سات ستمبر کے اجلاس میں پاکستان کی اعلیٰ مقتدِر شخصیات وزیر اعظم پاکستان ، چیف آف آرمی اسٹاف اور زیر داخلہ کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات تھی ، دیگر وزرائِ کرام کے ساتھ ملاقات کے مواقع پہلے بھی ملتے رہے ہیں ۔ میں نے چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف کو یومِ دفاع کے موقع پر اُن کے جرأت مندانہ بیان پر دلی مبارک باد پیش کی اور کہا کہ یہ پورے قوم کے دل کی آواز ہے ، ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کا وزیرخارجہ اوروزیر دفاع بول رہا ہے ۔ جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی اور وزیرِ خارجہ سشما سوراج کا جواب اُن کے پاکستانی ہم منصب کی طرف سے نہ آئے بلکہ وزیراطلاعات پرویز رشیدلب کشا ہوں تو عوام کو تشنگی سی محسوس ہوتی ہے ، کیونکہ بھارت کے ساتھ ہمیشہ تلخ یادیں وابستہ رہی ہیں ۔
جناب جنرل راحیل شریف کی یہ ادا پسند آئی کہ وہ بااعتماد دکھائی دیتے ہیں ، انداز مُدبّرانہ ہے اور ضرورت کے مطابق کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہیں ، ایک لطیفہ سنا کر بعض شکایات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیچے والے کارکردگی دکھانے کے لیے اوپر والوں کا نام لے کر کارروائی ڈال دیتے ہیں۔ چیف صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے علماء کا احترام سیکھا ہے ، اس لیے میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ باہمی اعتماد اور باہمی احترام کی فضا میں یہ اجلاس اختتام کو پہنچا ۔
جناب پرویز رشیدکے بارے میں میرے احتجاجی کلمات اورجناب چوہدری نثار علی خان کے اعتذا رکا حوالہ مولانا قاری حنیف جالندھری نے اپنے مضمون میں دیا ہے ۔ اس پس منظر کا حوالہ دے کر ہم پر گہری نظر رکھنے والے جناب خورشید ندیم نے لکھا ہے اس اقتباس سے یقینا آپ جان گئے ہوں گے کہ میں نے اسے حکومت کے لیے عبرت ناک کیوں کہا ۔ اس مضمون سے پہلی ہی نظر میں یہ تاثر ملتا ہے کہ''ملزم مدارس نہیں ، حکومت ہے، وہ معذرت کر رہی ہے اور وضاحت بھی ‘‘۔ ہمارے کرم فرما کے ان پیار بھرے کلمات کا اگر مفہومِ مخالف نکالیں تو یہ ہو گا کہ ''مدار س ملزم ہیں ‘‘ ۔ روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر میں جناب پرویز رشید کے ''فرمودات ‘‘لفظ بہ لفظ نقل کر چکا ہوں اور اب جناب خورشید ندیم سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان کلمات کو نقل کر کے ان کی تحسین فرما دیں تاکہ اُن کو تسکین ملے ، کیونکہ ان میں کسی ِاستثناء کے بغیر تمام علماء و مدارس کی دانستہ توہین کی گئی ہے اور شاید ان کی نظر میں ہمیں احتجاج کا حق بھی نہیں ہے ، کیونکہ ہم ''ملزم‘‘ ہیں ۔
ایک مسئلہ جوابی بیانیہ (Narrative) مرتب کرنے کا تھا ، یہ خدمت ہم انجام دیں گے اور میں نے جناب جنرل رضوان اختر کو مخاطَب کرتے ہوئے کہا کہ اُ ن کو دکھا دیا جائے گا اور اگر وہ اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں ،تو اسے بھی مناسب انداز میں شامل کیا جا سکتا ہے، الغرض ! ملک و قوم کے مفاد میں ہم مثبت کردار اد ا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ یہ بات قارئین کے ذہن میں رہے کہ یہ بیانیہ اُس بیانیے کے جواب میں ہوگا جو وطنِ عزیز کی سرحدوں کے اندر ریاست سے بر سرِ پیکار عناصر کا ہے۔ بیانیے کو آپ کسی کے موقف یا نظریے سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جسے قانون کی زبان میں Locus Standiکہا جاتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ یہ بیانیہ انہوں نے باقاعدہ جاری کیا ہے ،بلکہ یہ اُن کے طرزِ عمل اور وقتا فوقتاجاری کیے جانے والے بیانا ت سے ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر شریعت کے نفاذ کے لیے وہ من جانب اللہ مامور ہیں اور ان کے لیے کسی ریاست ، حکومت یا قانون کی کوئی حیثیت نہیں ، وہ خود شریعت کے شارح ہیں اور اُن کا موقف حتمی قطعی اورحرفِ آخر ہے ۔ حکومت و ریاست ، مسلح افواج یا قانون جو بھی اُن کی راہ میں مزاحم ہو، وہ واجب القتل ہے اوردینی طبقات یا عوام جو حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے نہ ہو ں اُن کا بھی یہی حکم ہے ، اس لیے وہ بچے جوان بوڑھے ، مرد اور عورت میں کوئی تمیز نہیں کرتے ۔ باقی تحمل و برداشت یا اس سے ملتے جلتے عنوانات اس کے ضمنی موضوعات ہیں ۔ اس رویے کو آج کل عالمی سطح پر شدت پسندی اور انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو قتل و غارت اور فساد برپا ہو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، یہ میں نے اپنی سوچ کے مطابق جوہر کشید کیا ہے ، کوئی صاحبِ علم یا صاحبِ قلم اسے زیادہ بہتر انداز میں یا بہتر الفاظ میں بیان کر سکتا ہے اور اس میں اضافات بھی کر سکتا ہے ۔
میں نے یہ بھی کہا کہ در اصل تمام مکاتب فکر کے مُسلّمہ علماء ، جن کی ذات یا موقف کو مسلک کی ترجمانی سمجھا جاتا ہے ، مل کر ایک شرعی فتویٰ ترتیب دیں کہ آیا ریاست کی سرحدوں کے اندر یاست سے بر سرِ پیکار عناصر خارجی اور باغی ہیں اور یہ کہ ان کا شرعی حکم کیا ہے ؟۔ پچھلے دنوں مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے بیان دیا تھا کہ یمن میں ''حُوثی ‘‘ قبیلے کے لوگ باغی ہیں اور واجب القتل ہیں ، اس پر جناب خورشید ندیم نے لکھا تھا کہ ایسا ہی واضح اور دو ٹوک حکم پاکستان میں ریاست سے برسرِ پیکار باغیوں کے بارے میں بیان ہونا چاہیے ۔ اس کے بغیر اداروں کے اندر اور باہر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام (Confusion) ہے ، سید منور حسن صاحب کو اینکر پرسن نے جب چاروں طرف سے گھیرا تو انہوں نے منافقت سے گریز کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں اپنے دل کی بات کہہ دی ، جس کی وجہ سے وہ چاروں طرف سے ہدفِ ملامت بنے ۔ اگر وہ منافقت سے کام لے کر اور لفظی ہیر پھیر کر کے ، جسے قرآن میں '' لَیّاً بِأَلْسِنَتِہِم‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، اپنے لیے گریز کی راہ نکال لیتے تو اتنی بڑی ملامت سے بچ جاتے ، لیکن سب کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے نفسِ مسئلہ کی طرف قوم کی توجہ مبذول کر ا دی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اصل مسئلے کا صحیح ادراک کر کے اُسے حل کرنے کی بجائے میڈیا پر بے نتیجہ بلند آہنگ بحثیں کر نے پر اکتفا کی جاتی ہے ۔
وزارت مذہبی امور اور وزارت تعلیم کے ساتھ ورکنگ پیپر تیار کرنے کے لیے جو کمیٹیاں بنائیں گئیں ہیں ، وہ ضروری تھیں ، کیونکہ مختلف اداروں کی طرف سے جو طرح طرح کے پروفارمے دینی مدارس کو دیے جا رہے تھے، ان میں بہت سی چیزیں انتہائی حد تک غیر متعلق اور غیر ٖضروری تھیں اور یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ کس صاحب ِ دانش کے نتیجۂ فکر کا شاہکار ہیں اور کس کے حکم سے جاری ہوئے ہیں ۔ ملک میں تعلیمی ادارے تو اور بھی بہت سے قائم ہیں اور وہ حقیقی معنیٰ میں ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور فیسیں بعض صورتوں میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ہوں گی ، لیکن چونکہ آزاد الیکٹرونک میڈیا کے خوش گوار انقلاب کے نتیجے میں ہمارے میڈیا کے خو ش نصیب برادران اَپر مڈل کلاس کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں بلکہ اِن جدید اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، اس لیے اُن سے انہیں کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے ۔ لہذا یہ بات بآسانی ریاستی ذمے داران کی سمجھ میں آ گئی کہ رجسٹریشن فارم اور ڈیٹا فارم دو الگ چیزیں ہیں ۔ ڈیٹا پر ہمیشہ نظرِ ثانی کی ضرورت رہتی ہے اور اپ ٹو ڈیٹ ہوتا رہتا ہے ۔ میں نے خود اپنے ادارے میں طلبہ،اساتذہ اور ملازمین کی تفصیلات پر مشتمل ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کر رکھا ہے اور اس پر ہر ماہ کی ابتدا میں نظرِ ثانی کی جاتی ہے ، اس پر ہمارے دوستوں کی ناراضی بلا سبب ہے ، حکمرانوں کو کوسنے کے لیے اور موضوعات بہت ہیں ۔
جہاں تک پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بور ڈ کا تعلق ہے ، یہ محترم ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے نتیجۂ فکر کی پیداوار ہے اور انہوں نے ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ اس کو مدار س پر مسلط نہیں کیا جائے گا ، بلکہ ہم اپنے ماڈل ادارے قائم کریں گے اور جو مدارس رضا کارانہ طور پر اس سے الحاق کرنا چاہیں ، اُ ن کے لیے آپشن کھلا رہے گا ۔ لیکن کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ابتدا سے لے کر آج تک اِن پر سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی اور اِنہوں نے قوم کو صلے میں کیا دیا ، لیکن ساری تان آکر مدارس پر ٹوٹتی ہے ،اس ناراضی کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے ۔سابق سیکرٹری وزارت مذہبی اُمور نے سابق صدر جناب جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ناکام ہو چکا ہے اور اس کا جاری رکھنا حکومتی پیسے کا ضیاع ہے ، لہٰذا اسے بند کر دینا چاہیے ، لیکن چونکہ سرکار کے تحت ایک بار جو حکومتی ادارہ قائم ہو جائے ، وہ جاری و ساری رہتا ہے اور اگر اس سے کچھ او ر حاصل نہیں ہو تو حکومتِ وقت کے چند پسندیدہ لوگوں کو روز گار ضرور مل جاتا ہے ۔ سابق صدر جناب جنرل ضیاء الحق کی ہر علامت پیپلز پارٹی کو ہمیشہ نا پسند رہی ہے اور اسے ''ضیاء کی باقیات ‘‘کے عنوان سے سیاسی گالی بنا دیا گیا ہے ، لیکن اُن کا قائم کردہ نظام ِ زکوٰۃ بہر حال ہر حاکم کو پسند ہے ، یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور ِ حکومت میں اِسے مرکزی زکوٰۃ کو نسل کی تشکیل سے ماورا رکھ کر بجٹ کا حصہ بنا دیا تھا تاکہ اس کے خرچ پر قواعد و ضوابط کی کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔