"MMC" (space) message & send to 7575

یہ وطن کس کا ہے ؟

کلیم عثمانی نے ملی نغمہ لکھا تھا ، جس کا سر نامہ یہ اشعار ہیں ۔ 
یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے 
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے 
اس چمن کے پھولوں پر، رنگ و آب تم سے ہے 
اس زمیں کا ہر ذرہ، آفتاب تم سے ہے
ان اشعار میں جناب کلیم عثمانی نے پاکستان کے ہر بوڑھے ، جواں ، بچے ، مرد و زن الغرض ہر فرد کو اس وطن کا مالک اور پاسباں قرار دیا ہے ۔ اور یہ احساس دلایا ہے کہ اس کے بحر و بر کے تم مالک ہو اور اس کی ساری کہکشائیں ، آب و تاب اور چمک دمک تمہاری رہ گزر ہیں،انہوں نے یاد دلایا ہے کہ یہ وطن قوم کی اُمیدوں کا مرکز ہے اور اس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ نظم و ضبط کو اپنا شعار بناؤ اور اَعداء کی مسلط کی ہوئی ظلمتوں میں اپنے آپ کو پہچانو! ۔ اِس چمن کے برگ و بار اور رونقیں تم ہی ہو ، اِس کی سرزمین کو ماں جیسا پیار دو اور اسے مقدس جانو !۔ یہ تمہارے پاس تمہارے آباء و اَجداد اور اَکابر کی امانت ہے ، خبردار ! اِسے ضائع نہ ہونے دینا ، اِس کی بقا و ارتقااور حفاظت کے لیے بانیِ پاکستان نے نظم و ضبط ، اتحاد اور ایمان و یقین کو تمہاری سب سے بڑی دولت اور اثاثہ قرار دیا ہے ۔انہوں نے اہلِ وطن کے نام بانیانِ پاکستان کی روح کی صدا اپنے الفاظ میں بیان کی ہے :'' ہم تو صرف تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے دوران میرِ کارواں تھے ، مگر اس وطن کو ارتقا، معراج اور وقار و افتخار کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچانے کے لیے روحِ کارواں موجودہ اور آنے والی نسلیں بنیں گی ۔ 
ہم تو عنوان تھے ، اصل اور مکمل داستان تم سے عبارت ہو گی۔ خبردار! ہوشیار! نفرتوں سے دور رہنا ورنہ یہ تمہاری ملّی وحدت دیمک کی طرح چاٹ جائیں گی اب یہ تم پر قرض ہے کہ اس کے پرچم کو ہمیشہ سر بلند وسرفراز رکھنا ہے‘‘ ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
نظم و ضبط کو اپنا ،میرِ کارواں جانو !
وقت کے اندھیروں میں، اپنا آپ پہچانو 
دیکھنا گنوانا مت ، دولتِ یقیں لوگو!
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو!
میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے ، خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا 
لیکن اے عزیزانِ وطن ! آج پاکستان اور بانیانِ پاکستان کی روح سے صدا آرہی ہے : ''یہ وطن کس کا ہے ‘‘۔ نغمہ خوانی تو ہم نے بہت کی ، لیکن کیا پاسبانی کا حق ادا کیا ، کیا اس کو رنگ روپ اور آب و تاب سے مزین کیا ،اس چمن کے برگ و بار بنے ، کیا اسے ماں جیسا پیار دیا اور ماں کی طرح مقدس مانا اور جانا ؟، ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے ، اپنے ضمیر سے اور اپنے دل و دماغ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر ان کو جنہیں اس وطن نے سلطانی عطا کی ہے ،وہ جو کل تخت نشیں تھے اور وہ جو آج تخت نشیں ہیں اور وہ جو تختِ اقتدار پر متمکن طبقے کو دھکا دے کر خود وہاں رونق افروز ہونا چاہتے ہیں اوراپنی باری کے انتظار میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں ۔ لیکن سب کا سلوک اس وطن کے ساتھ ایسا ہے، جیسے یہ دشمنوں کی سر زمین ہو ۔ 
میں نے یہ سطور پی آئی اے کے بحران کے تناظر میں لکھی ہیں کہ وطنِ عزیز آج بھی مجسّم سوال ہے کہ اس کا والی وارث اور اس کے مفادات کا محافظ کون ہے ؟، کیونکہ اس سے فیض پانے والے تو درجہ بدرجہ سب ہیں ۔ حکومت نے جو بے تدبیریاں کیں وہ کالک ان کے چہرے پر عیاں ہے ، لیکن اپوزیشن بھی تو موقع سے فائدہ اٹھانے اور ریٹنگ بڑھانے میں مصروف ہے ، محض نمبر گیم جاری ہے۔ پی آئی اے کی بقا و فلاح سے کسی کو غرض نہیں ہے ۔ کل وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اسمبلی میں بیان دے رہے تھے کہ ہم تو نوکریاں دیتے ہیں ۔ حضورِ والا ! آپ کے اسی شِعار نے تو اداروں کو تباہ کیا ، کیونکہ اسے مالِ غنیمت سمجھ لیا گیا ۔آپ کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ ادارے اپنے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں اور ہچکیاں لے رہے ہیں ۔ اب تصویر کا دوسرا رُخ ملاحظہ کیجیے ! صوبۂ سند ھ کے وزیرِ بلدیات سید ناصر شاہ ٹیلی ویژن پر بھاشن دے رہے تھے کہ ہم ترقیاتی کام کہاں سے کریں ، بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ تو جنابِ والا ! ان اداروں پر ضرورت سے زیادہ ملازمین کا بوجھ کس نے ڈالا ہے ؟۔ یہ بوجھ صوبۂ سندھ میں عوامی نمائندگی کی حامل دو حکمران جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی نے تو ڈالا ہے ۔ کیا گزشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو بحال کیا یا بدحال کیا ؟۔ کون سوال کرے ، کس سے سوال کرے اور کون جواب دے ؟۔ 
میں نے ٹیلی ویژن پر سیاسی رہنماؤ ں کے یہ خوبصورت ارشادات سنے کہ پی آئی اے ہمارا وقار ہے ، ہماری قومی شناخت ہے، پاکستان کا پرچم دنیا بھر کی فضاؤں میں بلند کیے پرواز کرتی ہے۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ آئے دن کبھی یورپ میں پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے ،کبھی دبئی اور امارات کے ہوائی اڈوں پر ہمارے جہازوں کو اُتارنے اور پروازکرنے سے معذرت کر دی جاتی ہے اور کبھی کسی خلیجی ملک کی حکومت پی آئی اے پر جرمانے عائد کرتی ہے ، کبھی برطانیہ میں ہمارا فضائی عملہ اسمگلنگ اور ڈرگ ٹریفکنگ میں دھر لیا جاتا ہے ۔ ان ذلتوں پر کبھی بھی ہمارے رہنماؤں کی جبیں پر اشکِ ندامت کا کوئی قطرہ نمودار ہوا اور نہ ہی اپنے دل میں اپنے پیار ے وطن کی تذلیل پراپنے ضمیر میں خجالت و شرمندگی محسوس کی۔ ہمارے اَربابِ اقتدار بین الاقوامی سفر پی آئی اے میں کرتے ہیں یا ایمیریٹس، قطر اور اتحاد ائیر لائنز وغیرہ میں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کی آنکھوں کا پانی مر چکا ہے ، ورنہ اشکِ ندامت تو ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑا مقا م رکھتے ہیں ، علامہ اقبال نے کہا ہے : 
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے ، مِرے عرقِ انفعال کے 
پاکستان تحریکِ انصاف کے منشور میں بھی قومی معیشت پر ہاتھی کی طرح مسلط ان اداروں کی نجکاری تھی، لیکن اس وقت اُن کی ترجیح وقت سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ پس ہماری رائے یہ ہے کہ وزیرِ اعظم ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریکِ انصاف اور پارلیمنٹ میں حقِّ نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین مل کر بیٹھیں اور ان اداروں کا مستقل حل نکالیں ۔ اگر پرائیویٹائیز کر نا ہے تو یہ رہنما اپنی نگرانی میں اس کا طریقۂ کار اور حکمت ِ عملی وضع کریں ، کیونکہ حکومت اپنی صوابدید پر کوئی پیش رفت کرتی ہے ، تواس پر الزام لگتا ہے کہ سونے جیسے اداروں کو مٹی کے بھاؤ یا کوڑیوں کے مول فروخت کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل جناب اسد عمر ہی کو پرائیویٹائیزیشن کمیشن کا شریک چیئر مین بنا لیا جائے ۔ اور اگر ان اداروں کو قومی ملکیت ہی میں رکھنا ہے تو اس کا طریقۂ کار بھی طے ہونا چاہیے ۔ ویسے آج کی دنیا میں حکومتوںکا کام صنعتیں اور کاروباری ادارے چلانا نہیں ہوتا ، بلکہ انہیں Regulateکرنا یعنی قواعد و ضوابط کا پابند بنا نا اور Facilitate کرنا یعنی سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی آئی اے کو فی الفور فعال کیا جائے ، ہڑتالوں کا سلسلہ موقوف کیا جائے ، پارلیمنٹ کی کمیٹی تمام معاملات کو ریگولیٹ کرے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرے ۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ کوئی بھی حکومتِ وقت جو عوام سے مینڈیٹ لے کر آتی ہے ، اسے فیصلہ کرنے اور نافذ کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ اپنے دورانیے کی تکمیل پر وہ اپنی کارکردگی کا ریکارڈ لے کر عوام کے سامنے جاتی ہے اور عوام چاہیں تو اسے رد بھی کردیتے ہیں اور نشانِ عبرت بھی بنا دیتے ہیں ۔اور اگر عوام خوش ہوں اور ان پر مہربان ہوں تو انہیں دوبارہ تختِ اقتدارپر متمکن بھی کر دیتے ہیں ۔ سو یہ حکومت ِ وقت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ آنے والے دور کے لیے اپنی بربادی کا سامان کرے یا اپنے لیے آبرو مندانہ مستقبل کے امکانات پیدا کرے ۔لیکن ''گھر پھونک تماشا دیکھ ‘‘کا کھلواڑ ختم ہونا چاہیے ۔ فرض کریں کہ کل پی ٹی آئی بر سرِ اقتدار آتی ہے اور یہ ادارے اس کو اسی برباد صورتِ حال میں ملتے ہیں ، تو وہ کس کرامت سے انہیں منفعت بخش بنائیں گے اوراگر وہ اپنے منشور کے مطابق پرائیویٹائیزیشن کی طرف جاتے ہیں ، تو کیا ان کا حشرموجودہ حکومت سے بہتر ہو گا ، ہر گز نہیں ۔ سو کسی کا آج برباد کرنے سے پہلے اپنے کل کے بارے میں بھی تھوڑا سا سوچ لینا چاہیے ، فَاعْتَبِرُوْا یٰاُ ولِی الْاَبْصَار۔پیپلز پارٹی کا مسئلہ تو ہمیشہ وقت گزاری اور اپنے جیالوں، دوستوںرشتے داروں اور اقتدار کے شراکت داروں کو نوازنا رہا ہے ۔ قومی اداروںیا ملک کے مستقبل کے بارے میں وہ زیادہ غم و اندوہ میں مبتلا نہیں ہوتے ، لہٰذا ان کی خدمت میں کچھ عرض کرنا بے سود ہے ۔ نوٹ : یہ کالم 4فروری کی صبح لکھا گیا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں