میں نے3 نومبر کے کالم میں غلام احمد پرویز صاحب کے نظریۂ دعا و قبولیتِ دعا کو موضوعِ بحث بنایا تھا ۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ پرویز صاحب کا نظریۂ دعا وقبولیتِ دعا قرآن و سنّت سے ثابت شدہ مُسلّمہ نظریے کے خلاف ہے ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے بہت سے فاضل قارئین نے اس موضوع میں دلچسپی لی اور اسے مفید قرار دیا ۔ کئی دوستوں نے متوجہ کیا کہ یہ بحث ہمارے سر کے اُوپر سے گزر گئی اور ہمیں سمجھنے میں دشوار ی محسوس ہو رہی ہے ، اس کاکسی حدتک مجھے شروع سے اندازہ تھا ۔ در اصل دعا و قبولیت ِ دعا ،جنت و جہنم ، تقدیر ، جزا و سزا اور قرآن و سنّت سے ثابت شدہ بہت سے عقائد اور تعلیمات کے بارے میں پرویز کا نظریہ جمہورِ امت سے جدا ہے۔ وہ رِضا ئے الٰہی اور مشیتِ الٰہی کو بھی خَلط مَلط کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تقدیر قوانین فطرت (Laws of Nature)کا نام ہے اوراللہ تعالیٰ العیاذ باللہ ! ان قوانینِ فطرت کا پابند ہے ، اِن قوانینِ فطرت کو وہ کلمۃ اللہ اور سُنّۃ اللہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اِن دو اصطلاحات کی یہ تعبیر بھی جمہورِ امت سے ہٹ کر اُن کی اپنی ذہنی اختراع ہے ۔ کالم کی تحدیدات کے پیشِ نظر تمام مسائل بلکہ کسی ایک مسئلے پر بھی تفصیل سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
پرویز صاحب در اصل دین کی ہر بات کو تکوینی میکنزم کی عینک سے دیکھتے ہیں اور ان کا ذہنی سانچہ بھی اسی میں ڈھلا ہوا ہے اور وہ قرآن ِ کریم کو صاحبِ قرآن امام الانبیا ء سید المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے مکتب میں بیٹھ کر سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لہٰذا اُن کے لیے حق و باطل اورقرآن کی تعبیر و تشریح کا معیار اُن کی
عقل ہے اورعصرِ حاضر کی لامذہبیت، الحاد وانحراف، عقل پرستی
اور Humanism جوہری اعتبار سے اِسی کا نام ہے ۔
پس پرویز صاحب کے نزدیک دعا ، قبولیتِ دعا اور تاثیر ِ دعا بھی ایک مادّی اور تکوینی عمل ہے اور دعا کا منشا یہ ہے کہ بندے کی حاجت اس بندے تک پہنچ جائے جو اُس کی حاجت روائی کی استطاعت رکھتا ہے اور اُس کے مَن کی مراد پوری ہو جائے ، وہ خارقِ عادت اُمور کے قائل نہیں ہے ۔ قوانینِ فطرت ، سبب اور مُسبَّب، علَّت و معلول اور Cause & Effectکو ہم بھی مانتے ہیں ، اسی لیے اس عالَم کو عالَمِ اسباب کہتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر یہ قوانینِ فطرت حاکم نہیں ہیں ، نہ ہی اللہ تعالیٰ العیاذ باللہ ! ان کے آگے مجبور ہے ، بلکہ وہ ان پر حاکم ہے ۔ جب کوئی معاملہ مافوقَ الاسباب یعنی اسباب کے تانے بانے سے ما ورا صادر ہوتا ہے تو اُسے خارقِ عادت کہتے ہیں ۔ اسباب کا تانا بانا قانونِ فطرت ہے ، لیکن یہ قوانینِ فطرت العیاذ باللہ ! اللہ تعالیٰ کی مشیت پر حاکم نہیں ہیں ، بلکہ اُس کی مشیت ہر چیز پر حاکم ہے۔ چنانچہ سنّتِ الٰہیہ یہ ہے کہ مرد و زن اور نر و مادہ کے اختلاط سے افزائشِ نسل ہوتی ہے ، لیکن اُس کی مشیت کا تقاضا ہو تو آدم علیہ السلام کی ولادت یا تخلیق ماں باپ کے واسطے کے بغیر ، حضرتِ حوّا کی پیدائش کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کسی مرد کے واسطے کے بغیر ہو جاتی ہے ۔ اس لیے حدیثِ پاک میں فرمایا گیا : ''لوگ (مختلف چیزوں کے بارے میں باری باری )برابر ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ اس چیز کو کس نے پیدا کیا ؟، ظاہر ہے کہ جواب آئے گا : اللہ تعالیٰ نے ، پھر ایک مرحلے پر کوئی سوال کرے گا کہ اللہ کو کس نے پیداکیا ؟ تو (جب عقلِ عیّار کی قیل و قال ذاتِ باری تعالیٰ تک پہنچ جائے تو اس بحث سے الگ ہو جائو اور ) کہو میں اللہ پرایمان لایا (کیونکہ اس سے آگے توگمراہی کے سوا کچھ نہیں) ، (صحیح مسلم : 212)‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرحلہ آتا ہے کہ عقل کو رضائے الٰہی اور مشیئتِ باری تعالیٰ کے آگے Surrender کرنا پڑتا ہے ، علامہ محمد اقبال نے کہا ہے :
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے
مزید کہا :
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
پس عقل کو شریعت پر حاکم نہیں مانا جاسکتا بلکہ شریعت عقل پر حاکم رہے گی، سو اگر شریعت کے کسی حکم کی حکمت ہماری عقل کو اپیل کرے تو یہ عقل کی سعادت و اصابت (Righteousness) ہے اور اگر خدا نخواستہ صورتِ حال اس کے بر عکس ہو تو یہ ہماری عقل کی نا رسائی ہے ، اس کی وجہ سے حق کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آ سکتا ۔ سو دعا کی قبولیت کی اس صورت کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لیے اہلِ دل کو وسیلہ بناتا ہے ۔ لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دعا اللہ تعالیٰ کی ذات سے کی جاتی ہے اور بندے کی فریاد براہِ راست اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں جاتی ہے اور وہ اپنی حکمت سے اپنے بندوں کو کسی کی حاجت روائی کے لیے سبب بناتا ہے اور یہ محض ایک مادّی عمل نہیں ہے بلکہ ا س کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کار فرما ہے ، حدیث ِ پاک میں ہے :
''رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک بنی آدم کے سارے دل رحمٰن (اللہ )کی دو انگلیوں کے درمیان قلبِ واحد کی طرح ہیں ، وہ جدھر چاہتاہے اسے پھیر دیتا ہے ، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی طاعت پر جمادے (صحیح مسلم :2654)‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے دل میں دوسرے کے لیے رحم کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے حاکمانہ تصرف سے پیدا ہوتا ہے ،یعنی ظاہری اسباب سے ماورا قادرِ مطلق کی ذات ہے جس کی حکمت کار فرما ہوتی ہے ۔ اگر اس کو ایک حسّی اور مادّی مثال سے سمجھنا چاہیں تو یوں ہے کہ جیسے دو آدمی لیپ ٹاپ لیے ہوئے ایک جگہ بیٹھے ہیں ، ایک دوسرے کو ای میل سے کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہ پیغام اُ س تک براہِ راست نہیں پہنچتا بلکہ yahooیا gmail یا hotmail کی سینٹرل پوسٹ میں یہ پیغام پہنچتا ہے اور وہاں سے یہ ڈاک Deliverہو کر اصل مخاطَب تک آتی ہے۔ اسی طرح ہماری دعائیں براہِ راست اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچتی ہیں اور اس کی حکمت سے اُن کی اثر آفرینی کے بارے میں اَحکام صادر ہوتے ہیں اور اس کی ذات فیصلہ کرتی ہے کہ کس کی دعا کو کِس صورت میں قبول کیا جائے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا (بعض اوقات ) اس آفت سے نجات کا سبب بن جاتی ہے جو نازل ہو چکی ہے اور(بعض اوقات) وہ آفت جو ابھی نازل نہیں ہوئی ، اسے ٹال دیتی ہے، (سنن ترمذی : 3616)‘‘۔پرویز صاحب چونکہ اللہ تعالیٰ کے ماورائے اسباب یا خارقِ عادت کسی تصرف کے قائل ہی نہیں ہیں ، اِس لیے وہ دعائے مغفرت کی بھی مادّی تعبیر کرتے ہیں۔حالانکہ قرآنِ مجید دعا کو انبیائے کرام علیہم السلام کا شِعار بتا تا ہے اور قرآن و حدیث دعائے مغفرت کے لیے ترغیبات سے سجے ہوئے ہیں ۔ مگر چونکہ پرویز صاحب آخرت کی جز ا وسزا کے قائل ہی نہیں اور نہ ہی وہ جمہورِ امت کے تصوّرِ مغفرت کے قائل ہیں ، اس لیے وہ ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ یا دعائے مغفرت کی بھی مادّی تعبیر کرتے ہیں اور اسے محض میّت کے وارث کے لیے تلقینِ صبر اور تسلی سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
'' باقی رہا ہمارا ایک دوسرے کے لیے دُعا کرنا ، تو یہ درحقیقت ان کے حق میں ہماری نیک آرزوؤں کا اظہار ہوتا ہے جس سے انہیں سکون حاصل ہوتا ہے ۔ معاملات کی دنیامیں اسے اخلاقی تائید (Moral Support)کہا جاتا ہے ۔اس سے خود اس شخص کے اندر ایک قسم کی نفسیاتی قوت بیدار ہوجاتی ہے جس کے اثرات نہایت خوش گوار ہوتے ہیں ۔جس محبوبِ جاں نواز کے دیکھنے سے (غالبؔ کے الفاظ میں ) مریض کے منہ پر رونق آجائے ،اس سے چار کلماتِ تسلّی یاد و الفاظِ تحسین سننے سے جو قلبی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگایا جا سکتاہے ۔ یہی حیثیّت ، مُردے کے لیے دعائے خیر کی ہے ۔ اس سے مُردہ پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا، اس کے پسماندگان کے غم و اندوہ میں کمی ہوجاتی ہے ۔ اس قسم کے معاشرتی روابط کا یہی فائدہ ہوتاہے ۔ اس سے انسان اپنے آپ کو معاشرے میں تنہا محسوس نہیں کر تا اور سخت سے سخت جانکاہ مصیبت میں بھی اس کا حوصلہ قائم رہتا ہے ۔ اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ سے کہا گیا تھا کہ یہ لوگ جب اپنے عطیات آپ کے پاس لائیں تو انہیں قبول کرنے کے بعد صَلِّ عَلَیْہِم انہیں شاباش دیا کریں ۔ ان کے اس عمل کو Appreciateکیا کریں ۔ انہیں دعا دیا کریں ۔ اس لیے کہ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ، (9:103)۔ آپ کی دُعا ان کے لیے بڑی موجبِ تسکین ہوتی ہے، (کتاب التقدیر ،دعا ، صفحہ :301)‘‘۔