اہلِ مغرب نے انسانی خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے لیے جو جدید علوم ایجاد کیے ہیں ،اُن میں سے ایک''علم الانسان‘‘ہے، جسے جدید اصطلاح میں ''Anthropology‘‘کہاجاتا ہے، علم الانسان کی تعریف'' Merriam Webster‘‘میںان الفاظ میں درج ہے :'' فرد کی شخصیت،اُس کے آبائواجداد ،جسمانی خصوصیات ،گِردوپیش اور سماج سے تعلقات اورتہذیب وثقافت کے اعتبار سے انسان کے مطالعے کا نام علم الانسان ہے‘‘۔آکسفورڈ اور کیمبرج ڈکشنری میں بھی اس سے ملتی جلتی تعریف ہے ۔اس کے متوازی ''علم النفس‘‘ہے ،اِسے انگریزی میں Psychology کہتے ہیں۔'' Merriam Webster‘‘میں اس کی تعریف یہ ہے:''انسان کے ذہن اور اس کے رویّے یا انسان کے سوچنے کے انداز کے مطالعے کا نام علم النفس ہے ‘‘۔
سوامریکا اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں بحیثیتِ فرد انسانی رویّوں،انسان کی ذہنی ساخت اور ایک نسل کی حیثیت سے اقوامِ عالَم جسمانی ارتقاء اورتہذیبی ،ثقافتی اورسماجی رویّوں کامطالعہ کیا جاتا ہے ۔ انسان کی سوچ اور رویّے پر ماحول کی اثر پذیری کو حدیثِ مبارک میں اِن کلمات میں بیان کیا گیا ہے:''ہربچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے ،پھر اُس کے ماں باپ (یعنی سماج )اُسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں ،(بخاری:1385)‘‘۔انسان کی ذہنی ساخت کے تانے بانے کو حدیثِ پاک میں جبلّت سے تعبیر کیا گیا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ہِل گیا ہے ،تو اس کی تصدیق کرلو اور جب تم سنو کہ کوئی شخص اپنی جبلّی ساخت سے بدل گیا ہے تو اس کی تصدیق نہ کرو ،کیونکہ وہ اپنی جبلّت کی طرف لوٹتا ہے ،(مسند احمد:27499)‘‘۔
قرآنِ کریم نے بتایا کہ انسان موروثی طور پر کوئی پاپ یا گناہ لے کر نہیں آتا ،وہ اپنی نیکی یا بدی خود کماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''سو آپ ہرباطل سے کنارہ کش ہوکر اپنارُخِ بندگی دینِ حق پر،یعنی اللہ کی بنائی ہوئی اُس سرِشت پر، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ،قائم کردیں، (خبردار!) اللہ کی سرشت میں کوئی ردوبدل نہ کرنا ،یہی صحیح دین ہے،(الروم:30)‘‘۔اسی طرح قرآن مجید نے جا بجا نطفے سے لے کر انسانِ کامل بننے تک انسان کے تخلیقی مدارج کو بیان فرمایااور احادیثِ مبارکہ میں بطنِ مادر میں جسمانی ارتقاء ، اُس کے ساتھ روح کے تعلق اور اُس کے ضمن میں یہ بیان فرمایا کہ ایک مرحلے پر انسان کی کمپیوٹر ڈسک میں اس کی پوری سوانح درج کردی جاتی ہے ،اِسی کو آج کل ڈی این اے کہتے ہیں، یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انسان کے ڈی این اے میں بے پناہ معلومات ہیں ،جن کا احاطہ ابھی عقلِ انسانی نہیں کرپائی ۔ڈی این اے ہی کے ذریعے انسان کی اصل دریافت کی جارہی ہے اور بعض صورتوں میں یہ اصل قانونی رشتۂ پدری (parentage)سے مختلف ہوتی ہے ۔
حال ہی میں برطانیہ کے سرکاری مذہبی رہنما اورساڑھے آٹھ کروڑ نفوس پرمشتمل پروٹیسٹنٹ فرقے کے سب سے بڑے روحانی پیشوا آرک بشپ آف کنٹربری جسٹن ویلبی نے اپنے ڈین اے ٹیسٹ کے بعداعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی ماں کی ناجائزاولاد ہیں،یعنی اپنے قانونی باپ کی حقیقی اولاد نہیں ہیں۔اُن کا حقیقی باپ انتھونی مونٹاگ براؤن تھا جو برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کا آخری پرائیویٹ سیکرٹری تھا اور یہ خاتون اُس کے ماتحت کام کرتی تھی۔
یہ چند سطور میں نے اس لیے لکھیں کہ ہماری قوم کی بھی بعض جبلّی خصلتیں ،جزوی تفرُّدات کے علاوہ مشترک ہیں ۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاناما لیکس پرہمارے سیاست دانوں کا شورشرابا زیادہ تر مصنوعی ہے اور محض اپنا گراف بڑھانے کے لیے اِسے اچھالا جارہا ہے۔کرپشن کی تحقیق عُمودی (vertical)گہرائی اور اُ فُقی (horizontal) گیرائی اور جامعیت کے ساتھ کوئی بھی نہیں چاہتا ،کیونکہ ہماری قیادت کے مجموعی اثاثے میں کرپشن کی آلودگی سے مکمل طور پرپاک صاف افرادی سرمایہ بہت کم ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے لیے جواز پیش کردیتا ہے اور دوسرے کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا اصل درد یہ ہے کہ کراچی میں بے امنی کے خلاف رینجرز کے آپریشن کو کرپشن تک محیط کر کے اُن کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور اُن کے حقِ حکومت کو بے اختیار بنادیا گیا ہے، بلکہ ایک طرح سے انہیں بے آبرو کیا گیا ہے ۔ مگر وزیرِ اعظم محمدنواز شریف اُن کی شکایات پرٹَس سے مَس نہ ہوئے اور اُن کی مشکلات کا تدارک نہیں کیا۔مزید یہ کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اُن کی چٹکیاں لیتے رہے ،گدگدی کرتے رہے اور اُن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا اور اُن کے احتجاج کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی ۔اب انہیں قرض چکانے کا صحیح موقع ملا ہے ،سو وہ سود سمیت قرض چکا رہے ہیں ۔مگر دل سے کرپشن کی جامع تحقیق کے وہ بھی آرزو مند نہیں ہیں ۔دوسری سیاسی پارٹیوں کی ناراضی کا سبب بھی شریف برادران کا دوسروں کو یکسر نظر انداز کرنے کا رویّہ ہے، بلکہ کوئی سچ جاننا چاہے تو اُن کی اپنی جماعت کے لوگوں کا شکوہ بھی یہی ہے ۔لیکن اندر سے ٹیسیں اٹھنے کے باوجود وہ جماعتی نظم کی وجہ سے حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاسکتے ، سو اُن کا درد اوروںسے سِوا ہے۔خواجہ محمد وزیر نے بہت پہلے شریف برادران کی موجودہ ابتلا کے حسبِ حال یہ شعرکہہ دیا تھا:
اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
اس سے پہلے ڈی چوک پرطویل دھرنے کے زمانے میں پارلیمانی اپوزیشن بلکہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور پاکستان تحریکِ انصاف کے بعض باشعور ممبران کی خَلوت کی دعائیں بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔لیکن خطرہ ٹلتے ہی شریف برادران اپنی اصلیت کی طرف لوٹ آئے اور پارلیمانی اپوزیشن کے احسانات کو یکسر فراموش کردیا ۔اب مرزا غالب کے الفاظ میں شریف برادران کے اپوزیشن سے زیرِ لب شکووں کا جواب یہ ہے :
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سُبک سر بن کے کیا پوچھیں ،کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
سو اَب اپوزیشن کی نازبرداری کا وقت سرپر آگیا ہے اور اُن کا عملی جواب یہ ہے کہ جب آپ اپنی وضع ،اندازِ دلربائی، شانِ بے اعتنائی اوردوسروں کو نظر اندازکرنے کاشِعار نہیں چھوڑیں گے ،توہم بھی آپ کے سامنے سبک سر بن کر نہیں آئیں گے،بلکہ اب خوئے معشوقانہ اوراندازِ دلبرانہ اختیار کریں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی صوبۂ سندھ کا Chapterتو پھر بھی محتاط ہے ۔کیونکہ انہیں یہ کھٹکا بھی لگا رہتا ہے کہ ماضی میں سیاسی حکومتوں کی بساط جب بھی لپیٹی گئی ،تو انجامِ کارکوئی بھی نہ بچااور ہر ایک کو نہ صرف یہ کہ بساطِ اقتدار لپیٹ کر جانا پڑا ،بلکہ ایوانِ اقتدار میں گزارے ہوئے ایامِ عیش وعشرت کا جواب بھی اکثر دینا پڑا ہے۔ اگرچہ انہیں حقیقی گرفت سے چھوٹنے کا فن بھی خوب آتا ہے، لیکن ایک عرصے تک بے آبرو رہنااور آزمائش کے مرحلے سے تو گزرنا پڑتا ہے ۔اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کا Chapterنہایت مضطرب اور بے قرار ہے۔اُنہیں شریف برادران کا اقتدارایک پل بھی گوارا نہیں ہے ،جب کہ اس اذیّت وآزار سے وہ 2008ء سے مسلسل گزر رہے ہیں ۔
اُن کے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ،اس لیے وہ آتش بداماں ،شعلہ بدہن اور شمشیر بدست ہیں ۔لیکن انہیں بھی معلوم ہے کہ آخری فیصلہ جناب آصف علی زرداری کو کرنا ہے اور وہ مولانا فضل الرحمن کی طرح نہایت زیرک ،عاقبت اندیش اور دوربیں ہیں ،وہ جذباتی فیصلے نہیں کرتے، ان کی مٹھی میں اقتدار کا معتد بہ حصہ موجود ہے ،جسے وہ جنابِ اعتزاز احسن اور جنابِ قمر الزماں کائرہ کا دل لُبھانے کے لیے قربان نہیں کرسکتے ۔عوامی نیشنل پارٹی کا درد بھی سمجھ میں آتا ہے کہ پنجاب اور اسلام آبادکے تخت کو بچانے کے لیے شریف برادران نے تختِ پشاور جناب عمران خان کے حوالے کردیا ہے ۔ وہاں انہیں وہ کوئی چیلنج دینانہیں چاہتے۔ حالانکہ پاکستان تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا میں 2013ء کے انتخابات میں غالب برتری حاصل نہیں ہوئی تھی اور اگر اسلام آباد کی آشیر باد حاصل ہوتی توانہیں اقتدار سے دور رکھنا ناممکن نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی بھی شدید خواہش تھی کہ اس مُہم کو سَر کرلیا جائے ۔ لیکن یہاں وزیرِ اعظم نواز شریف نے دوراندیشی سے کام لیا اورتیرہ ادھار پر نو نقد کو ترجیح دی، انہوں نے انگریزی محاورے کے مطابق جھاڑیوں میں اقتدار کے پرندوں کوزیرِ دام لانے کی امید پر گرفت میں آئے ہوئے اقتدار کو قربان کرنا پسند نہیں کیااور یہی اُن کی دانش مندی تھی۔
حضرت امام اعظم کے پڑوس میں ایک نوجوان تھا ،دن بھر مزدوری کرتا تھا اور رات کو کثرت سے شراب پی کر عُرجی شاعر کے اشعار پڑھتا تھا ،جن کے مطلع کا پہلا مصرع یہ تھا:أَضَاعُوْنِیْ وَأَیُّ فَتًی أَضَاعُوْا ،''یعنی انہوں نے مجھے ضائع کردیا اور انہیںخبرنہیں کہ کن خوبیوں کے حامل نوجوان کو انہوںنے ضائع کردیا ‘‘۔امام اعظم رات بھر نوافل پڑھتے رہتے ، اُن کے کانوں میں پڑوسی کی آواز آتی رہتی ،ایک دن وہ آواز بند ہوگئی ۔آپ نے لوگوں سے پوچھا:وہ نوجوان کہاں گیا ؟،لوگوں نے بتایا:سرکاری کارندے غُل غُپاڑامچانے کے الزام میں اُسے پکڑ کر لے گئے ہیں اورجیل میں ڈال دیاہے۔امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ پڑوسی کی مدد کے لیے خلیفہ کے دربار میں گئے۔خلیفہ نے آپ کا شایانِ شان استقبال کیا اور آمد کا سبب پوچھا ۔آپ نے فرمایا:میرے پڑوس میں ایک نوجوان تھا، اُسے آپ کے سپاہی گرفتار کر کے لے آئے ہیں ،اگر آپ اُسے آزاد کردیں تو مہربانی ہوگی۔بادشاہ کے لیے امام اعظم کی فرمائش غیر معمولی بات تھی ،اُس نے حکم دیا کہ نہ صرف اس نوجوان کو بلکہ اُس رات جتنے لوگ بھی پکڑے گئے ہیں ،سب کو آزاد کردو۔امام اعظم اُسے لے کر گھر آئے اور پیار سے کہا:''میرے عزیز!کیا ہم نے آپ کو ضائع کردیا‘‘۔اس پر وہ شرمندہ ہوا اور ہمیشہ کے لیے شراب نوشی اور برے اعمال سے توبہ کرلی۔سو حزبِ اختلاف اورحکومتی جماعت کے بہت سے رہنماوزیرِ اعظم سے شکوہ کُناں ہیں کہ خدارا ہمیںضائع نہ کیجیے، ہمیں پکاریے تو سہی،ہم ہر خدمت کے لیے دستیاب ہیں۔اور اگر ہمیں ضائع کرو گے تو مشکل وقت آنے پراسی طرح پچھتائو گے۔پس سبق یہ ہے کہ جمہوریت شخصی نہیں بلکہ اجتماعی حکمرانی کا نام ہے۔
نوٹ:یہ کالم 21اپریل2016ء کو لکھا گیا۔