12جنوری 2016ء کو نیویارک میں چند دوستوں کے ہمراہ بیٹھ کر دو دورانیوں پر مشتمل اپنی آٹھ سالہ مدتِ صدارت کا آخری سال شروع ہونے سے پہلے صدرِ امریکہ بارک حسین اوباما کا امریکی کانگریس سے سٹیٹ آف دی یونین خطاب سنا ، یہ دراصل آئندہ سال کے لیے اہم قومی و بین الاقوامی امور پر صدر کا پالیسی بیان ہوتا ہے ۔ تقریباً ننانوے فیصد یا کم و بیش سفید فام ارکانِ کانگریس نے کھڑے ہو کر اپنے سیا ہ فام صدر کا تالیوں سے استقبال کیا۔یہ والہانہ اعزاز و اکرام بارک حسین اوباما کے لیے ذاتی طور پر نہیں بلکہ امریکہ کے صدارتی منصب کے لیے تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندہ قومیں اپنے ریاستی اور قومی مناصب کا احترام کرتی ہیں ، لیکن ہم اسے ذاتی پسند و ناپسند کی نذر کردیتے ہیں ۔ میں نے 27دن پر مشتمل دورۂ امریکہ میں کہیں بھی صدرِ امریکہ کا اہانت آمیز کارٹون نہیں دیکھا ، جبکہ ہم اپنے حکومتی اور ریاستی سربراہان کی اہانت کر کے لطف اٹھاتے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ بحیثیت قوم اپنی تذلیل سے لطف اٹھانے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بھر میں ونڈ پاور اور سولر انرجی کے ذرائع اختیار کرنے سے ہمارے ہاں صارفین کو دسیوں ملین ڈالر کا فائدہ ہوا اور کاربن گیس کی آلودگی میں تخفیف ہوئی ۔
امریکی دارالعوام کی صدارت اسپیکر کر تے ہیں اور سینیٹ کی صدارت بلحاظ ِ منصب امریکہ کے نائب صدر کرتے ہیں اور یہ دونوں کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے شریک چیئر مین ہوتے ہیں اور صدرِ امریکہ دونوں کو یکساں اعزاز کے ساتھ خطاب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے صدر نے کارکن خاندانوں کے لیے ٹیکس میں رعایت پر کانگریس کا شکریہ ادا کیا ۔ صدر اپنی آٹھ سالہ مدت کے اندر تارکینِ وطن کو قانونی حیثیت دینے کا اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے ، کیونکہ ڈیموکریٹ صدر کے دور میں کانگریس پر ریپبلکن پارٹی کا کنٹرول تھا اور وہ صدر کو یہ اعزاز دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور اب انتخابی سال میں تو اس کا دور دور تک امکان نہیں ہے ۔ لہٰذا وہ اتنا ہی کہہ سکے کہ میں اپنی پالیسیوں پر زور دیتا رہوں گا ۔ البتہ جس کامیابی کا تفاخر کے ساتھ انہوں نے اعلان کیا ، وہ سوا بتیس کروڑ کی آبادی میں چودہ لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور اٹھارہ لاکھ افراد کو صحت کی سہولت (Health Care)دینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ میں بھی بے روزگاری موجود ہے اور ہر امریکی شہری کو علاج کی مفت سہولت دستیاب نہیں ہے،کیونکہ بے روزگار یا کم آمدنی والے لوگ Health Insuranceکے متحمل نہیں ہوتے۔
شاید داخلی سطح پر ان کے پاس قوم کو دینے کے لیے کوئی امید افزاپروگرام نہیں تھا ، اس لیے انہوں نے گریز کا راستہ نکالا اور کہا کہ میں آئندہ ایک سال کی بات نہیں کروں گا بلکہ آنے والے پانچ دس سالوں یا ان سے بھی بعد کے مستقبل پر بات کروں گا ۔ صدر کے خطاب کا بین السطور واضح تھا کہ مادّی دنیا کی جنت امریکہ میں بھی غربت سے متاثرہ طبقہ موجود ہے اور معاشی طبقات میں عدم توازن اور عدم مساوات میں خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ شاید اس کے لیے امریکی صدر کے پاس اپنی قوم کے لیے کوئی بشارت نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے اپنی گفتگو کا ارتکاز (Focus)عالمی اُمور پر رکھا ۔ انہوں نے کہا : جو بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے ، وہ بحیثیتِ قوم ہماری طاقت ، اپنے آپ پر ہمارا اعتماد ، فرائض ِ منصبی کے لیے ہماری اخلاقیات، ہماری اختراع و ایجا د کا جذبہ ،ہمارا سماجی تنوع ، قانون کی حکمرانی کے ساتھ ہماری وابستگی ، الغرض یہ و ہ خصوصیات ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہماری فلاح اور سلامتی کی ضامن ہیں ۔
بارک حسین اوباما اپنی قوم کی نفسیات سے خوب کھیلے ، قومی عُجب و افتخارکو نقطۂ کمال پر لے گئے اور ماضی کے فرعونوں کی طرح پوری تعلّی کے ساتھ دنیا پر حکمرانی کے دعوے کیے ؛چنانچہ انہوں نے کہا :''امریکہ اس وقت روئے زمین پر سب سے طاقتور قوم ہے ۔ ہماری افواج دنیا کی تاریخ کی سب سے بہترین جنگی طاقت ہیں ۔ دنیا کی کوئی قوم ہم پر اور ہمارے اتحادیوں پر براہ راست حملہ نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ تباہی کا راستہ ہے ۔ سروے بتاتے ہیں کہ آج دنیا کے ارد گرد ہمارا کنٹرول اس وقت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے ، جب میں پہلی بار صدر منتخب ہوا تھا۔ دنیا کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو لوگ بیجنگ یا ماسکو کا رخ نہیں کرتے، وہ ہم سے رجوع کرتے ہیں ، دنیا کی دس بڑی معیشتوں کے مجموعی فوجی بجٹ کے مقابلے میں ہمارا بجٹ زیادہ ہے ، یعنی ہم دنیا پر اپنا حکم مُسلّط (Impose)کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا : دہشت گرد داعش کے ہوں یا القاعدہ کے ،روئے زمین پر ان کا تعاقب ہماری اولین ترجیح ہے ۔ داعش ''دولتِ اسلامیہ عراق و شام ‘‘ کا مُخَفّف ہے ،جسے انگریزی میں ISISلکھا جاتا ہے ۔ لیکن حالیہ خطاب میں صدر اوباما نے اسے ISILکا نام دیا ہے ، یعنی دولت اسلامیہ عراق و لیبیا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ داعش کے اثرات لیبیا تک پہنچ چکے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے قذافی کے خلاف زمینی جہاد کے لیے القاعدہ کی خدمات حاصل کی تھیں ، لیکن یہ وہ جن ہے جسے بوتل سے نکالنے کا منتر تو آتاہے ، اسے واپس بوتل میں بند کرنے کا منتر اس کے تخلیق کاروں کو بھی نہیں آتا۔
اوبامانے کہا : ہماری رسائی کی کوئی حد نہیں ہے ۔اگر کوئی ہماری طاقت یعنی غیر محدود رسائی (Unlimited Reach) کو جاننا چاہتا ہے تو اسامہ بن لادن سے پوچھے۔ انہوں نے پاکستان پر خصوصی نظرِ کرم فرمائی اور کہا : ہمارے لیے موجودہ دور میں ناکام ریاستیں شرکی ریاستوں (Evil States) سے زیادہ خطرناک ہیں ۔ انہوں نے کہا : ساٹھ سال پہلے روسیوں نے فضا میں ہمیں شکست دی ، ہم نے حقیقت سے آنکھیں چر اکر یہ نہیں کہا کہ ان کا خلائی جہاز Sputnikخلامیں موجود نہیں ہے ، نہ ہم نے سائنسی حقیقت کو تسلیم کرنے سے ِاعراض کیا ، نہ ہی ہم نے تحقیق و ترقی کے سائنسی بجٹ کو محدود کیا،بلکہ اس کے برعکس چیلنج قبول کرتے ہوئے راتوں رات ہم نے خلا کو تسخیر کرنے کا پروگرام ترتیب دیا اور بارہ سال بعد ہم چاند پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ اسی تحقیقی شعور نے ہمیں ڈی این اے تک پہنچا یا ، امریکہ گریس ہوپر ، رائٹ برادرز ، جارج واشنگٹن کارور، کیتھرین جانسن اور سیلی رائٹس رائڈ (یعنی سائنسدانوں ) کا نام ہے، امریکہ بوسٹن سے آسٹن اور سلی کون ویلی تک ہر تارک ِ وطن اورکاروباری شخص کا نام ہے جو ایک بہتر دنیا کے لیے ترقی کی دوڑ میں مصروفِ عمل ہے ، سو دنیا جان لے یہ ہیں ہم لوگ ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن قوموں کے ہیرو ، آئیڈیل اور رول ماڈل وہ اہلِ علم ہوتے ہیں، جو انہیںترقی کی شاہراہوں پر گامزن کرتے ہیں ۔
سب کو معلوم ہے کہ ریپبلکن زیرِ دست طبقات کی کفالت Food Stamp یعنی ریاست کی طرف سے اشیائے خوراک کی مفت فراہمی اور بے روزگاری الاؤنس (Social Security) کو ایک مالی بوجھ سمجھتے ہیں ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہم اپنے ٹیکس سے مفت خورے کیوں پالیں ، ان کو جواب دیتے ہوئے اوباما نے کہا : فوڈ اسٹامپ اور سوشل سکیورٹی پر خرچ ہونی والی رقم ہمارے معاشی بحران کا سبب نہیں بلکہ وال سٹریٹ یعنی امریکی سٹاک ایکسچینج کی سنگ دلی و بے اعتنائی یا دوسرے لفظوں میں استحصالی مزاج اس کا بڑا سبب ہے۔ اسی طرح Companies Off Shore یعنی حکومتوں کے دائرۂ اختیار سے باہر جزائر پر قائم مالیاتی ادارے جو حکومتوں کو ٹیکس ادا نہیں کرتے ، ان پر معاشی بحران کی اصل ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب سرمایہ دار دنیا کی سب سے طاقتور حکومت کو بے بس کرسکتے ہیں تو ہماری کمزور اور لرزتی حکومتوں کی بے بسی کا عالم کیا ہوگا۔یہی استحصالی مزاج حکمرانوں کو مصنوعی جنگیں تخلیق کر کے تباہ کن اسلحے کے لیے طلب پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے ، خواہ اس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں بے قصور انسانی جانوں کو اپنی ہوسِ زَر کا ایندھن ہی کیوں نہ بنانا پڑے ۔ اُمتِ مسلمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ جنگیں 1990ء سے تسلسل کے ساتھ مسلم ممالک پر مسلط ہیں اور رُبع صدی گزرنے کے باوجود ان سے نجات کی کوئی حکمت و تدبیر مسلم حکمرانوں کی طرف سے نظر نہیں آتی ، بلکہ وہ شطرنج کے مُہرے کی طرح استعمال ہو رہے ہیں ، ان پیادوں کو اپنے عہد کے سیاسی شاطر اپنی مرضی سے شطرنج کی بساط پر فٹ کرتے ہیں ۔علامہ اقبال نے شطرنج کے پیادے کو زبان دے کر شاہ سے مخاطب کر کے اس کی زبانِ حال کو ان اشعار میں سمویا :
شاطر کی عنایت ہے توفرزیں میں پیادہ
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
یعنی آج جسے انہوں نے اپنی گود میں بٹھا رکھا ہے اور پیار سے تھپکی دے رہے ہیں اور اس کے ذریعے دوسروں کو مار پڑ رہی ہے، اسے نہیں معلوم کہ کل یہ پوزیشن بدل بھی سکتی ہے ، کیونکہ سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کا محبوب کل مردود بھی قرار پا سکتا ہے اور مغضوب بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔
یہ سطور میں نے اس لیے لکھیں کہ تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے گریبان میں جھانکیں اور جائزہ لیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے پاس اخلاقی سرمائے اور کامیابیوں اور کامرانیوں کے کون سے شاہ پارے ہیں جنہیں ہم افتخار کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ۔ہم نعرے لگا کر اور دیواروں کو نعروں سے رنگین کر کے دشمن کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس خواب کی تعبیر شاہراہِ علم وفن پر گامزن ہوئے بغیر نہیں مل سکتی۔ ہمارے لیے اپنی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے کر اپنی امکانی استعداد کو بروئے کار لائے بغیر چارہ ٔ کار نہیں ہے ۔