ٹائمنگ کا مطلب ہے :''کسی چیز کے لیے وقت کا تعیّن ‘‘۔کسی بھی چیز کی ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے ،اگر کوئی صحیح کام یا اقدام وقت پر نہ کیا جائے تو وہ مطلوبہ نتائج کا حامل نہیں ہوتا ۔ اِسے اردو محاورے میں ''بعد اَز مرگ واویلا‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے،بعد ازمرگ درست فیصلہ بھی آجائے تو وہ محض تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لیے ہی کارآمد ہوسکتا ہے، لمحۂ موجود میں اس کی افادیت نہیں رہتی۔دہشت گردی کی دنیا میں آج کل ٹائم بم کی اصطلاح چل رہی ہے ،لیکن اگر بم چند سیکنڈ بھی مؤخر ہوجائے تو ہدف ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
سلمان تاثیر کے بیان اور اقدام پر تمام مذہبی جماعتیں اُس وقت سراپا احتجاج تھیں اور ملک بھر میں اُس کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی تھیں ،اُس کے بیان اوراِقدام کو توہینِ رسالت قرار دیا جارہا تھا۔لیکن جب غازی ممتاز حسین قادری کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے سزائے موت ہوئی اور پھر یکے بعد دیگرے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اُسے برقرار رکھا،تو اِن تمام مراحل میں مذہبی سیاسی جماعتیں لا تعلق رہیں ۔اُن کی جانب سے احتجاج کی کوئی صدا بلند نہیں ہوئی اورنہ ہی کوئی توانا تحریک برپا کی گئی، بس اِسے صرف ایک مسلک کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔
لیکن جب حکومتِ وقت نے ممتاز حسین قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کو سزائے موت دے دی اورالیکٹرانک میڈیا کے بائیکاٹ اور بلیک آئوٹ کے باوجودپوری دنیا نے اُن کے جنازے کا بے مثال (Unprecedented)منظردیکھ لیا تو انہیں اندازا ہوا کہ پوری قوم اور بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے محبت کرنے والوں کی ہمدردیاں ممتاز حسین قادری شہید کے ساتھ ہیں اور عامّۃ المسلمین کے نزدیک اُن کی سزائے موت عدالتی قتل ہے ۔ جدید فلسفہ ٔ قانون میں بھی انتہائی جذباتی کیفیت میں اقدام پرانتہائی سزا میں رعایت دی جاتی ہے ۔اور پھر جس طرح سے حکومتِ وقت نے نصف شب کو شب خون مارتے ہوئے ہنگامی طور پر سزائے موت کو نافذ کیا ، اُس سے عوام کی ہمدردی میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے بجا طور پریہ باور کیا کہ اس کے پیچھے کوئی بیرونی یا داخلی جبر کارفرما ہے ۔ اس سے حکمرانوں کا خوف بھی عیاں ہوا کہ اگر یہ جرم وسزا کا کوئی معمول کامعاملہ ہوتا تو اس طرح شب خون نہ مارا جاتا۔چنانچہ سب تو نہیں مگر اکثر مذہبی جماعتیں ردِ عمل دینے پر مجبور ہوئیں اور جماعتِ اسلامی نے ممتاز حسین قادری شہید کے جنازے کی تصویریں لگاکر ناموسِ رسالت کی ریلیاں نکالنے کا سلسلہ شروع کیا ۔اِسے ہم Guilty Conscienceیعنی ضمیر کے احساسِ جرم سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ گویا انہیں اب احساس ہوا کہ ہم نے بروقت مؤثر احتجاج کیوں نہ کیا۔ایسے ہی مواقع کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
مجھے آہ وفغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو! کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے میں، بن کے تیغِ بے نیام آیا
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
سو علامہ اقبال کے بقول جب قیام کا وقت تھا تو ہمارے یہ مذہبی سیاسی قائدین سجدے میں چلے گئے تھے،انہوں نے عافیت میں امان پائی اوراب بعد از مرگ واویلا کرنے کے لیے تازہ دم ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے ۔علامہ اقبال نے رہرو کو رُک کر مشکل مقام کا سامنا کرنے کی طرف متوجہ کیا تھا،لیکن عشرتوں کے اس دور میں کون سائبان کی ٹھنڈی ہوائوں کو چھوڑ کر تپتی دھوپ کے نیچے آکھڑا ہونے کے لیے آمادہ ہوگا۔تاہم اپنا وجود اور جواز ثابت کرنے کے لیے بعد از وقت ہی سہی، واویلا تو کرنا ہوگا ،خواہ تحفظ ناموس رسالت کے مشن کو تحفظِ نسواں ایکٹ کی آڑ میں دفن ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔
اس پس منظر میں حکومتِ وقت نے اپنی ٹائمنگ کا انتخاب کیا اور ممتاز حسین قادری شہید کے جنازے اور اُس پر مسلمانانِ پاکستان کے بے اختیار ردِ عمل اور جذباتی کیفیت کا ادراک کر کے اُس کے اثرات کو کم کرنے یعنی Defuseکرنے کی تدبیر کی۔ لہٰذارانا ثناء اللہ کے بقول آٹھ ماہ زیرِ التوا ''تحفظِ نسواں بِل‘‘نہایت عجلت کے ساتھ پنجاب اسمبلی سے پاس کرایاگیا تاکہ عوام کی توجہ ممتاز حسین قادری شہید سے ہٹ کر دوسری جانب مبذول ہوجائے اور ظاہر ہے کہ دوسرا کوئی بھی مسئلہ اس قدر جذباتی نہیں ہے۔یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مذکورہ'' تحفظِ نسواں ایکٹ ‘‘پاکستان کی سرزمین پر ایک دن کے لیے بھی قابلِ نفاذ نہیں ہے ،اِسے ہم ''چائے کی پیالی میں طوفان‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔
اس پس منظر میں مولانافضل الرحمن اپنی حلیف حکومت کو بحران سے نکالنے کے لیے میدان میں اترے اور تحفظِ نسواں ایکٹ پر طوفان کھڑا کردیا ،اِسے آئین اور شریعت کے خلاف قرار دیا ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے بھی اِس ایکٹ کویکسر مسترد کردیا ہے،یعنی آئین وقانون اور اسلام کے خلاف ہونے کے سبب یہ سِرے سے قابلِ غور ہی نہیں ہے۔مولانا فضل الرحمن نہایت زیرک سیاست دان ہیں ،وہ اپنا بھرم حتی الامکان قائم رکھتے ہیں ،اپنے اقتدار کے حلیفوں کی چٹکیاں تو لیتے ہیں اور کبھی کبھی گدگدی بھی کرتے ہیں ،لیکن انگریزی محاورے کے مطابق انہیں ''Let Down‘‘نہیں کرتے،یعنی قعرِ مَذلّت میں گرنے سے بچالیتے ہیں اورمدد کو آپہنچتے ہیں ، یہاں بھی مولانا نے یہ کردار بخوبی نبھایا۔
چنانچہ حکمران برادران نے مولانا فضل الرحمن کودعوتِ ملاقات دی اور اُن کے ''تحفظات‘‘ سنے۔مولاناکی روایت کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف اس ساری پیش رفت سے سو فیصد لاعلم تھے اور انہوں نے شہباز شریف کی سرزنش بھی کی کہ یہ اچانک کیا کردیا؟۔پس جس ملک کے وزیرِ اعظم اتنے سادہ اور بے خبر ہوں ،اُن کے بارے میں مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
حضرت ملک پر حکمرانی فرمارہے ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی ایک ایکٹ پاس کرتی ہے ، جس پر میڈیا میں بھی شور بپا ہے ،جب کہ درحقیقت اُن کا مکمل اقتدار اسلام آباد کے علاوہ پنجاب ہی میں ہے اور انہیں اتنے اہم واقعہ کی خبر ہی نہیں ہے،فیا للعجب !،کیا یہ ملک ایسی بے خبری کے عالَم میں چلایا جارہا ہے ،یہ ایک الگ سوالیہ نشان ہے۔اِسی شانِ بے اعتنائی کے بارے میں غالب نے کہا تھا:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
اور جب حاکم وقت اتنا بے خبر ہو توفریاد کس سے کی جائے؟، غالب نے سچ ہی کہا ہے:
آہ کو چاہیے اک عمر، اثر ہونے تک
کون جیتا ہے، تری زلف کے سر ہونے تک
دوسری جانب منصورہ میں ملک ممتاز حسین قادری کی شہادت کے تناظر میں ''تحفظ ناموسِ رسالت مآبﷺ‘‘ کے عنوان سے تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس (APC) طلب کی گئی ۔لیکن مولانا فضل الرحمن نے کمالِ مہارت سے پوری کانفرنس کا رُخ تحفظِ نسواں ایکٹ کی طرف پھیر دیا اور اِس کے واپس لینے کا مطالبہ کردیا ۔دوسری جانب شریف برادران کی ناموس اور اقتدار کی حفاظت پر مامور سپہ سالار رانا ثناء اللہ نے پرزور بیان دیا کہ منتخب اسمبلی کا پاس کیا گیا ایکٹ کیسے واپس لیا جاسکتا ہے ؟۔لگتا ہے کہ یہ ڈرامے کے یہ سارے مناظر پہلے سے طَے شدہ ہیں ۔جب ممتاز حسین قادری شہید اور ناموسِ رسالت کا مسئلہ پس منظر میں چلا جائے گا تو تحفظِ نسواں ایکٹ کی نوک پلک درست کرنا چُٹکی بجانے کے مترادف ہے ۔سو مولانا فضل الرحمن کی ساکھ کوقائم رکھنے یعنی Face Savingکا بھی اہتمام ہوجائے گا۔سرِ دست ہم سب کو27 مارچ کے خطِ مرگ (Dead line)کا انتظار کرناچاہیے ، دیکھیے! ''بحر کی تہہ سے نکلتا ہے کیا؟‘‘۔سواِن حالات کے تناظر میں ہمیں ''انتظار کرواور دیکھو‘‘کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا،آخر پوری مذہبی سیاسی قیادت نے ایک خطِ مرگ کھینچا ہے تو یقینااس کے عواقب پر گہرا ئی اور گیرائی کے ساتھ غوروخوض بھی کیا ہوگا اور اُس کے مابعد کے مراحل بھی یقینا طے کیے ہوں گے ۔سو ہماری دعائیں اُن کے ساتھ ہیں اور حسن ظن سے کام لیتے ہوئے ہم ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
اگر حکمرانوں کے ذہنوں پر قانون کی حکمرانی کا اتنا ہی خمار چڑھا ہوا ہے ،تو پھرسپریم کورٹ میں آسیہ مسیح کی پٹیشن کیوں معرضِ التواء میں پڑی ہوئی ہے اور یہی صورتِ حال اُن درجنوں مجرمین کی ہے جنہیں توہینِ رسالت کے جرم میں سزائے موت دی گئی ہے ۔ لیکن چونکہ اس میں مغربی آقائوں کی ناراضی کا خوف ہے ،اس لیے اس کا خطرہ مول لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔جب امریکی جاسوس یا بلیک واٹر کے کارندے ریمنڈ ڈیوس کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے باعزت نکال کر ائیرپورٹ پہنچایا گیا اور خصوصی انتظامات کے تحت امریکا روانہ کیا گیا ،تو اُس وقت بھی پنجاب میں مسلم لیگ نون ہی کی حکومت تھی اور اسی جماعت کی حکومت میں ایمل کانسی کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیاگیاتھا ۔سومسلم لیگ (ن) کا کرشمہ یہ ہے کہ اس کاچہرہ مذہبی لوگوں کے لیے ہمیشہ قابلِ قبول رہا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ان کے کھاتے میں کوئی مذہبی کارنامہ نہیں ہے ،البتہ اس طرح کے کارنامے بہت ہیں ۔