اسلام میں دو اصطلاحات ہیں: ایک ''مُدَاہَنَت‘‘ اور دوسری ''مُدَارَات‘‘۔ مُدَاہَنَت کے معنی ہیں:''کسی دنیاوی مفادکی خاطر دین کے معاملے میں رعایت دینا یا مفاہمت کرنا‘‘ اور مُدارات کے معنی ہیں: ''دینی مصلحت کی خاطر کسی کے ساتھ نرمی برتنا ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی دانائی مُدارات ہے،(مصنف ابن ابی شیبہ:25428)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے مُدَاہَنت کی ممانعت میں فرمایا: ''وہ (کفار) چاہتے ہیں کہ آپ (دین کے معاملے میں) اُن سے (بے جا) نرمی برتیں تاکہ وہ بھی آپ سے نرمی برتیں، (القلم:8)‘‘۔ لیکن قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ دین کے اصولوں پر مفاہمت نہیں ہو سکتی۔
عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کعبۃ اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ مکے کے سردار اَسود بن مطلب، ولید بن مغیرہ، امیّہ بن خَلف اور عاص بن وائل سہمی آپ کے سامنے آئے اور یہ پیشکش کی: (1) ہم آپ کو اتنا مال دے دیں گے کہ آپ مکے کے امیر ترین شخص بن جائیں گے (2) آپ جس حسین و جمیل عورت سے نکاح کرنا چاہیں، اُسے ہم آپ کے نکاح میں دے دیں گے۔ اس کے بدلے میں آپ ہمیں یہ رعایت دیں کہ آپ ہمارے خدائوں کو برا نہیں کہیں گے یا یہ کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ اِس ضمن میں مزید بھی روایات ہیں، جن کی رُو سے آپ کو بادشاہت کی بھی پیشکش کی گئی۔اِس پیشکش کو رَد کرنے کے لیے سورۂ ''الکافرون‘‘ نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ کہہ دیجیے: اے کافرو! میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم نے عبادت کی ہے اور نہ ہی تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے،(الکافرون:1-6)‘‘۔ پس دین کے اصل الاصول توحید پر مفاہمت نہیں ہوسکتی، غیر اللہ کی عبادت کسی بھی قیمت پر نہیں ہوسکتی اور ہم سب جانتے ہیں کہ بندگی محض چند رسمی عبادات کانام نہیں ہے، یہ تو دین کا ایک شعبہ ہے۔ درحقیقت عبادت کے معنی ہیں: اپنی زندگی کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبدیت کے سانچے میں ڈھال دینا، اس کا شِعار ومعیار قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامی میں موجود ہے۔ بندگی اپنی پسند و ناپسند کے معیار پر بعض چیزوں کو ترک کرنے اور بعض کو اختیار کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں داخل ہونے کے بعد اسے پوری طرح قبول کرنا لازمی ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، (البقرہ:208)۔ الغرض بندگی اللہ تعالیٰ کے حضور مکمل خود سپردگی کا نام ہے کہ بندے اور رب کی پسند و ناپسند اور رضا و نا رضا ایک ہوجائے اور وہ اس آیت کا مظہر بن جائے: ''اور میں اپنا ( ہر) معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوںکو خوب جاننے والا ہے،(المؤمن:44)۔
سیرتِ ابنِ ہشام میں ہے: '' جنابِ ابوطالب کفار کی یہ پیشکش لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا: اے چچا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں لاکر رکھ دیں کہ میں دعوتِ دین کو ترک کردوں، تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، میں اپنا مشن جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ اپنے دین کو غالب کردے یا میں اِس راہ میں شہادت پالوں۔ اِس موقع پر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور آپ روئے، (ج:1،ص:240)‘‘۔ کفارِ مکہ کے لیے یقیناً اس فرمائش کو پورا کرنا ناممکن تھا، لیکن آپ نے فرمایا: اگروہ یہ ناممکن بھی کردکھائیں تو دین پر پھر بھی مفاہمت نہیں ہوسکتی۔
علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''مُدَاہنَت ممنوع ہے اور مُدَارات مطلوب ہے۔ شریعت کی رُو سے مُدَاہَنت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص برائی کو دیکھے اور اُس کو روکنے پر قادر بھی ہو، لیکن برائی کرنے والے یا کسی اور کی جانب داری یا کسی خوف یا طمع کے سبب یا دینی بے حمیّتی کی وجہ سے اُس برائی کو نہ روکے۔ مُدَارات یہ ہے کہ اپنی جان یا مال یا عزت کے تحفظ کی خاطر اور متوقّع شر اور ضرر سے بچنے کے لیے خاموش رہے۔ الغرض کسی باطل کام میں بے دینوں کی حمایت کرنا مُدَاہَنَت ہے اور دین داروں کے حق کے تحفظ کی خاطر نرمی کرنا مُدَارَات ہے ،(مرقاۃ المفاتیح ،ج:9،ص:331)‘‘۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: ''دین کی حفاظت اور ظالموں کے ظلم سے بچنے کے لیے جو نرمی کی جائے، وہ مُدَارات ہے اور ذاتی منفعت، طلبِ دنیا اور لوگوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے دین کے معاملے میں جو نرمی کی جائے، وہ مُدَاہَنَت ہے،(اَشِعَّۃُ اللَّمعات،ج:4،ص:174)‘‘۔
حالیہ کرسمس کے موقع پر ایک اخبارنے Happy Christmasکہنے کے بارے میں مختلف مسالک کے علماء سے آراء طلب کیں، اُن میں سے بعض نے کسی وضاحت اور فرق کے بغیر اِسے حرام قرار دیا اور بعض نے کفر و شرک قرار دیا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ کفر و شرک کا فتویٰ صادر کرنے میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ دینی حکمت سے عاری فتویٰ پر بعض اوقات منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
Happy Christmas کے معنی ہیں:'' عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘‘۔ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے،اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جزنہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ،بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشور کا روزہ رکھ رہے ہیں ،آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟انہوں نے کہا: اِس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعونیوں کو غرق کردیاتھا، تو اُس کے شکرانے کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارا تعلق موسیٰ سے تمہارے مقابلے میں زیادہ ہے، سو آپ نے خود بھی یومِ عاشورکا روزہ رکھا اور اُس کا حکم بھی فرمایا،(سنن ابن ماجہ:1734)‘‘۔
دوسرے مقام پر ہے: جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھا اور اُس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا تو ہم اِن شاء اللہ نو محرم کو بھی روزہ رکھیں گے،(صحیح مسلم:2555)‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ''یومِ عاشور کا روزہ رکھو اور اِس میں یہود کی مخالفت کرو(اس مشابہت سے بچنے کے لیے) اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لیا کرو، (مسند احمد: 2154)‘‘۔ اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ جو کام اپنی اصل کے اعتبار سے پسندیدہ ہے، اُسے محض اہلِ کتاب کی مشابہت کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسی تدبیر کی جائے کہ وہ پسندیدہ عمل بھی ادا ہوجائے اور مشابہت سے بھی بچ جائیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اُن (یحییٰ علیہ السلام) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے (مریم:15)۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: ''اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت ، یومِ وفات اور قیامت کے دن اُن کے اٹھائے جانے کی نسبت سے اُن پر سلام بھیجا اور اِسی نسبت سے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر سلام بھیجا۔
علامہ جوزی لکھتے ہیں: ''حسن بصری نے بیان کیا: حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی ملاقات ہوئی، حضرت یحییٰ وعیسیٰ علیہما السلام نے ایک دوسرے سے کہا: ''آپ مجھ سے بہتر ہیں‘‘، پھر حضرت عیسیٰ نے کہا: بلکہ آپ مجھ سے بہتر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پرخود سلام بھیجا ہے اور میں نے خود اپنے اوپر سلام بھیجاہے (زاد المسیر ج:3،ص: 123)‘‘۔
بعض حضرات کاکہنا ہے کہ مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں، اگر ایسا بھی ہے، تو مسلمان کا مؤحِّد ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ اس طرح کے باطل نظریات سے پاک ہے۔ الغرض جائز حد تک مدارات کی رخصت دی جاسکتی ہے، البتہ مدارات کے نام پر ان کی عبادت گاہوں میں جاکر ان کی مذہبی رسوم میں شرکت کرنا بلاشبہ حرام ہے اور ان کے مذہبی شِعار کو اختیار کرنا بھی حرام ہے، اس میں کوئی اعتقادی یا عملی چیز اگر شرک وکفر پر مبنی ہے، تو شرک وکفرہے، ورنہ بر سبیل تنزل حرام ہے اور اس میں مدارات کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ یہ مداہنت ہے اور حرام ہے۔ جیسے مسیحیوں کی طرح صلیب لٹکانا یا ہندوئوں کی طرح زنار باندھنا وغیرہ۔ اسلام میں بھی عید کی مشروعیت تشکرِ نعمت باری تعالیٰ اور اجتماعی شِعار عبادت کے لیے ہے اور مسلمانوں کی حقیقی عید یہی ہے۔ ہم جو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں، یہ شِعار بھی سنت رسول سے ثابت نہیں ہے،لیکن یہ ایک مستحسن امر ہے، تو اسے ہم جائز قرار دیں گے۔