"MMC" (space) message & send to 7575

مصطفوی انقلاب

بادشاہوں کے ملکوں کو تاراج کرنے کا احوال اللہ تعالیٰ نے ملکۂِ سبا کی زبانی بیان فرمایاہے: ''اس نے کہا: بے شک جب بادشاہ (فاتحانہ شان کے ساتھ) کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور اس کے مُعزَّز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور یہ بھی اسی طرح کریں گے(النمل : 34)‘‘۔ تاریخِ انسانیت میں اس کُرۂ ارض نے بڑے بڑے انقلابات دیکھے، لیکن یہ انقلابات تعمیر کے لیے نہیں، تخریب کے لیے تھے، صلاح کے لیے نہیں، فساد کے لیے تھے اور اَمن و سلامتی کے لیے نہیں بلکہ بے امنی اور بربادی کے لیے تھے۔ چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا کہ قادرِ مطلق نے کسی ایک قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اہلِ دنیا پر حکمرانی کا تاج پہنا دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''(عروج و زوال اور فتح و شکست ہمیشہ کسی کا مقدر نہیں ہوتی بلکہ) ہم ان دنوںکو لوگوں کے درمیان گردش میں لاتے رہتے ہیں(آل عمران : 140)‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے اس پر بھی حجت قائم ہو جائے اور جسے (عزت کے ساتھ) جینا ہے، وہ بھی دلیل کی بنیاد پر اپنا استحقاق ثابت کرے (الانفال: 42)‘‘۔ پس حکمتِ الٰہی یہی ہے کہ دنیا میں امامت و اقتدار کسی کی دائمی میراث نہیں ہے بلکہ اس کے لیے قدرت کے قائم کردہ معیارات (Merits & Demerits)ہیں۔ 
تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ کسی تعمیری اور مثبت انقلاب کا راستہ ہمیشہ مراعات یافتہ اور استحصالی نظام سے فیض پانے والوں نے روکا اور اس کی بھرپور مزاحمت کی اور دلیل یہ دیتے رہے کہ ہم اپنے آباء و اجدا د کے دین کو کیسے چھوڑ دیں۔ فرعون اورآلِ فرعون کے نظریے کو اللہ تعالیٰ ان کلمات میں بیان فرماتا ہے : ''انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں اس (دین ) سے پھیر دیں جس پر ہم نے اپنے باپ داد ا کو پایا ہے تاکہ تم دونوں کو زمین میں اقتدار مل جائے، ہم آپ دونوں پر ایمان لانے والے نہیں ہیں (یونس : 78)‘‘۔ الغرض ! غالب اور غاصب طبقات کبھی مذہب کی آڑ لے کر اور کبھی مفادات اور اقتدار کو آباء و اجداد کا ورثہ سمجھ کر اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور ہمیشہ حق کی مزاحمت کرتے رہے۔ 
کسی بھی کامیاب انقلاب کے لیے سب سے پہلا اثاثہ نظریاتی افرادی قوت (Human Resource)ہوتی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کی مثال کانوں (Mines)کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، ان میں سے جو (افراد)زمانۂ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں داخل ہونے اور علم سے آراستہ ہونے کے بعد بھی بہتر قرار پائے(صحیح مسلم :2031)‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام بالخصوص ختم المرسلین ﷺ نے انسانوں کے اندر قدر ت کے ودیعت کیے ہوئے جوہرِ قابل (Talent)کو دریافت کیا، اس کا تصفیہ و تزکیہ (Purification)کیا اور اسے نکھارکر مرتبۂ کمال پر پہنچا دیا۔ ان کی جو صلاحیتیں اسلام کو مٹانے کے لیے استعمال ہو رہی تھیں، ان کا رُخ باطل سے حق کی طرف، کفر سے اسلام کی طرف اور ضلالت سے ہدایت کی طرف پھیر کر تیئس برس کی مختصر سی مدت میں تاریخِ انسانیت کا سب سے کامیاب اور دیر پا انقلاب برپا کر دیا۔ 
کسی بھی نظریاتی انقلاب کے لیے دستیاب افرادی قوت کا اس نظریے کی حقانیت و صداقت پر یقینِ کامل نہایت ضروری ہے، اسی حقیقت کو قرآن میں''اِعتصام ‘‘ اور حدیث میں''تمسک‘‘سے تعبیر فرما یا گیا ہے۔ اسی کوConviction اور Commitmentکہتے ہیں۔ پس جب حق کے ساتھ اہلِ حق کا اعتصام اور تمسک و تصلُّب انتہائی حد تک دلوں میں نقش ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اُن کے پائے ثبات کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ''جب حضرت زید بن دثنہ انصاری رضی اللہ عنہ کوکفار قتل کرنے لگے تو ابو سفیان نے ان سے کہا: اے زید! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ (العیاذ باللہ!) تمہاری جگہ محمد ﷺ اس جگہ قتل کیے جاتے اور تم اپنے گھر والوں کے پاس (عافیت کے ساتھ) ہوتے؟ حضرت زید نے جواب دیتے ہوئے کہا: (حضور کا مقامِ شہادت پر فائز ہونا تو مومن کے لیے ناقابلِ تصور ہے) اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ محمد ﷺ اس وقت جس جگہ تشریف فرما ہیں وہاں ان کو کوئی کانٹا بھی چبھ جائے اور میں اپنے گھر والوں میں (عافیت کے ساتھ) بیٹھا رہوں۔ حضرت زید کا یہ عاشقانہ جواب سن کر ابو سفیان جیسے مخالف کو بھی کہنا پڑا، اصحابِ محمد جیسی محبت محمد ﷺ کے ساتھ کرتے ہیں اس طرح کی محبت میں نے کسی کو کسی سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا (تفسیر بغوی، ج: 1، ص :238)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے جو انقلاب برپا کیا وہ تاریخِ انسانیت کا سب سے منفرد، ممتاز اور نمایاں انقلاب تھا۔ آپ کے برپا کردہ انقلاب کی اثر آفرینی کا اصل راز آپ کے کردار کی پاکیزگی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب غارِ حرا سے پہلی وحیِ ربانی لے کر آئے تو بشری تقاضے کے تحت احساسِ ذمے داری سے آپ پر گھبراہٹ کی ایک کیفیت طاری تھی، آپ کی رفیقۂ حیات، محرمِ راز اور خَلوت و جَلوت کے تمام لمحات کی امین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: (آپ مطمئن رہیں) اللہ تعالیٰ کسی بھی صورت میں آپ کو بے آبرو نہیں فرمائے گا کیونکہ (آپ کا کردار و شِعار یہ ہے کہ) آپ قرابت کے رشتوں کو جوڑتے ہیں، آپ ناداروں کی دستگیری فرماتے ہیں، آپ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، آپ کمال کے مہمان نواز ہیں اور راہِ حق میں جن کو مشکلات درپیش ہوں، آپ ان کے مدد گار بن جاتے ہیں (صحیح بخاری : 3)‘‘۔ پس جس کا کردار اتنا شفاف اور طیب و طاہر ہو، اللہ تعالیٰ کبھی اس کو بے یار و مددگار اور حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گا ۔ 
آپ کے کردار کی خصوصیت عملیت (Practicalism)، کاملیت (Perfection) اور جامعیت (Comprehensiveness) ہے۔ آپ نے اپنی ذات کو رول ماڈل، اُسوۂ حسنہ اورقُدوۂ کاملہ بنایا۔ آپ نے زمانۂ جاہلیت کے عُجب و تفاخُر اورقبائلی عصبیت و حمیت کے جاہلانہ تصورات کا خاتمہ کیا۔ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے تاریخی خطبے میں پیکر عَجز و انکسار بنتے ہوئے فرمایا: ''تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے اپنے عبدِ خاص کی نصرت فرمائی، اس نے اپنی غیبی تائید و نصرت کے وعدے کو پورا فرمایا، اس نے (باطل کے سب)
لشکروں کو شکست دی، سنو! آج میں جاہلیت کے تفاخر اور آباء و اجداد کی نسبت سے عصبیت کے تمام جاہل تصورات کو اپنے قدموں تلے پامال کر رہا ہوں، سنو! جاہلیت کے ہر مالی مطالبے، جاہلیت کے ہر انتقام اور خونی مطالبے کو میں اپنے قدموں تلے پامال کر رہا ہوں، ہاں! بیت اللہ کی تولیت اور حجاج کو پانی پلانے کا منصب برقرار رہے گا، سنو! تم سب آد م کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ سنو! آج میں عہدِ جاہلیت کے سب خونی مطالبات کو اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے ایک فرد ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرتا ہوں جو بنو سعدکے ہاں ایامِ شیر خوارگی میں تھے اور بنی ہُذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا اور آج میں عہدِ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات کو ختم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے دوسروں پر واجب الادا سود کو ساقط کرتا ہوں (صحیح مسلم: 2950)‘‘۔ کسی بھی دعوت و تبلیغ کی اثر آفرینی میں سب سے بڑی رکاوٹ داعی کے کردار کا دوغلہ پن، دو رخہ پن اور قول و فعل میں تفاوت اور منافقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے ہی کیوں ہو جو (خود) کرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات ناراضی کا سبب ہے کہ تم (دوسروں کو) وہ بات کہو (جو خود) کرتے نہیں ہو (الصف: 2)‘‘۔ علمائے بنی اسرائیل کی دو عملی کو آشکارا کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا: ''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہو (کہ تم خود بھی ان احکام کے مکلَّف) حالانکہ تم کتابِ (الٰہی تورات) پڑھتے ہو (بقرہ: 44)‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں