جب سے ہمارا آزادالیکٹرونک میڈیا وجود میںآیا ہے ، نفع نقصان کا تخمینہ آج تک کسی نے نہیں لگایا کہ اس نے ہمیں دیا کیا ہے اور ہم سے لیا کیا ہے؟ اگرچہ آزادمیڈیا کے باوجود کرپشن کے آگے کوئی مضبوط بند تو نہیں باندھا جاسکا ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بدولت کرپشن کے خلاف ایک توانا آواز بلند ہورہی ہے اور وقت کے حکمران ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ سو بلاشبہ یہ ایک مثبت پہلو ہے، اسی طرح بہت حد تک اب خبروں پر پردہ ڈالے رکھنا اور حقائق کو چھپانا عملاً ممکن نہیں رہا۔ اس کادوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے آزاد میڈیا نے ہمارے سیاسی وسماجی مسائل کا کوئی مثبت اور قابلِ عمل حل پیش کرنے کی بجائے سنسنی خیزی پر توجہ زیادہ دی، اس کا سبب غیرتعمیری مسابقت ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دلیل واستدلال پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے شور وغوغا بہت زیادہ ہے۔ معقولیت پر جارحانہ انداز کو ترجیح دی جاتی ہے، پہاڑی ندی نالوں جیسا شور زیادہ ہے، سمندر جیسا سکوت اوردلیل واستدلال کی سَطوت وشوکت کم ہے۔ اِس کا سبب ریٹنگ بتائی جاتی ہے جوبجائے خود ایک سربستہ رازہے، جس کی حقیقت سے میڈیا کی مارکیٹنگ کا شعبہ اور تشہیری ادارے ہی واقف ہوتے ہیں۔اور اس میں بھی ذرہ بھر شک نہیں کہ آزاد میڈیا نے ہماری معاشرتی اور دینی اقدار کی پامالی کی صورت میں بھاری قیمت بھی وصول کی ہے۔
اس میں سے ایک رمضان المبارَک کی تقدیس کی پامالی ہے۔ رمضان المبارَک میں لوگ عام دنوں کے برعکس ذہنی اور فکری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں ، عبادات کا ذوق بڑھ جاتاہے اور یہ رمضان المبارک کی برکات کا ایسا اعجاز ہے جو ہر کس و ناکس کوصاف نظر آتاہے ۔رمضان المبارَک کی فضیلت اور روزے کے احکام قرآن میں بیان کئے گئے ہیں اور احادیث کا ذخیرہ تو رمضان المبارک اور عبادتِ صوم کے فضائل سے معمورہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:''جب رمضان داخل ہوتاہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ سرکش شیطان جکڑ دئیے جاتے ہیں اور ان کو زنجیریں پہنادی جاتی ہیں‘‘۔ الغرض مجموعی ماحول کو نیکیوں کے لیے سازگار بنادیا جاتاہے اور گناہوں کے لیے ناسازگار۔ مگر میڈیا نے رمضان کی مارکیٹنگ شروع کردی، طرح طرح کے ٹائٹل سانگ، سلوگن اور رمضان کے نام پر لَہوولَعَب اور تماشے سج گئے۔ نہ جانے کیا کیا عنوان ایجاد کیے گئے۔ ایک دل جلے نے کہا کہ بہتر ہے کہ سب ایک ہی ٹائٹل رکھ لیں اور وہ ہے:''دکان رمضان‘‘، لیکن ٹائٹل میں کیا رکھا ہے، ''دکان رمضان‘‘ ہی کا منظرتو ہر سو نظر آتاہے اور اب ماشاء اللہ اداکارائیںبھی ماہِ رمضان میں جنت کا راستہ دکھانے کے لیے میدانِ عمل میں رونق افروز ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی قرآن مجید اور رمضان کی تقدیس سے کیا نسبت ہے؟
رمضان المبارَک کا مقدّس عنوان ، مردوزن کا مخلوط اجتماع، بازاری ماحول، نہ نماز کی فکر بلکہ نماز سے دوری کا پورا اہتمام، اب صرف میلا ٹھیلا رہ گیا ہے، بیچ میںبس تھوڑاسا مذہب کا تڑکا اورچٹخارے کے لیے مذہب کی چٹنی ہے، باقی مارکیٹنگ ہے۔ ہارورڈیونیورسٹی سے ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے والے بھی کیامارکیٹنگ کریں گے،جو رمضان کے پروگرام کرنے والے مایۂ ناز سیلز پرسن مذہب کاخوبصورت ٹائٹل لگا کر کرتے ہیں۔ ان کی مہارت لاجواب ہے اور اس کی قیمت بھی وہ خوب وصول کرتے ہیں۔ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو کم ازکم رمضان کے تقدس کو تو پامال نہ کیا جائے، کوئی اور عنوان بھی رکھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(1)''اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے، جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ساتھ ان کو نصیحت کرتے رہو، کہیں یہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا نہ ہوجائیں (الانعام:70)‘‘۔ (2)''جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا تھا، تو آج کے دن ہم ان کو نظر انداز کردیں گے، جس طرح انہوں نے اِس دن کی ملاقات کو بھلا رکھاتھا اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے(الاعراف:51)‘‘۔
سو رمضان المبارک زبانِ حال سے فریادی ہے کہ اُس کی تقدیس وحُرمت کا دامن بقول علامہ اقبال ''جفا پر وفا‘‘ کا دلکش لیبل لگا کر تار تار کیا جارہا ہے۔ بھانڈپن اور آوارگی کومذہب اور رمضان کے پُرکشش غلاف میں لپیٹ کر دین کے حصہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ دین کے ساتھ ایک تقدیس واحترام کا تصور ذہن میںآتاہے، اسے آرٹ بنا کر آرٹسٹوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور شوخی وطنّازی کی نذرکردیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جسے آرٹسٹ بننا ہے وہ تقدیس کا چولہ اتار کر اپنے اصل رنگ میں آجائے،آرٹ کے شعبے لاتعداد اور رنگارنگ ہیں، جس نے بھانڈپن اورجُگت بازی کا شعبہ اختیار کرنا ہے، وہ اس رنگ میں آئے، لیکن دورنگی چھوڑ دے۔ کسی فقہی اصول یا ضرب المثَل کا سبب خاص ہوتاہے، لیکن حکم عام ہوتاہے ، چنانچہ ساحر لدھیانوی نے کہا تو کسی اور تناظر میں تھا ، لیکن ہمارے حسبِ حال ہے ؎
کہاں ہیں ، کہاں ہیں، محافظ خودی کے
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
سب سے بڑھ کر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ہمارے وہ سرمایہ دار اور صنعت کار جو دین داری کی شہرت رکھتے ہیں ، حج اور عمرے کا کبھی ناغہ نہیں کرتے،عام زندگی میں دینی مزاج کے حامل نظر آتے ہیں ، وہ بھی چمک دمک، آب وتاب اور چکاچوند سے عاری خالص دینی آگہی کے حامل کسی پروگرام کو سپانسر کرنے اور اپنے اشتہار سے نوازنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، بس نیم لباس عورت اورتشہیری شعبہ لازم وملزوم ہیں۔ یہ بھی دین کے حوالے سے ایسی ہی دورنگی اور منافقت ہے، جس کا منظر ہماری فلموں میں دکھایا جاتاتھا کہ ایک اداکار ایک لمحے چور اور ڈاکو کے روپ میں نظر آتاہے اور دوسرے لمحے وہ نماز کا مصلّٰی بچھائے تسبیح کا ورد کررہاہوتا ہے۔ سائل پوچھتا ہے: یہ کیسا تضاد؟ وہ جواب دیتا ہے:''وہ میرا پیشہ ہے، یہ میرا مذہب ہے‘‘۔الغرض پیغام یہ ہے کہ دین کے ساتھ سب کچھ چلتاہے اور چل سکتاہے اور یہی سکہ رائج الوقت ہے۔
دوسری جانب ہماری خالص مذہبی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیںہیں جو ا س شِعار سے بالکل لاتعلق ہیں ، وہ ایک فرد کی غلطی پر تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں ، لیکن دین کی اِ س منظم بے حرمتی کے آگے سپرانداز ہیں۔ آخر میڈیا کی سب کوضرورت ہے،یہی تو وہ پیکرِ نازوانداز اور عَشوَہ طراز محبوب ہے، جس کی دلداری زاہدورندسب کو عزیز ہے۔ دین کے حوالے سے اُن کی ترجیحات کافی بدل چکی ہیں ، اُن کی ترجیحات کی فہرست میں خالص دین اور اس کے تقاضے بہت آخر میں آتے ہیں، حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر مسئلے پر سڑکوں پر آکر احتجاج کیا جائے اور ریلیاں نکالی جائیں۔ میڈیا مالکان کے ساتھ ایک سنجیدہ نشست کا بھی اہتمام کیا جاسکتاہے۔
میں نے گزشتہ سے پیوستہ سال قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین سے عاجزانہ اپیل کی تھی کہ سیرت النبی ﷺ پر محض نظریاتی خطابات سے آگے بڑھ کر عملی میدان میں قدم رکھیں ۔ اسلام کے نام پر قائم اس وطنِ عزیز پاکستان میں اگرآپ کو دس بیس معتبر اور قابلِ احترام افراد نظرآتے ہوں تو اُن کے ساتھ میڈیامالکان کی ایک طویل نشست کا اہتمام کریں ۔ یہ اہلِ فکر ونظر باہمی اتفاقِ رائے سے ہماری دینی، اَخلاقی اور معاشرتی اَقدار کا ایک کم ازکم قابلِ قبول اور قابلِ عمل معیار وضع کریں اورپھرمیڈیا مالکان اس پر رضاکارانہ طور پر عمل کریں اور اس پر نظر رکھنے کے لیے ایک مجلسِ نظارت (Vigilance Cell)قائم کریں، شایداس سے پچیس تیس فیصد بہتری آجائے۔ لیکن یہ وہ بھاری پتھر ہے جس کو اٹھانے کے لیے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔
اہلِ عزیمت اس دور میں ناپید ہیں ، ایک صاحب نے کہا تھا:''اہلِ رخصت تو یُسر، عدمِ حرج اور بشارتوں کی راحتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اہلِ عزیمت رخصت پر چلے گئے ہیں‘‘۔ چنانچہ راوی ہر سو چین ہی چین لکھتا ہے۔ جو بھولا بھٹکا عزیمت کی بات کرے وہ ازکارِ رفتہ ہے، Rigidہے،یَبُوست زدہ ہے، دقیانوسی ہے، اپنے عصر کے تقاضوں سے بے خبر اور وقت کے لَمس سے ناآشناہے۔ غالب نے کہا تھا ؎
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے ونغمہ کو اندوہ رباکہتے ہیں
بعض دوستوں سے شخصی طور پر باہمی احترام کا تعلق ہے اوروہ قائم رہے گا۔یہ چند سطورمیںنے دردِ دل کے طور پر لکھی ہیں : ''روئے سخن کسی طرف ہوتو روسیاہ‘‘ ، گلشن کاکاروبار تو ہوا کے رخ پر ہی چلتا رہے گا، لیکن فغانِ درویش سننے میں کیا حرج ہے، کان دھرنے اور دل ودماغ میں جگہ دینے کی بات جدا ہے ؎
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے
چیئرمین پیمرا جناب ابصار عالم کیا رمضان اور قرآن کی تقدیس کی خاطر بھی کوئی کردار ادا کریں گے؟گزشتہ سال بھی نصف درجن سے زیادہ سنجیدہ کالم نگاروں نے اس جانب متوجہ کیا تھا،ان سب سے دستہ بستہ اپیل ہے کہ اس سال رمضان المبارک کی آمد سے پہلے اپنے قلم کی طاقت کو تقدیسِ قرآن ورمضان کے تحفظ کے لیے استعمال کریں، یہ ان کے فن کی زکوٰۃہی سہی۔سنا ہے کہ سوشل میڈیا پر تو دین دار لوگوں کی بھاری اکثریت فریاد کُناں رہتی ہے ۔