اس رپورٹ کے بعض پہلوؤں پر گزشتہ کالم میں گفتگو ہوچکی ہے ،یہ رپورٹ انگریزی میں86صفحات پر مشتمل ہے،باقی کچھ ضمیمہ جات ہیں، اس لیے اس کے تمام پہلوئوں کا احاطہ ایک دو کالموں میں ممکن نہیں ہے ۔دراصل کمیشن نے اپنے آپ کو سانحہ کوئٹہ کی تحقیق تک محدود رکھنے کی بجائے دہشت گردی سے متعلق تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبۂ بلوچستان کا امن وامان تین اداروں کے سپرد ہے ،ایک پولیس کامحکمہ جو انسپکٹر جنرل پولیس کے ماتحت ہے، لیکن اس کی عمل داری صرف بلوچستان کے دس فیصد رقبے تک محدود ہے جواے زون کہلاتا ہے ،دوسرا محکمہ لیویز کا ہے،یہ ڈی سی کے ماتحت ہے ،یہ صوبے کا بی زون کہلاتا ہے ، جو صوبے کے تقریباً90فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ تیسرا محکمہ فرنٹیر کور ہے جو انسپکٹر جنرل ایف سی کے ماتحت ہے، آئی جی ایف سی میجر جنرل رینک کا آرمی آفیسر ہوتا ہے ۔ اس کا اصل کام بغاوت پر آمادہ گروپوں ،جن میں بلوچ لبریشن آرمی بھی شامل ہے ،کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور بغاوت کی سرکوبی کرنا ہے، ایف سی لیویز کے ساتھ بھی تعاون کرتی ہے ۔الغرض امن وامان کی ذمے دار تینوں ایجنسیوں کی رپورٹنگ لائن الگ ہے ،لہٰذا اس انتظامی مرکزیت کے فُقدان کا فائدہ قانون شکن عناصر کو ملتا ہے ،کمیشن نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بعض اوقات ایف سی یا لیویز پولیس کی مدد کوبروقت نہیں پہنچتیں۔ مزید یہ کہ بلوچستان کی مغربی سرحد کی مکمل نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے سرحد سے اندر آنے والے اور باہر جانے والے دہشت گردوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، کسٹم چیک پوسٹ سرحد سے فاصلے پرہے، اس لیے اسمگلنگ پربھی مکمل کنٹرول ممکن نہیں ہے۔
کمیشن نے قرار دیا کہ سانحے کے بارے میں صوبائی وزیرِ داخلہ ،پولیس سربراہ اور وزیرِ اعلیٰ کے بیانات متضاد تھے ۔صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ مجھے 99%یقین ہے کہ اس کے پیچھے ہندوستان کی ایجنسی ہے ۔وزیرِ اعلیٰ نے پہلے دعویٰ کیا کہ ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا ہے ،پھر کہا: سہولت کار پکڑا گیا ہے، پولیس کے ڈی آئی جی نے دونوں دعووں کی تردید کی اور پھر وزیرِ اعلیٰ یا اس کے ترجمان نے کمیشن کے سامنے آکر اپنے موقف کا دفاع نہیں کیا، لہٰذا ڈی آئی جی پولیس کا موقف ہی حتمی قرار پایا۔ کمیشن نے میڈیا کے کردار کو بھی منفی قرار دیا اور بتایا کہ دہشت گردپرنٹ والیکٹرانک میڈیا کو بڑی ہوشیاری سے اپنے مذموم مقاصد کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان رابطے کے فُقدان کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:
''ایف سی اپنے انسپکٹر جنرل کو رپورٹ کرتی ہے ،بعض اوقات ایف سی، لیوی اور پولیس میں رابطہ جیساکہ ہونا چاہیے ،نہیں ہوتا۔ ایف سی کا مقامی کمانڈر ڈی سی آفس میں میٹنگ میں شریک نہیں ہوتا، حالانکہ اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ بلحاظِ عہدہ ڈی سی ہوتا ہے ۔کمیشن نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ بلوچستان میں ایف سی کا کردار واضح نہیں ہے ۔ چیف سیکرٹری اور اسکائوٹس کے کمانڈر نے بتایا کہ ایف سی کے پاس پولیس کے اختیارات ہیں، جب کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے کہا کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات نہیں دیے گئے‘‘۔
کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کا بھی حوالہ دیا اور اس کے بیس نکات کو لفظ بہ لفظ نقل کیا ہے ،اس کی منظوری تمام جماعتوں نے دی تھی اور پھر اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسے بعض نے خوش دلی سے اور بعض نے بادلِ ناخواستہ منظور کیا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ''اگرچہ یہ دستاویز ایک منصوبے کی صورت میں واضح اور دو ٹوک ہے، لیکن ان بیس اہداف کے حصول کے لیے کوئی ''ٹائم لائن‘‘مقرر نہیں کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان میں یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ اس منصوبے کے مختلف اہداف ونکات کو نفاذ کے مرحلے تک پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے ۔ یہ امر بھی واضح نہیں ہے کہ اس پلان پر عملدر آمد کی نگرانی کون کرے گا اور اگرکسی کی طرف سے کوئی تقصیر ہوتی ہے، تو اس کی نشاندہی کون کرے گااور پلان پر عمل درآمد میںاس کی تلافی کے لیے فالواپ ایکشن کون لے گا؟‘‘۔
ان میں سے جو کام آسان تھا، اس پر جلد عمل درآمد شروع ہوگیا، یعنی خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام، موت کی سزائوں پر عمل در آمد اور نیکٹا کے ادارے کا قیام ۔ پوری معنویت کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے ،تو یہ ایکشن پلان کاغذپر تو نہایت جامع اور مؤثر نظر آئے گا، لیکن اس کو عمل کے سانچے میں ڈھال کر نتیجہ خیز بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔مثلا اس کی شق نمبر17میں ہے :''صوبے میں سیاسی مفاہمت کے لیے صوبائی حکومت کو مکمل با اختیار بنانا‘‘ اور اس عمل کو ریاست کے تمام عناصر یا ادارے جن کا مفاد وابستہ ہے،قبول کریں۔اس سے مراد یہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں اس کا کریڈٹ اور خدانخواستہ ناکامی کی صورت میں اس کی ذمے داری سب قبول کریں۔
جہاں پرداخلی امن وامان اور سلامتی کاجوابدہ ومختار ایک ادارہ نہ ہو، وہاں ذمے داری کس پر عائد ہوگی اور جوابدہی کس سے ہوگی ،یہ ایک اہم سوال ہے ،حالانکہ صوبۂ بلوچستان بین الاقوامی جاسوسی اداروں کی آماجگاہ بن چکا ہے اوررا کے نشانے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ انٹیلی جنس ناکامی کو نہ زیر بحث لایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی سے مسئولیت ہوتی ہے،پس مؤثر نتائج کے لیے رپورٹنگ اور مسئولیت کی مرکزیت ضروری ہے ۔
اسی طرح نیشنل ایکشن پلان کی ایک شق فاٹا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:'' داخلی طور پر بے گھر افراد کی بحالی کے ساتھ انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کرنا ‘‘۔فاٹا کی صورت حال تو بلوچستان سے بھی بدتر ہے اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن کے سبب یہ واضح نہیں ہے کہ اختیارات کا ارتکاز کہاں ہے، فیصلہ سازی کا مرکز اور اس کے نفاذ کا بارِ گراں کس کے سر ہے، کیونکہ فوج یہاںمسئلے کی سب سے اہم فریق ہے۔ اسی طرح افغان مہاجرین کے بارے میں جامع پالیسی بنانا اور ان کی رجسٹریشن کا اہتمام کرنا بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا، مگر یہ مسئلہ بھی بہت پیچیدہ ہے ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے سے ان کو قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیے جاتے رہے ہیں،افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد یورپ، امریکا، آسٹریلیااور کینیڈا وغیرہ میں مستقل طور پر وطَنیت اختیار کرچکی ہے،عرب ممالک میں اپنے کاروبار قائم کرچکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد پاکستان میں جائیدادیں لے کر مقامی معیشت کا حصہ بن چکی ہے ۔ ان کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، دفاع پاکستان محاذ ، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی کا موقف دوسری قومی سیاسی جماعتوں سے جدا ہے۔ ان کو جبراً افغانستان بھیجنا آسان بھی نہیں ہے اوراس سے فساد اور مناقشے کی ایک نئی صورت جنم لے سکتی ہے۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ دست بگریباں ہیں ،ایسے میں کسی جامع اورقابلِ عمل قومی حکمت عملی کا بنایا جانا ناقابل تصور ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ریاست وحکومت کوایڈہاک اِزم کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ افغانستان کا مسئلہ ہمارے لیے نہایت پیچیدہ بن چکا ہے، گویم مشکل و نہ گویم مشکل کی سی صورت حال ہے۔ ہم دونوں پڑوسی ملک ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرپاتے اور اس کے نتیجے میں را اور بھارت کو افغانستان میں نفوذ ہی نہیں،بلکہ پالیسیوں پر مسلط ہونے کا موقع ملتا ہے۔ایران کا مفاد بھی افغانستان سے کسی نہ کسی صورت میں وابستہ ہے۔
پس نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا کا منشور ایک نظریاتی شاہکار ضرور ہے ۔ ہم ادارے قائم کرتے وقت ہرچیز کا احاطہ کرتے ہیں، ایک ہی ادارے کے ذریعے منصوبے کی حد تک تمام مسائل کاحل چاہتے ہیں، خواب دیکھنا اور بات ہے، عمل کی دنیا میں تمام مراحل سر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے ۔جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اَہداف کاتعین تو کردیا گیا ہے ،لیکن ان کی جواب طلبی کس سے کی جائے گی ،یہ مسئلہ واضح نہیں ہے ۔
سابق وزیرِ اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا: ''اب مخلوط حکومتیں ہی بنیں گی‘‘۔اس وقت صرف پنجاب اور سندھ میں ایک جماعت کی حکومت ہے ،لیکن دونوں صوبوں میں الگ الگ پارٹیاں حکمران ہیں، وفاق ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہیں۔ صوبۂ سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں وفاق کے ساتھ تصادم کی کیفیت میں ہیں ۔صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے درمیان باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ ہونا چاہیے ،لیکن جب صوبائی وزیرِ اعلیٰ وفاق کو للکار رہا ہو تو وفاق اور صوبے کے درمیان باہمی احترام پر مبنی تعلقاتِ کار کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مناقشات اور تنازعات سیاستی جماعتوں کی قیادت نمٹائے اور وزرائے اعلیٰ وفاق کے ساتھ ایک سازگاراشتراکِ عمل کی فضا قائم کریں۔ برسرِ اقتدار جماعتیں اور حکومتیں الگ سہی، لیکن ملک ہم سب کا ہے ،ریاست کا مفاد اور ملک وقوم کی سلامتی کے امور پر سب کا اتفاق لازمی ہے۔ایک عرصے سے سی پیک پر اختلافات سامنے آرہے ہیں، لیکن وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے ایک ٹیلیویژن انٹرویو سے اندازہ ہوا کہ اس میں وفاقی حکومت بھی بعض امور کی پابند ہے۔ مثلاً چین کی حکومت مختلف مراحل کے ٹھیکوں کے لیے تین کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کرتی ہے ،انہی کے درمیان ٹینڈر ہوتا ہے اور بعض اوقات حکومت سب سے کم ریٹ دینے والی کمپنی سے مزید رعایت حاصل کرتی ہے۔ ان کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ پاکستانیوں کے لیے بھی روزگار کے مناسب مواقع نکالیںاور حتی الامکان مقامی میٹریل اور مشنری استعمال ہو۔ چین یقیناچاہے گا کہ روٹ سستاترین،مختصر ترین اور تیز ترین ہو، اسے یہ رقم آخر واپس بھی لینی ہے۔ہم اپنی اپنی پسند وناپسند ، ترجیحات اورمفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔کراچی میں جناب آصف علی زرداری کا استقبال ان کے قریبی افراد کے ہاں رینجرز کے چھاپے سے ہوا ہے،یہ محض ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے ،لیکن اس سے بدگمانی کے مواقع ضرور پیدا ہوتے ہیں۔