بادِ صباکے معنی ہیں:''شمال مشرق کی طرف سے آنے والی صبح کی ٹھنڈی ہوا ‘‘،اسے ''نسیم یا نسیمِ سحر‘‘بھی کہتے ہیں ،یعنی رات کے پچھلے پہر یا صبح کی ہلکی ،ٹھنڈی اور مُعطّر ہوا،اِسے بہشت کی ہوا بھی کہتے ہیں۔مولانا عبدالرحمن جامی نے عشقِ رسولﷺ میں ڈوب کر مندرجہ ذیل نعت لکھی ہے :
نسیما! جانبِ بطحا گزر کُن
ز احوالم محمد را خبر کُن
بَبُر ایں جانِ مشتاقم ، بہ آں جا
فدائے روضۂ خیر البشر کُن
توئی سلطانِ عالَم، یامحمد!
ز روئے لُطف، سوئے مَن نظر کُن
مُشرّف گرچہ شد جامی ز لُطفَت
خدایا! ایں کرم بارِ دِگر کُن
ترجمہ:اے صبح کی معطّر ہوا!کبھی تو مدینۂ منورہ کا چکر لگااور میرے پُردرد حالات اور زیارت کے اشتیاق کی اطلاع آقائے دو عالَم ﷺ کو دے دے ۔اگر ہوسکے تو شوقِ دیدارِ مصطفی سے لبریز میری جان کو اڑاکر حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لے جا اور مجھے خیر البشر ﷺ کے روضۂ مبارک پر قربان کردے۔اے محمد (صلی اللہ علیک وسلم)!آپ ہی جہان کے حکمران ہیں ،کاش کہ : آپ کی نگاہِ کرم میری طرف ہوجائے ۔اگرچہ جامی آپ ﷺکی زیارت کے شرف سے مشرّف ہوچکا ہے ،اے اللہ!ایک بار پھر کرم ہوجائے اور بارگاہ ِ رسالت مآبﷺ کی زیارت اور حضوری نصیب ہوجائے۔
الغرض بادِ صبا اور بادِ نسیم میں بڑی کشش ہے ،لطافت ہے، جنت کی خوشبو ہے اور اس سے راحت وسُرور اور برکات کی امید رکھی جاتی ہے ،لیکن تمام تر توقعات کے برعکس آفات کا نزول ہوگیا، سوشاعر نے کہا:اے بادِ صبا!یہ ساری بربادی ،فساد اور آفت تیری ہی لائی ہوئی ہے ۔یعنی آج کل اہلِ مغرب جس دہشت گردی کا رونا رو رہے ہیں اور یک زبان ہوکر اسلام اور مسلمانوں کو اس کا دوش دے رہے ہیں، درحقیقت یہ ساری تخریب وفساد، دہشت وقتل وغارت انہی کی پالیسیوں کا نتیجہ اور ثمر ہے۔
الجزائر کے لوگ جب فرانس کے استعمار اور غاصبانہ تسلّط سے آزادی کی تحریک چلا رہے تھے اور الجزائر کے گلی کوچے حُرّیت پسندوں کے خون سے رنگین تھے ،تو فرانس کے ایک صاحبِ نظر دانشور ''ژان پال سارتر‘‘ نے اپنے ہی وطن کے اس ظلم کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی ۔کسی نے اُس وقت کے فرانس کے صدر'' آندرے ڈیگال‘‘ سے کہا:آپ کی حکومت ژان پال سارتر کو قید کیوں نہیں کرلیتی ،کیونکہ وہ قومی مفاد کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے اور قومی مفاد سے غداری کا مرتکب ہورہا ہے۔ آندرے ڈیگال نے نہایت بامعنی جملہ کہا جو تاریخ میں امر ہوگیا اور ہمیشہ کے لیے ایک استعارہ بن گیا ،اُس نے کہا:میں فرانس کے ضمیر کو کیسے قید کردوں ،ژان پال سارتر تو فرانس کا ضمیر ہے ۔لیکن افسوس کہ آج کے دور میں اہلِ مغرب کا سینہ ضمیر سے خالی ہے اور ویسے بھی معروف محاورہ ہے کہ''سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔اس لیے کہاجاتا ہے :کسی قوم کی پارلیمنٹ یا کانگریس یا اسمبلی اُس قوم کی اجتماعی رائے کا مَظہر ہوتی ہے ،جسے Collective Willکہاجاتا ہے اور اُس کا اظہاراُس کے منتخب اداروں کی کُلّی یا اکثریتی رائے سے ہوتا ہے۔ لیکن کسی قوم کے ضمیر کی آواز اُس قوم کے اہل فکر ونظر ،اہل دانش وبینش اور اصحابِ بصیرت ہوتے ہیں ۔ اُن کی سوچ اور اُن کی فکر، زمان ومکان کی تحدیدات میں مقیّد نہیں ہوتی،وہ اپنے عارضی اور وقتی مفادات اور لوگوں کی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر حقیقت پسندی اور انسانیت کی مجموعی فلاح کو پیشِ نظر رکھ کر رائے دیتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں ۔لیکن افسوس ہے کہ آج مغرب کا ضمیر اس سے عاری ہے،انہوں نے اپنے وقتی مفادات کااسیر ہوکر انسانیت کے لیے اس دنیا کو جہنم بنادیا ہے ۔پہلے وہ دوسروں پر آگ برساکر اور دوسروں کو آگ میں جلتا دیکھ کر فتح کا جشن مناتے تھے اور لطف اٹھاتے تھے، لیکن اب اس آگ کی تپش اُن کی اپنی دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ پیچھے پلٹ کراپنی پالیسیوں اور حکمتِ عملی کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ،طاقت کے زعم نے اُن سے انصاف پسندی اور انسانی حرمت کی اقدار کو چھین لیا ہے ۔
عراق پر امریکہ اور اہلِ مغرب کی یلغار سے لے کر اب تک عراق ،شام ،لیبیا،مصر ،یمن، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں جوان ، بوڑھے ،عورتیں اور بچے اس آگ کا ایندھن بن چکے ہیں،لیکن ہر بار دہشت گردی کے اسباب کا تجزیہ کرنے اور اُن کا ازالہ کرنے کی بجائے عبرت ناک انتقام کا اعلان کیا جاتا ہے اور یوں جیتے جاگتے انسانوں کو بھسم کرنے اور انسانیت کے چین کو غارت کرنے والی اس آگ کو بجھانے کی تدبیر کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔جب تک دنیا طاقت کے کثیر المراکز (Multipolar System)نظام کے تحت چل رہی تھی ،توتحدید وتوازن (Check & Balance)کا کوئی نہ کوئی میکنزم موجود تھا اورکسی ایک عالمی طاقت کے جبرکے خلاف تدارک کی کوئی نہ کوئی صورت موجود تھی۔ کمزور اقوام کو اپنے حلقۂ حمایت میں لینا طاقت ور اقوام کی ضرورت تھی،سو کمزور اقوام کے لیے اس صورت میں ایک طرح سے تحفظ کاایک امکان موجود تھا ۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک زہریلا سانپ اور نیولاکاٹنے کے لیے آپ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ،لیکن اُن کی ایک دوسرے پر بھی نظر ہے ،اس لیے وہ آپ کی جانب پیش قدمی نہیں کر پارہے ،کیونکہ سب سے پہلے اپنی جان کی بقاہر ایک کوعزیز ہوتی ہے ،دوسرے کی جان لینا اپنی سلامتی کے بعد کی ترجیح ہوتی ہے ۔ لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ توازن درہم برہم ہوگیا، دنیا طاقت کے یَک قطبی (Unipolar) نظام کے حِصار میں آگئی اور طاقت کے خُمار نے انسانیت کے سکون کو برباد کردیا۔دومتقابل (Parallel)سپرپاورز کے نظام میں کمزور اقوام کے لیے عافیت کا کوئی نہ کوئی گوشہ دستیاب رہتا تھا ،لیکن اب ایسا نہیں رہا اور امریکہ کے دنیا پر غلبے نے کمزور اقوام کے لیے تو مشکلات یقینا پیدا کی ہیں ،لیکن مادّی طاقت پر مبنی خدائی زعم کے باعث اُن کااپنا چین بھی غارت ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔
ساری دنیا میںممالک کی Homeland Securityیعنی داخلی سلامتی ،خارجی سلامتی سے بھی زیادہ ترجیحی مسئلہ بن گئی ہے اور اقوامِ عالَم کے وسائل کا ایک معتَد بہ حصہ اِسی کی نذر ہورہا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام میں تواِسے بھی معاشی عمل یعنی Economic Activityمیں ڈھال لیا جاتا ہے،بہت سی کارپوریشنیں اور کمپنیاں داخلی سلامتی کے لیے نِت نئے آلات اور سامان تیار کر رہی ہیں ، وہ فروخت ہورہا ہے ،اُس پر وہاں کی حکومتوںکوٹیکس کی صورت میں مالی وسائل مل رہے ہیں اور ان کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں۔ لیکن کمزور اقوام جواپنی قومی آمدنی سے تھوڑا بہت پس انداز کر کے اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کیا کرتی تھیں ،وہ اب داخلی سلامتی پر خرچ ہورہا ہے اور آئے دن اُس کی مقدار (Quantum) اور معیار (Quality)میں اضافہ ہورہا ہے ۔
یہ چند سطور منگل کے روز بیلجئم کے دارالحکومت اور یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹرز برسلز کے ائیرپورٹ اور میٹرو ٹرین میں بم دھماکوں اور اُن کے نتیجے میں رونما ہونے والے جانی نقصان کے تناظر میں لکھی ہیں ،جوبلاشبہ افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔پورا امریکہ و یورپ حتیٰ کہ روس اوران عالمی طاقتوں کے زیرِ اثر ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام بھی اِن حادثات کی مذمت میں یک زبان ہیں ۔ ہر بار اِن کو کچل دینے اور جڑ سے اُکھاڑنے کے بلند بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور دنیا امید قائم کرلیتی ہے کہ اب امن قائم ہوجائے گا،لیکن ہر فساد ایک نئے فساد کو جنم دیتا ہے اور دہشت وتخریب کی پنیری(Nursery) بہت ہی زرخیز ہوتی جارہی ہے ،ایک سلسلہ ہے جو تھمنے کو نہیں آرہا ،ایک سیلابِ بلاخیز ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔
ظلم کی زمین تو یقینابہت زرخیز (Fertile)ہے ،شیطان کی طرح کثیر الاولاد ہے ،مگر عدل کی زمین بانجھ ہوچکی ہے ،جسے عربی میں ''عقیم‘‘(Barren)کہتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اچھے بچے اور اطاعت گزار خادم ثابت کرنے کے لیے مذمت میں بھی پہل کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں تاکہ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں اور ہماری وفاداری مشکوک نہ قرار پائے ،لیکن شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے :
زگردن فرازاں، تواضُع نکوست
گداگر تواضع کُند، خُویٔ اُوست
یعنی اگر کوئی صاحبِ اقتدار یا صاحبِ قوت واختیار اور عالی مرتبت شخصیت تواضع کرے ،تو یہ اُس کی خوبی قرارپاتی ہے ، وصفِ کمال اورنیکی شمار ہوتی ہے۔لیکن اگر کوئی گداگر تواضع کرے ،تو یہ اُس کی ادا ہے ،مجبوری ہے ،ضرورت ہے ،کیونکہ اگر وہ تواضع نہیں کرے گا تو اُسے خیرات کون دے گا؟۔سو ہماری تواضع یابڑھ چڑھ کردہشت گردی کی مذمت بھی اِسی قبیل میں شمار ہوتی ہے ،لیکن جب یہی مذمت اہلِ مغرب کریں تو اُن کی شان قرار پاتی ہے ۔ہماری گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کی اس عالَمی وبا کے مستقل تدارک کے لیے کوئی جامع حکمت عملی اور پالیسی ہونی چاہیے ،نا عاقبت اندیشی اور تدبّر سے عاری پالیسیوں کا حشر ہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے دیکھ رہے ہیں ۔طاقت کا استعمال بجا ،لیکن عقل کا استعمال بھی کر کے دیکھ لیا جائے ۔