"MMC" (space) message & send to 7575

تنہائی سی تنہائی

نہایت ذہنی اذیت اور دکھ کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہوں کہ آج میرا پیارا وطن پاکستان اقوامِ عالَم اور اپنے گردوپیش کے ممالک میں تنہائی کا شکار ہے ۔حدیث پاک میں ہے :''متکبرین کو قیامت کے دن انسانی شکل میں چیونٹیوں جیسا بناکر اٹھایا جائے گا ، اُن پر ہر طرف سے ذلت مسلط ہوگی ،انہیں جہنم کے اُس قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا ،جس کا نام ''بُولَس‘‘ہے ، وہاں ''نَارُالاَنْیَار‘‘(یعنی ایسی آگ جس سے خود آگ بھی پناہ مانگے)کے شعلے بلند ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کے زخموں کی زہر آلود پیپ پلائی جائے گی،(سنن ترمذی:2492)‘‘۔پس آج ہماری تنہائی کا عالَم بھی یہی ہے کہ جس سے تنہائی کو بھی ہول آئے اور پناہ مانگے۔
ہمارا ملک جغرافیائی اعتبار سے چین ،بھارت ،ایران اور افغانستان سے گھرا ہوا ہے ،ان میں سے چین کے علاوہ کسی بھی ملک کے ساتھ ہمارے سیاسی وسفارتی تعلقات خوشگوار اور باہمی اعتماد پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ بے اعتمادی کے سائے ہر سُو منڈلا رہے ہیں ۔ بھارت اپنے آپ کو منی سپر پاور کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے ۔امریکا اور یورپ کے لیے اُس کا وسیع وعریض رقبہ ،ایک سو پچیس کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی ،وسیع مارکیٹ اور جمہوری ومعاشی استحکام پرکشش ہے ۔امریکا بھارت کو چین کے لیے نہ صرف ایک حِصار، واچ ڈاگ بلکہ اس کے مقابل حربی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کیا ہے اور حال ہی میں یہ عندیہ ملا ہے کہ وہ اُسے نیٹو کا ایسوسی ایٹ ممبر بھی بنانا چاہتا ہے،خود بھارت بھی بڑے زعم میں مبتلا ہے۔ خاکم بدہن العیاذ باللہ! وہ پاکستان کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے یا نیپال ، بھوٹان ،سری لنکا اور برما کی طرح باج گزاراورطفیلی ریاست کے طور پردیکھنا چاہتا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ کے برادرمسلم ممالک بھی اُسے بُحَیرَۂ عرب کی ایک طاقت کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں ۔اس کا مظاہرہ نریندر سنگھ مودی سعودی فرمانرواملک سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات اور دبئی میں شیخ محمد بن راشدالمکتوم کو اپنے پہلومیں بٹھاکر ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کے ذریعے کرچکا ہے،ایسا اعزاز کسی پاکستانی سربراہِ ریاست وحکومت کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔
ایران نے ماضی قریب کی تاریخ میں کبھی پاکستان کو ترجیحِ اول کے درجے میں نہیں رکھا ۔ صدام حسین کے دور میںعراق ایران جنگ ،بعد ازاں سعودی عرب ویمن کی جنگ اورتاحال شام ،عراق وافغانستان کی جاری خانہ جنگی کے پورے دور میں پاکستان کو ایران نے ہمیشہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھا ہے،باہمی اعتماد تو بہت دور کی بات ہے ۔سی پیک یعنی پاک چین اقتصادی شاہراہ کے منصوبے کے عملی آغاز کے بعدمتحدہ عرب امارات بھی پاکستان سے خوش نہیں ہیں ،اس لیے کہ گوادر پورٹ آگے چل کراگر بین الاقوامی تجارتی مرکز بنتی ہے تو دبئی اس سے یقینا متأثر ہوگا ،کیونکہ دنیا کو ایک متبادل تجارتی مرکز قریب ہی دستیاب ہوگااور پاکستان کے استحکام اور داخلی حالات پرامن ہونے کی صورت میں اس کے روشن امکانات موجود ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایران نے اپنی بندرگاہ چاہ بہار کو ہندوستان اورافغانستان کے اشتراک کے ساتھ ترقی دینے کا منصوبہ سی پیک کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے اور ہندوستان نے اس کے لیے ابتدائی طور پرپچاس کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا اعلان کیا ہے ۔اس طرح چین اور ہندوستان عالمی اقتصادی مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد صرف طالبان کا دور ایسا رہاہے کہ بھارت کا کابل اور افغانستان کی داخلی وخارجی سیاست سے اخراج ہوا ،ورنہ بقیہ تمام ادوار میں آج تک ہندوستان نے افغانستان میں دیدہ اور نادیدہ صورتوں میں بیٹھ کر پاکستان کو پریشان کیے رکھا ہے اور ہمارے وطنِ عزیز کے استحکام کے لیے خطرہ بنا رہا ہے ۔سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بظاہر پہلے کی طرح نظر نہیں آرہے ،اس کی خواہش ہے کہ پاکستان برسرِ عام میدان میں آکر اُس کی خارجی جنگ لڑے ،جب کہ پاکستان قومی اور بین الاقوامی مجبوریوں کی وجہ سے علی الاعلان ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔
ہندوستان نے پاک ہند ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میں اپنی ضرورت اور ایران سے دوستی کے باوجود سنجیدگی اختیار نہیںکی ، کیونکہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں ان کے کارخانوں کی چمنیاں اور گھروں کے چولہے بجھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ بین الاقوامی منصوبوں میں عالمی ضمانتیں بھی ہوتی ہیں ، لیکن یہ مقولہ تو ہر دور پر صادق آتا ہے کہ''محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ‘‘،یہی وجہ ہے کہ وہ اب بُحیرۂ عرب میں زیرِ آب فائبر پائپ لائن کے ذریعے گیس کی ترسیل کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو تاپی (ترکمانستان،افغانستان ،پاکستان اور انڈیاپر مشتمل )گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی سیاسی اختلافات یا حالتِ جنگ یا افغانستان میں خانہ جنگی اور بے امنی کے لمبے عرصے تک خدانخواستہ جاری رہنے کی صورت میں کس طرح قابلِ اعتماد قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ گیس اور توانائی ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ آئندہ کی ضرورت کے لیے پیش بندی کے طور پر ذخیرہ کرسکیں۔یہی بے اعتمادی تاجکستان اور پاکستان بجلی کی ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ اسٹیشن کے بارے میں رہے گی ،کیونکہ یہ ٹرانسمیشن لائن بھی افغانستان کے بعض علاقوں سے گزر کر آئے گی۔اگرچہ یہ منصوبے جن ممالک سے گزر کر آتے ہیں ،ان کو راہداری کی مد میں مُعتد بہ معاوضہ بھی ملتا ہے، لیکن پھر وہی مقولہ صادق آسکتا ہے کہ ''جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ‘‘۔
پاکستان جب سے امریکا کی غلامی میں داخل ہوا ہے ، پاکستان کے سامانِ حرب اورمالی ضروریات کابڑا انحصار امریکا پر رہا ہے ،کیونکہ آئی ایم ایف اورورلڈ بینک براہِ راست امریکا کے کنٹرول میں ہیں اور وہ بوقتِ ضرورت ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو بھی پابند کرسکتا ہے ۔ 1965کی جنگ کے بعد تو امریکا نے سامانِ حرب کے لیے فاضل پرزوںکی رسد بھی بند کردی تھی ۔ اس پرکسی صاحبِ نظر نے گلستانِ سعدی میں درج شیخ سعدی کے مندرجہ ذیل اشعار کی طنزیہ تشریح کی تھی : ؎
دوست مشمار آن کہ در نعمت زند
لاف یاری و برادر خواندگی
دوست آن دانم کہ گیرد دست دوست
در پریشان حالی و درماندگی
ترجمہ:''اُسے دوست نہ سمجھو کہ جو عیش وعشرت کے زمانے میں جان چھڑکنے اوربھائی چارگی کے دعوے کرتا ہو،میں (قابلِ اعتماد ) دوست اسے سمجھتا ہوں جو پریشاں حالی اور مصیبت کے وقت دوست کا ہاتھ پکڑے ‘‘۔انہوں نے کہا: ایک شخص کی اپنے دشمن کے ساتھ ہاتھا پائی ہورہی تھی کہ اس کے جگری دوست نے آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور دشمن نے اس کو مار مار کر بھرکس نکال دیا ۔اس نے دوست سے کہاکہ تمہیں تو میرا مددگار بننا چاہیے تھا،تم الٹا میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے مرواتے رہے۔اس نے جواب دیا کہ میں نے تو شیخ سعدی کے مشورے پر عمل کیا ہے کہ مصیبت کے وقت دوست کا ہاتھ پکڑ لو،سوجب میں نے آپ کو دشمن سے جنگ میں نبردآزما اور حالتِ مصیبت میں دیکھا تو حضرتِ شیخ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔پس امریکا بھی ہمارا ایسا ہی مخلص دوست ہے جوہر مصیبت کے وقت ہمارا ہاتھ پکڑ کر بے بس کردیتا ہے اور ہم حفیظ جالندھری کے اس شعر کا مصداق بن جاتے ہیں: ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
سو ہر موڑ پر جب بھی کسی نادیدہ سمت سے تیر آتا ہے اور پلٹ کر دیکھتے ہیں توامریکا سے ملاقات ہوجاتی ہے۔شاید ہم خودبحیثیتِ قوم خود اذیّتی کے آزار میں مبتلا ہیں کہ اس طوقِ غلامی کو کسی بھی طور پر اپنی گردن سے اتارنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،کیونکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اوربحیثیتِ قوم اپنے آپ پر یقین پیدا کرنا ہوتا ہے اور ہم اس نعمت سے محروم ہیں ۔ قوم کے جذبات کی ترجمانی کی آئینی وقانونی ذمے داری پارلیمنٹ اور وقت کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے اور وہ شروع سے آج تک اس معاملے میں جرأت مندانہ موقف اختیار نہیں کرسکے، علامہ اقبال نے سچ کہا تھا: ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں ،نہ زنجیریں
جو ہوذوقِ یقیں پیدا، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ماضی کے بعض حکمران جب زِچ ہوگئے ،تو آخری لمحات میں انہوں نے کفِ افسوس مَلا ،لیکن اس وقت ان کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا،جیساکہ سابق صدر جنرل ایوب خان نے آخری ایام میں Friends Not Masters کے نام سے اپنی سوانح لکھی ،لیکن اس وقت امریکا ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔اسی طرح جب جنرل پرویز مشرف کی افادیت ختم ہوگئی تو امریکا نے انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو سے معاہدے پر مجبور کیا ،این آر او تشکیل پایا اور وہ بقولِ خود اپنی کھال یعنی وردی اتارنے پر مجبور ہوگئے۔کونڈولیزارائس کی یادداشتیں طبع ہوچکی ہیں ۔
پس یہ حقائق تو نوشتۂ دیوار ہیں ،لیکن ہمارے سیاسی رہنمائوں کے پاس دیوار کے لکھے کو پڑھنے کی فرصت کہاں ہے ، ان کے تومشاغل ہی کچھ اور ہیں ۔ہم نے گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا پاکستان کے عالمی مسائل پر ایک بھی پالیسی بیان نہیں دیکھا اور نہ ہی اس بات کا کوئی تاثر ملا کہ ملک جن حالات سے دوچار ہے، ان کو اس کا ادراک ہے۔پس لازم ہے کہ قومی پالیسی مرتب کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا پسِ پردہ طویل اجلاس ہو اوراُس میںخارجہ امور کے مُثبت اورمنفی تمام پہلوئوں پر تفصیلی بحث کے بعد قومی اتفاق رائے پر مبنی پالیسی تشکیل دی جائے اور پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل ایک اسٹیرنگ کمیٹی بنے ،جو اس پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لیتی رہے اور سب اس کے نتائج کی ذمے داری قبول کریں،لیکن یہ تب ہوسکتا ہے کہ ہمیں داخلی مناقشوں اور الجھائو سے نجات ملے ۔ہمارا میڈیا بھی اپنے ناظرین کو اسکرین سے جوڑے رکھنے کے لیے داخلی مسائل پر ہی طوفان برپا کیے رہتا ہے۔ ہماری اس حالت زارپر علامہ اقبال کی وعید پیشِ خدمت ہے: ؎
وطن کی فکر کر ناداں ، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں ، آسمانوں میں
ذرادیکھ اس کو جوکچھ ہورہاہے، ہونے والا ہے
دھراکیا ہے بھلا ، عہدکہن کی داستانوںمیں
یہ خاموشی کہاںتک؟، لذت فریاد پیداکر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تومٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی ، داستانوںمیں
اس میں ذرا سا تصرف کر کے ہندوستاں کی جگہ پاکستاں پڑھ لیں۔ لطیفہ :ایک خاتون اپنے لخت جگر کوسفر پر روانہ کر تے وقت یہ دعا کر رہی تھی :یا اللہ!میرے عزیز کی اسی طرح حفاظت فرما ،جیسے تو نے ولی محمد کے فائر پروف پاسپورٹ کی حفاظت فرمائی ہے کہ امریکا کا راکٹ بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں