طاقت ہونامسلّم، لیکن ہم بنانا ریپبلک ہی کے مناظرتو پیش کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا یہ ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ تمام طبقات اہلِ مذہب کو کوستے تھے، تمام ہتھیاروں کا رخ اہلِ دین اور دینی اداروں کی جانب تھا، بجا اور مُسلَّم کہ کسی بھی جرم، بے اعتدالی اور قانون شکنی کو مذہب کا کور نہیں ملناچاہیے۔ دینی رہنما بھی اس جبر سے گزررہے تھے کہ اپنے طبقے کے تشدد پر آمادہ انتہاپسندوں کو اپنی صفوں سے جدا کرنے میں مشکلات اور خطرات لاحق ہوتے ہیں ، لیکن اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ، اُن سے عیاں ہے کہ ہم سب اس المیے سے گزر رہے ہیں ، ہمارا قومی مزاج ایک ہی ہے اور سب سے مشکل اپنے طبقے کی برائی کی نشاندہی ہے ، کیونکہ اس صورت میں اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتاہے اور انسان اپنے ہی ماحول میں اجنبی اور قابلِ نفرت قرار پاتاہے۔
قتلِ ناحق کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کا دفاع اللہ کی شریعت ، آئین وقانون اور اخلاق کی رو سے جائز ہے، لہٰذا اس کی مذمت میں سب کو یک زباں اور یک آواز ہوناچاہیے، لیکن کیا اس کے لیے آئین وقانون کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کلچر اور ان روایات کو ہر دور کے اہلِ اقتدار نے پروان چڑھایاہے، پُرامن طبقات کی جائز بات پر بھی کان دھرنا ہمارے حکمرانوں کے مزاج کا حصہ کبھی نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ اسے کمزوری کی علامت سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اب وہ اپنی کاشت کی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں ۔
آپ کو قطعی طور پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کے ہزاروں مدارس کی قیادت نے کورئیر کے ذریعے خطوط ارسال کیے اور وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر داخلہ سے ملاقات کا وقت مانگا، لیکن آج تک کوئی جواب نہیں ملا، صرف وزیر داخلہ نے ایک اور مسئلے پر رابطہ کرتے ہوئے ضمناً وعدہ کیا، مگر وہ بھی وفانہ ہوا۔ لیکن اگر کہیں دھرنادیدیا جاتا تو فوراً شرفِ ملاقات سے نوازا جاتا اور حکمرانی کے بلندترین مناصب پر فائز یہ اہلِ اقتدار ہانپتے کانپتے کسی حد تک شنوائی پر بھی آمادہ ہوجاتے۔
ڈسکہ کے سانحے میں بھی لازم تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بلا تاخیر وکلاء کے نمائندوں کو ملاقات کی دعوت دیتے اور باہمی اتفاقِ رائے سے مسئلے کا کوئی حل نکالتے اور ظاہر ہے کہ ایس ایچ او پر مقدمہ درج کرکے اسے فوری طور پر گرفتار کرنا ناگزیر تھا، باقی سارے کام تو قانونی مراحل سے گزر کر ہی انجام پانے تھے۔ یہ بھی لازم ہے کہ عدلیہ، وکلا، حکمران اور سماجی قائدین باہمی اتفاقِ رائے سے کوئی اصول وضع کریں کہ آزاد میڈیا کے اس دور میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے قانونی فرائض سے کس طرح عہدہ برا ہوں، کیونکہ اب ہر بات اور ہر چیز کی لائیو اور براہِ راست کوریج ہورہی ہوتی ہے اور ہر لمحہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوجاتاہے۔وعظ وتذکیر اور اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر بحث وتمحیص سے اگر امن کا قیام اور قانون کی عملداری ممکن ہوتی تو پھر مسئلہ بہت آسان ہے، لیکن عمل کی دنیا افکار اور تصورات کی دنیا سے جداہوتی ہے۔
صوبۂ خیبر پختونخوا کے مقامی انتخابات کے جو مناظر سامنے آئے ہیں ، اُن سے معلوم ہوتاہے کہ ہمارا قومی مزاج ، قومی ضمیر اور اندازِ حکمرانی ایک ہی ہے۔ ایسے ماحول میں جناب عمران خان تختِ اقتدار پر متمکن ہوجائیں یا کوئی مُصلحِ اعطم اینکر پرسن یا علم وحکمت کا پیکر کالم نگار یاکوئی صاحبِ تقویٰ وکردار مسند نشیں ہوجائے، انیس بیس یا اٹھارہ بیس سے زیادہ کا فرق خوش فہمی یا خود فریبی ہوگی، کیونکہ کوئی انقلاب توبرپا نہیں ہورہا، نظام کے اندر رہتے ہوئے اور اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی ہر ایک کو چلنا ہوتاہے۔ حکومت ایک نیم خود مختار قومی ادارے پیمرا کے چیئرمین کو تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہے، تو اور کوئی آکر کون سی شانِ اعجاز کا مظاہرہ کرپائے گاکہ پورے نظام کو تہ وبالا کرکے اپنا من پسند نظام یا ہیئتِ مقتدرہ قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک کوئی صاحبِ اقتدار ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتاہے، اس کی سوچ کا انداز کچھ اور ہوتاہے، لیکن جب وہ اقتدار کے ''بیت الجِنّ‘‘ میں داخل ہوتاہے، تو اس کی آنکھیں ، کان اور دل ودماغ ماؤف ہوجاتے ہیں ،حاکمِ وقت کے گردوپیش جو لوگ ہوتے ہیں اور جوان کے مزاج پر حاوی ہوجاتے ہیں، وہی اس کی آنکھیں ، کان اور دماغ بن جاتے ہیں بقولِ شاعر ؎
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے