4فروری 2016ء جمعۃ المبارک کی شب کوآفتابِ علم غروب ہو گیا ۔ یہاںآفتاب سے مراد حرارت کاوہ کُروی قُرص (Sphere Disk) یا حرارت و نور کا وہ منبع مراد نہیں ہے ،جو زمین سے چودہ کروڑ ساٹھ لاکھ میل کے فاصلے پر ہے اور جو اس کائنات کو حیات کے لیے حرارت و نور فراہم کر رہا ہے، جسے قرآن مجید نے سراجِ منیر بھی کہا ہے ، بلکہ اس سے اس عہد کے آسمان ِ علم کا آفتاب یعنی تفسیر و حدیث کے امام علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت مراد ہے ۔ اردو کا محاورہ ہے :''اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘،لیکن یہ آفتاب ِ علم تو غروب ہو گیا مگر تفسیرِ تبیان القرآن ، تفسیرِ تبیان الفرقان ، شرح صحیح مسلم اور نعمۃ الباری یعنی علومِ قرآن و حدیث کے فیضان کی صورت میں اپنا نور پیچھے چھوڑ گیا ہے ،جو ان شاء اللہ العزیز آنے والی صدیوں تک تشنگانِ علم کو فیضیاب کر تا رہے گا ۔
فارسی کا مقولہ ہے :'' ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است ‘‘یعنی ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے ، اسی طرح ہر شخص کا استحقاق ہے کہ وہ علم کی دنیا میں جسے چاہے اپنا آئیڈیل قرار دے ، کیونکہ ہر شخص کی پسند و ناپسند، ترجیحات اور معیارات اپنے اپنے ہوتے ہیں ۔ میری دیانت دارانہ رائے کے مطابق اردو بولنے ، لکھنے اور پڑھے جانے والے ہمارے اس خطے میں تفسیر و حدیث کے میدان میں جتنا کام علامہ غلام رسول سعیدی نے تیس سال میں کیا ہے، گزشتہ نصف صدی میں اتنا تحقیقی ، وقیع اور علمی کام کسی اور کا نظر نہیں آتا ۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہر دور میں اصحابِ علم اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے گئے ہیں اور ہر صاحبِ علم کے کام میں ان کے مَنہج اور مزاج کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تَفرُّد ، تفوُّق اور امتیاز ضرور ہوتاہے، لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی ایک صاحبِ کمال کی تحسین و تعریف سے دوسروں کی نفی یا اُن پر تنقید یا اُن کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ، صرف ایک حقیقتِ واقعی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ۔
علامہ غلام رسول سعیدی 1937ء میں دہلی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ماجد سید محمد منیردہلوی مرحوم کاروباری آدمی تھے ،ان کا دہلی میں مرچنٹ پریس تھا ، ان کے اجداد مغل بادشاہ شاہ جہاں کے زمانے میں عرب سے بلوائے گئے تھے ۔ علامہ صاحب کا ابتدا میں نام احمد منیر تھا ، پھر شمس الزمان نجمی رکھا گیا اور پھر 21سال کی عمر میں جب آپ دین کی طرف راغب ہوئے اور حُب رسول اللہ ﷺ کا نقش آپ کے دل و دماغ پر ثبت ہو ا تو آپ نے خود اپنا نام تبدیل کر کے غلام رسول رکھا اور پھر زندگی کا ایک ایک ثانیہ اور ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس اسی غلامیِ رسول میں بسر کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے صلے میں انہیں خاتمہ بالخیر نصیب فرمایا ۔ان کی والدۂ ماجدہ محترمہ شفیق فاطمہ بھی عابدہ و زاہدہ ، شبِ بیداراور تہجد گزار خاتون تھیں ،ان کے وقت کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن کریم میں بسر ہوتاتھا اور محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتی بھی تھیں ۔
معروف محاورے کے مطابق وہ منہ میں اگرسونے کا نہیں تو چاندی کا چمچہ لے کر یقینا پیدا ہوئے تھے ، ملازم انہیں پنجابی اسلامیہ سکول، اٹاوا دہلی میں چھوڑنے اور لینے جاتا تھا ۔ پھر والدِ ماجد کا انتقال ہو گیا ، ان کی والدۂ ماجدہ نے عدت ِ وفات گزارنے کے بعد عقدِ ثانی کیا ، پھر قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجر ت کر کے کراچی آگیا اور شو مارکیٹ رنچھوڑ لائن کے علاقے میں اس خاندان کا قیام ہوا ۔ تنگیٔ حالات کی وجہ سے نویں جماعت سے آگے اسکول کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور مشکلات کا شکار ہوئے ، جہانگیر روڈ صدر کے علاقے میں ریڑھی پر قلفیاں بھی بیچیں اور ایک پریس میں کمپوزر کا کام بھی کیا ۔ پھر ایک عالمِ ربانی علامہ محمد عمر اچھروی رحمہ اللہ تعالیٰ کی محبتِ رسول سے معمور تقریر نے ان کی زندگی میں انقلاب بر پا کیا اور وہ علمِ دین کے حصول کی طرف مائل ہو گئے ۔ اسی دوران اپنے عہد کے غزالی و رازی علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت وا سترشاد کا تعلق قائم کیا اور دینی تعلیم کی تکمیل کا مرحلہ اُس عہد کے ممتاز ترین مدرس استاذ العلماء علامہ عطامحمد بندیالوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کرکے حاصل کیا۔بندیال( سرگودھا )اور وڑچھہ میں آپ نے حصولِ تعلیم کی خاطر مشقت کا دور گزارا اور کبھی کبھی وہ خود بیان کرتے تھے کہ میں رات کی بچی ہوئی خشک روٹی پانی میں بھگو کر کھاتا تھا ۔ یہ چند باتیں میں نے اس لیے لکھی ہیں کہ بقولِ شاعر :
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا ، تب نگیں ہوا
اس کے بعد علامہ سعیدی نے 1966ء میں تدریس کا آغاز جامعہ نعیمیہ لاہور سے کیااورحدیث پاک سے لگائو کے سبب ابتدا ہی سے حدیث کے اسباق سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیا ،اگرچہ ساتھ ساتھ تمام علوم وفنون کی کتابیں از ابتدا تا انتہا پڑھائیں۔آج آپ کے فیض یافتہ علماء پاکستان کے علاوہ تقریباً دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیںاور مختلف شعبوں میں دین کی اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جہاں جہاں عُلوم ِ قرآن و حدیث کی رونقیں بپا ہیں، وہاں بلا امتیازِ مذہب و مسلک علامہ غلام رسول سعیدی سے ان کی تصانیف کے توسط سے ہر صاحبِ علم ملاقات کر سکتا ہے ۔
گزشتہ سال جب وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جناب پرویز رشیدنے استہزاء و استخفاف (Insult) کے طور پر دینی مدارس و جامعات کو مُردہ فکر کی آبیاری کرنے والے اور جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دیا،تو میں نے انہی صفحات پر18مئی 2015ء کو''آئیے !آپ کی ملاقات ایک جاہل سے کراتے ہیں‘‘کے عنوان سے علامہ غلام رسول سعیدی کے بارے میں ایک تعارفی کالم لکھا تھا،جس میں آپ کے علمی ،تحقیقی ،تصنیفی اور تدریسی کارناموں کو بیان کیا گیا تھا۔اردو زبان میں علامہ صاحب کی تفسیر تبیان القرآن سب سے مبسوط ،مفصل اور مدلل تفسیر ہے، آج کی تاریخ تک یہ اُردو زبان کی واحد تفسیر ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث کو بالترتیب درجہ اولیٰ اور ثانیہ میں رکھا گیا ہے ،اس کے بعد آثارِ صحابہ وتابعین ،پھر آئمہ مجتہدین کے اجتہادات وآراء کو ترجیح دی گئی ہے۔جدید تحقیقی ، طبی اور سائنسی تحقیقات کے بھی آپ نے دورانِ تفسیر حوالے دیئے ہیں ۔ تمام احادیث اصل مآخذ کے حوالہ جات اور رقم الحدیث کے ساتھ درج ہیں اور یہ سارا کام انہوں نے اپنی علمی ریاضت اورمشقت (Manually)سے کیا ہے،انہیں کمپیوٹر تک رسائی(Access) نہیں تھی ۔صحیح بخاری احادیث کی ترقیم (Numbring) اور ان احادیث کے دیگر کُتبِ احادیث میں حوالہ جات کے ساتھ جدید صحیح بخاری ابھی بیروت سے چھپ کر نہیں آئی تھی کہ آپ نے اپنے زیر تربیت طلبہ کے ذریعے نہ صرف صحیح بخاری بلکہ بعض دیگر کتبِ احادیث کی ترقیم خود کرائی۔آپ کی دیگر تصانیف میں تذکرۃ المحدثین، مقالاتِ سعیدی ، توضیح البیان ، مقامِ ولایت و نبوت ، تاریخِ نجد و حجاز، ذکر بالجہر اور متعدد دیگر وقیع کتب شامل ہیں۔
آپ کی تفاسیر اور شروحِ حدیث میں جابجا ایسی معرکۃ الآرا علمی و تحقیقی ابحاث شامل ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو مستقل رسائل کی صورت میں ایڈٹ کر کے طبع کرایا جا سکتا ہے اور ہم اُن کے نام سے منسوب ''سعیدِ ملت فاؤنڈیشن‘‘کے نام سے ایک علمی، تحقیقی اور تصنیفی ادارہ قائم کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں ، وسائل کی دستیابی کی صورت میں ان شاء اللہ العزیز اس کام کو منظم ، مربوط اور خوبصورت انداز میں سامنے لانے کی سعی کی جائے گی ، اَلسَّعْیُ مِنَّا وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ ۔علامہ غلام رسول سعیدی کافی عرصے سے مختلف عوارض (ذیابیطس ، بلڈ پریشر، کمر کے درد، گھٹنوں کے در د وغیرہ ) میں مبتلا تھے اور یہ سارا علمی کام انہوں نے ان عوارض کا مقابلہ کرتے ہوئے کیا ۔ چونکہ وہ تحقیقی مزاج کے تھے ، اس لیے ہر دوا کا پورا لٹریچر پڑھتے اور سمجھتے ،اسی طرح اپنی شوگر ، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر بھی چیک کرتے اور اس کا ریکارڈ رکھتے اور اپنی دواؤں اور انسولین کی مقدار کا تعین کر تے ۔ علامہ صاحب کی تصانیف کے توسط سے امریکہ میں مقیم کئی اسپیشلسٹ پاکستانی نژاد ڈاکٹر زآپ سے رابطے میں رہتے اور آپ اُن سے مشورے بھی حاصل کرتے ، یہ حضرات آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ان کے علاج کے مصارف کے حوالے سے برطانیہ میں مقیم علمائے اہل سنت نے گراں قدر تعاون کیا اور مجھے بار بار حوصلہ دیتے رہتے کہ جو بھی علاج دستیاب ہو آپ اُسے اختیار کریں اور مصارف کی کوئی فکر نہ کریں ۔ دعا ہے اللہ عزوجل علامہ صاحب کے ان محبین کو اُن سے محبت کی جزائے کامل و تمام عطا فرمائے ۔حضرت کا جنازہ پاکستان کے بڑے تاریخی، منظم اور علمی و روحانی شکوہ سے بھرپور جنازوں میں سے ایک تھا۔مجھے سینکڑوں علماء و مشائخ اور لاکھوں عوام کی موجودگی میں ٹی گراؤنڈ فیڈر ل بی ایریا کراچی میںآپ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی تدفین جامع مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے پایاں مغفرت سے نوازے اور آپ کو سید المرسلین ﷺ کی شفاعتِ مقبولہ اور قربت نصیب ہو اور ربِ کریم آپ کے درجات کو بلند اورآپ کی گراں قدردینی خدمت کو تا قیامت صدقۂ جاریہ فرمائے ۔