8اگست 2016ء کو جناب بلال کاسی صدر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کا قتل ہوا ،جب ان کی میت کو ہاسپیٹل لے گئے، لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے ،پھرخود کش حملے کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ،جن میں بڑی تعداد وکلا کی تھی ۔بلوچستان ہائی کورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ کے ایڈوو کیٹ جناب حامد خان نے استدعاکی کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج کی سربراہی میں سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیش رفت کی اور 6اکتوبر 2016ء کو سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے لیے جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل یک نفری انکوائری کمیشن قائم کیا۔ حکومتِ بلوچستان کی طرف سے ابتدا میں ایڈوکیٹ جنرل نے اس کی مخالفت کی ، لیکن بعد میں اپنے موقف پر زور نہیں دیا۔ کمیشن سے کہا گیا کہ وہ 17اکتوبر 2016ء سے 30دن کے اندرتحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے، کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ ابتدائی اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہو ںاور اُس کے بعد کسی بھی مقام پراجلاس منعقد کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ بھی ہدایت کی گئی کہ اس سانحے کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے جو بھی کارروائی یا تحقیقات کر رہے ہیں، یہ کمیشن اُن کے کام میں مُخِل نہیں ہوگا، وہ اپنا کام معمول کے مطابق جاری رکھیں۔ کمیشن کے کام کی طوالت کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان سے تحقیقات کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مقررہ مدت میں مزید ایک مہینے کی توسیع کی منظوری حاصل کی گئی اوربالآخر حتمی رپورٹ 14دسمبر 2016ء کو مکمل ہوئی اوریہ رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کردی گئی۔
اس رپورٹ کی اشاعت سے پہلے ہی وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان پاکستان پیپلز پارٹی کے نشانے پر تھے اوروہ ان کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے، اگرچہ پیپلز پارٹی کی ناراضی کے اصل اسباب اور تھے ،لیکن اس رپورٹ نے چنگاری کو شعلۂ جوّالہ بننے کا موقع فراہم کردیا۔اس مرحلے پر پیپلز پارٹی وتحریک انصاف منفی مقاصد کے لیے یک آواز ہوگئے ۔پیپلز پارٹی کا اصل ایجنڈا چوہدری نثار علی خان کو نشانہ بناناہے، سیاسی نظام کی بساط لپیٹنا یافوری انتخابات کا انعقاد نہیں ہے ، جب کہ پی ٹی آئی کا مقصد وزیرِ اعظم نواز شریف کا استعفیٰ یا معزولی ہے ،خواہ اس کی خاطر نظام کی بساط لپیٹ دی جائے،الغرض دونوں کا ایجنڈا جدا جدا ہے۔دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے دھوکا دے رہے ہیں، کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔انجامِ کار کس کے ہاتھ کیا آتا ہے ، یہ وقت بتائے گا ۔شیخ رشید صاحب نے اس مسئلے میں پی ٹی آئی کا ہمنوا بننے سے انکار کردیا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی سیاسی حِس جنابِ عمران خان کے مقابلے میں تیز ہے ۔
کمیشن کی رپورٹ کی آڑ میں دونوں جماعتوں نے جب وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان پر الفاظ کی چاند ماری شروع کی، تو انہیں بھی طیش آگیا اور بقولِ خود جارحانہ موڈ میں خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی اور اس رپورٹ کو نشانہ بنایا۔ ہماری نظر میں چوہدری نثار علی خان کا یہ اشتعال بلا جواز تھا،چوہدری صاحب حکومت کا ایک اہم عُضو ہیں اور ملک کی داخلی سلامتی کے لیے جواب دہ ہیں ۔اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں امن وامان صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے ، لیکن چونکہ نیکٹا ، ایف آئی اے اور نادراسمیت بعض اہم ادارے وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہیں، اس لیے وہ جواب دہی سے مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔
کمیشن نے نیکٹا کا مینڈیٹ بیان کیا ،جو بلا شبہ کثیر الجہات ہے، ایسے ادارے کو تو خود مختار ہونا چاہیے اور اِسے قومی سلامتی کا حصہ ہونا چاہیے ،اس ادارے کے ذمے ریسرچ بھی ہے اور حسّاس اداروں کی جانب سے انٹیلی جنس معلومات حاصل کر کے انہیں دیگر متعلقہ اداروں تک پہنچانا ہے ۔کمیشن نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ نیکٹا کے بورڈ آف گورنر زکاہر سہ ماہی میں اجلاس ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ اس ادارے کے لیے حکمتِ عملی اور سَمت کا تعیّن کرے ،اس کے فالو اَپ میں ادارے کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوناتھا تاکہ بورڈ آف گورنرز کے فیصلوں کے نفاذ کو یقینی بنایا جاسکے۔لیکن 31دسمبر 2014ء کے بعد بورڈ آف گورنرز کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ چوہدری صاحب نے اپنی برا ٔ ت پیش کردی کہ یہ اُن کافرضِ منصبی نہیں ہے ،لیکن بہرحال اُس کی بار بار یاد دہانی کرانا وزارتِ داخلہ کی ذمے ہے ۔کمیشن نے اخباری رپورٹوں کی روشنی میں وزیرِ داخلہ کے ساتھ بعض ممنوعہ جماعتوں کے قائدین کی ملاقات کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے ۔یہ درست ہے کہ کمیشن کی حرمت سپریم کورٹ کے بینچ کے برابر نہیں ہوتی اور اُسے توہینِ عدالت کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا ، خواہ اس کا سربراہ سپریم کورٹ کا جج ہی ہو، لیکن سپریم کورٹ کا جج بہر حال قابلِ احترام ہوتا ہے۔وزیرِ داخلہ نے کمیشن کو براہِ راست نشانے پر رکھ کر کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی ۔
کمیشن نے آئی ایس آئی اے پر بھی ایک پیرا گراف لکھا ہے کہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں یقینا اس ادارے کا بھی حصہ ہوگا ،لیکن اگر کوئی کسی دہشت گرد یا مشتبہ سرگرمی کے بارے میں اطلاع دینے یا معلومات فراہم کرنے کے لیے اس ادارے سے رابطہ کرنا چاہے ،تو ویب سائٹ یا کوئی اور ذریعہ دستیاب نہیں ہے ۔جب کہ امریکہ کے حساس اداروں سی آئی اے، ایف بی آئی ، یونائیڈ اسٹیٹ نیشنل سکیورٹی ایجنسی، برطانیہ کی ایم آئی فائیو، نیشنل کائونٹر ٹیررازم سکیورٹی آفس اور کائونٹر ٹیررازم کمانڈ کی ویب سائٹس ہر ایک کے لیے دستیاب ہیں ۔امریکہ میں دہشت گردی کے حوالے سے حساس معلومات کو یکجا کرنے اور متعلقہ اداروں کوفراہم کرنے کے لیے ہوم لینڈ سکیورٹی کا ادارہ قائم کیا گیا ہے ،یہاں پر نیکٹا کو یہ فریضہ انجام دینا ہوگا۔کمیشن نے قومی سلامتی کے مشیر جناب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو بھی انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ نیکٹا اُن کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔
کمیشن نے بعض اداروں اور افراد کی تحسین بھی کی ہے ،اِن میں پنجاب گورنمنٹ کی اسٹیٹ آف دا آرٹ''فرانزک لیبارٹری‘‘ہے ،اسی طرح دہشت گردی کے واقعات کے متاثرین کے لیے فوری زرِ اعانت کی ادائیگی کا فعّال انتظام ہے۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے ثابت کیا کہ وہ انتہائی پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل ہیں،انہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح اپنے مشن کے لیے وقف کر رکھا ہے،بلوچستان کو اُن کا انتہائی شکر گزار ہونا چاہیے۔انہوں نے ڈاکٹر شہلا سمیع کے کردار کو رول ماڈل قرار دیا،ایک شخص نے انتہائی ذہانت سے جوتوں کے ذریعے خود کش بمبار کو شناخت کرنے میں مدد دی،سانحے کے مقام سے آثار جمع کیے، حسّاس ادارے نے پولیس کی معاونت کی ، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات نے کمیشن کے مراسلے کا بروقت جواب دیا ،کمیشن نے ان سب کی تحسین کی۔
کمیشن نے ممنوعہ تنظیموں کے متبادل ناموں کے ساتھ فعال ہونے پر بجا طور پر سوال اٹھایا ہے،کیونکہ اس حوالے سے ریاست ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی حکمت عملی واضح نہیں ہے ۔ وزیرِ داخلہ نے کہا: مولانا لدھیانوی قومی انتخابات میں حصہ لیں ،الیکشن کمیشن آف پاکستان انہیںجائز امیدوارتسلیم کرے، اُن کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرے ، الیکشن کمیشن کی جانب سے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے پر ہائی کورٹ انہیں الیکشن کے لیے اہل قرار دے ،تو اُن سے ملاقات پرمحض انہیں ملامت کرنا ناقابلِ فہم ہے ،اسی طرح اُن کے بقول شہدا فائونڈیشن پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں فعال رہی ہے ، تو اب اُس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا شوروغوغا کس لیے ہے ۔یہ ایسا ہی ہے کہ پانچ سال تک وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی مسند اقتدار پر فائز رہی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمے کو انجام تک نہ پہنچاسکی ، تو اب اس حوالے سے جنابِ بلاول بھٹو کی بیان بازی کو نمبر گیم کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے،الغرض ہم سب تضادات کا مجموعہ ہیں ۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کمیشن نے انتہائی احساسِ ذمے داری اور عرق ریزی سے کام کیا ہے ، اگر ہماری سیاسی قیادت کو پاکستان کے امن وامان اورسلامتی میں دلچسپی ہے ،تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بے مقصد شوروغوغا برپا کرنے کی بجائے ایک با اختیار پارلیمانی کمیٹی بناکر ان سفارشات کو عملی شکل دینے کے لیے طریقۂ کار وضع کیا جائے اور اس حوالے سے مجوَّزہ کمیٹی ماہرین کی معاونت بھی حاصل کرے ، لیکن پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات ریاست کے دستیاب وسائل کے اندر قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل ہونی چاہییں ۔آپ نیکٹا کے مینڈیٹ کو دیکھیں تو یہ کاغذ کی حد تک انتہائی طاقت وَر ،کثیر الجہات اور کثیر الوسائل ادارہ دکھائی دے گا ،لیکن عملی میدان میں اُس کا عُشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔چوہدری نثار علی خان کی دیانت پر بادیُ النظر میں انگشت نمائی نہیں کی جارہی ،لیکن کسی شخص کا ذاتی کردار اداروں کی فعالیت کا متبادل نہیں بن سکتا ۔ وزیرِ داخلہ کا سب سے الگ تھلگ اور لا تعلق رہنے کاجو شِعار ہے ،یہ اُن کے منصب کے منافی ہے ، اُن کے ناقدین اورضرورت مندوں کے ساتھ ان کی ملاقات میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے ،انہیں پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مختلف طبقات کے ساتھ تعامُل اور رابطے کا کوئی سہل ذریعہ وضع کرنا ہوگا ،سب کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا اور جو شکایات قانون کے دائرے میں ناجائز ہیں ،ان کے لیے اِتمامِ حجت کرنا ہوگا ۔ دہشت گردوں،ممنوع و مشتَبہ تنظیموں کا ڈیٹااَپ ڈیٹ رکھنا نادرا کی ذمے داری ہے ۔
کمیشن نے نشاندہی کی ہے کہ ریاست دہشت گردی کی غیر معمولی قیمت ادا کر رہی ہے ۔انسانی جانوں کے نقصان کی توکوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی، لیکن فوت شدگان کے ورثااور زخمیوں کو زرِ اعانت کے طور پرقومی خزانے سے بھاری رقوم ادا کرنی پڑ رہی ہیں ، املاک کا نقصان اس سے الگ ہے ۔مبالغہ آمیز سہی ،لیکن ان نقصانات کا ایک تخمینہ ساڑھے بارہ کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ ریاست کو بھاری شرح پر قرض لینا پڑتا ہے ،انشورنس کا پریمیم غیر معمولی ہوتا ہے ،مختلف اداروں کے لیے مضبوط حفاظتی دیواریں تعمیر کی جارہی ہیں، بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں درآمد کرنی پڑ رہی ہیں ،بیرونی سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں ، سکیورٹی پر مامور عملے کے مصارف اس کے علاوہ ہیں ،الغرض قومی خزانے پر دہشت گردی کا مالی بوجھ بہت زیادہ ہے۔