Blogکے معنی ہیں:''اپنے نظریات ،خیالات ،مشاہدات اور تجربات کو باقاعدہ انٹرنیٹ پر محفوظ کرنا تاکہ لوگ انہیں پڑھیں اور پھر اُن میں نئے اندراجات کرنا،کسی مسئلے پر واحد اندراج کوبھی کہتے ہیں ‘‘۔اسی کا اسمِ فاعل Bloggerہے ۔میں سادہ شخص ہوں ،فیس بک ،واٹس ایپ یا سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا ،ہمارے احباب بعض اہمیت کی چیزوں کے بارے میں بتادیتے ہیں ۔کئی احباب نے میرے نام سے فیس بک پیج بنا رکھے تھے ،میں نے اخبار کے ذریعے مطلع کیا کہ یہ ہم نے نہیں بنائے ، ان میں سے زیادہ تر خیر خواہ اور محبّین ہوتے ہیں اور کچھ بدخواہ ہوتے ہیں ۔ ہمارا آفیشل فیس بک اکائونٹ ، جس پر ہمارے کالم اور دوسری چیزیں آتی رہتی ہیں، اُن کو بھی میرے سیکرٹری آپریٹ کرتے ہیں ، میں براہِ راست استعمال نہیں کرتا ۔
میں گزشتہ کچھ عرصے سے بعض اخبارات میں''بلاگرز ‘‘پر شدید ردِّعمل دیکھ رہا ہوں ،یہ وہ لوگ ہیں جو ناموسِ رسالت مآب ﷺ ، شعائرِ دین اور دینی اقدار کو اپنے ابلیسی جذبات کے اظہار کے لیے تختۂ مشق بناتے ہیں ۔میرے لیے ایسی چیزوں کا پڑھنا یا سننا بھی دشوار ہے ، کیونکہ نہ دل ودماغ ان چیزوں کو سننے کی تاب رکھتے ہیں اور نہ ہی نگاہ میں یہ حوصلہ ہے کہ ان چیزوں کو دیکھ سکے۔ آئی ٹی کی وزارت کی ذمے داری ہے کہ ان بلاگرز کو فوری طور پر بلاک کریں اور ان کی شناخت کر کے انہیں عبرت ناک سزا دیں،اُن کی خاموشی مجرمانہ ہے ۔ہمارے ہاں Cybercrimeکا قانون بن چکا ہے ، لیکن ہماری روایت یہ ہے کہ قوانین محض دکھاوے کے لیے بنائے جاتے ہیں ،انہیںنافذ کرنے کا عزم اورحوصلہ نہیں ہوتا،بس وقت گزاری اور عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا یہ ایک حربہ ہے ۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دل ودماغ پر ماڈریٹ اور لبرل بننے کا خَبط سوار ہے تاکہ اہلِ مغرب اورلبرل حلقوں میں اُن کے لیے ایک درجۂ قبولیت پیدا ہوجائے ۔لبرل سے مرادایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرّم ﷺ کی محبت ، شعائرِ دین کی حرمت اور حبّ الوطنی ایسی اَقدار سے مادر پِدر آزاد ہوں اور اِن امور کوجب چاہیں نشانے پر رکھ دیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ، رسولِ مکرم ﷺ ،قرآنِ کریم کی ناموس اورشعائرِ دین کی حرمت مسلمانوں کے لیے انتہائی حسّاس مسئلہ ہے ۔
پہلے ایسی فضا پیدا کی جاتی ہے کہ مسلمان مشتعل ہوں اور پھر اُن پر انتہاپسندی ،نفرت انگیزی اور جذباتیت کی چھاپ لگادی جائے اور جی بھر کر ملامت کی جائے ۔کئی دنوں سے ان بدنصیب بلاگرز کا مسئلہ چل رہا ہے ،لیکن اِن لبرل حضرات نے اس پر نہ کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ۔اگر کسی حسّاس ادارے کے بارے میں کوئی اس طرح کی حرکت کر بیٹھے تو اُسے غائب کردیا جاتا ہے ،لیکن ناموسِ رسالت ﷺ ،جن پر ہمارے ماں باپ اور ہم سب کی جانیں قربان ہوں، کے حوالے سے اداروں کو بھی کسی کارروائی کی توفیق نہیں ہوتی ۔مذہبی انتہا پسندی کا رونا تو روز رویا جاتا ہے ،لیکن لبرل اور سیکولر انتہا پسندوں کے بارے میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا ،انہیں فتنہ انگیزی ، عصبیت اور انتہا پسندی کی کھلی اجازت ہے۔
پس ہماری گزارش ہے کہ قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آئیں اوراُن کے جذبات بے قابو ہوجائیں ، آئی ٹی کی وزارت کے حکام ،انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حسّاس مراکز فوری اِقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں ۔ہماری اعلیٰ عدلیہ آئے دن بعض معاملات پر از خود نوٹس لیتی رہتی ہے ، لیکن ان حسّاس امور پر اُن کا Suo Motoنوٹس کبھی علم میں نہیں آیا، کیا ہماری لائقِ صد احترام عدلیہ اور فاضل جج صاحبان کے نزدیک مقدّساتِ دین کی حرمت ان امور کے برابر بھی نہیں ، جن پر وہ آئے دن نوٹس لیتے رہتے ہیں ۔سو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس نثار ثاقب سے نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ وہ اس پر فوری نوٹس لیں اور اس فتنے کی ہمیشہ کے لیے سرکوبی کریں، شاید اس کی برکت سے اُن کی حُسنِ عاقبت کا سامان ہوجائے۔
مزید گزارش ہے کہ دینی اَقدار کو پامال کر کے سوشل میڈیا پر جو بین المسالک فتنے برپا کیے جارہے ہیں ، اُن کا بھی سَدِّ باب کیا جائے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اِن مذہبی جیالوں کے پاس اس شِعار کا دینی جواز کیا ہے ؟۔مقاصدِ شریعہ میں ایک ''سَدِّ ذرائع‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں : ایسی حکمتِ عملی اختیار کرناکہ کسی برائی کے دَر آنے کا امکان ہی ختم ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اور(اے مسلمانو!مشرکوں کے )اُن (باطل) معبودوں کو برا نہ کہو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں ،مبادا وہ بے علمی اور سرکشی کے سبب اللہ کی شان میں کوئی ناروا بات کہہ دیں،(الانعام:106)‘‘۔یہاں یہ اصول بتایا کہ مشرکوں کے باطل معبودوں کی اہانت سے ممانعت کا سبب یہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کی نظر میں قابلِ احترام ہیں ،بلکہ یہ ہے کہ کہیں وہ رَدِّعمل میں اللہ تعالیٰ کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ نہ کہہ دیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(۱) ''بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص اپنے والدین پر لعنت کرے ،صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کوئی شخص اپنے والدین پر کیوں لعنت کرے گا؟، آپ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے ، تو وہ (جواب میں ) اِس کے ماںباپ کو گالی دیتا ہے ،(بخاری:5973)‘‘۔
(۲)کبیرہ گناہوں میں سے کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے ،صحابہ نے عرض کی :یارسول اللہ!کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں !وہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے ،تو( رَدِّ عمل میں)وہ اِس کے باپ کو گالی دیتا ہے ، وہ اُس کی ماں کو گالی دیتا ہے ،تو وہ اِس کی ماں کو گالی دیتا ہے ،(مسلم:146)‘‘۔
ان احادیثِ مبارکہ میں یہ تعلیم دی گئی کہ اگر کسی نے اپنے ماں باپ کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے ،تو اُسے دوسرے کے ماں باپ کی اہانت ،گالی دینے یا اُن پر لَعن طَعن کرنے کے شِعار کو ترک کرنا ہوگا ،خواہ اُس کی نظر میں وہ کتنے ہی بے توقیر کیوں نہ ہوں ، کیونکہ رَدِّ عمل میں اِقدام کرنا انسان کی فطرت ہے اور اِس سے صرف پاک طینت لوگ ہی بچ سکتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر صدیق پر طعن کیا، نبی ﷺ اس پر تعجب فرمارہے تھے اور (دونوں اشخاص کے رویّے میں فرق پر )تبسم
فرمارہے تھے ،جب اُس کاطعن بہت زیادہ ہوگیا ،تو حضرت ابوبکر نے (عزیمت کو ترک کرتے ہوئے )اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا ، اس پر نبی ﷺ غضب ناک ہوئے اور اٹھ گئے، پھر حضرت ابوبکر آپ ﷺ سے ملے اور عرض کی: یارسول اللہ!آپ تشریف فرما تھے اور یہ شخص مجھ پر طعن کر رہا تھا، پھر جب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا ،تو آپ غضب ناک ہوگئے اور (مجلس سے )اٹھ گئے ،آپ ﷺ نے فرمایا: (ابوبکر!) تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہارا دفاع کر رہا تھا ، جب تم نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا، تو شیطان بیچ میں آگیا اور میں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا، (مسند احمد:9624)‘‘۔ قرآنِ مجید نے فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی متعدد صفات میں سے ایک یہ بیان فرمائی:''(کامیاب اہلِ ایمان وہ ہیں )جو بیہودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ،(المؤمنون:3)‘‘۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اُس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں :ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ،تمہیں سلام ہو ،ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے ،(القصص:55)‘‘۔اسی طرح سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کے اوصافِ حمیدہ کو یکجا کر کے بیان کیا ہے ،اُن کے منجملہ اوصاف میں سے ایک یہ وصف بیان فرمایا :''اور جب جاہل (یعنی ہٹ دھرم لوگ) اُن سے کج بحثی کرتے ہیں ،تو وہ کہتے ہیں: بس سلام ہو،(الفرقان:63)‘‘۔ان دونوں آیات میں سلام سے مراد سلامِ مُتارَکہ ومُقَاطَعہ ہے ،جسے ہمارے عرف میں Boycottیا لا تعلقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اسی طرح جب آدم علیہ السلام کے ایک فرزند قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ،تو انہوں نے جواب دیا: ''اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے میری طرف دست درازی کروگے تو میں (تم کو قتل کرنے کے لیے )تمہاری طرف دست درازی نہیں کروں گا، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے ، (المائدہ:28)‘‘۔ اگرچہ اسلام نے اصولی طور پربرائی کا بدلہ لینے کی رخصت دی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :''اور برائی کا بدلہ اُس جیسی برائی ہے‘‘۔مفسرین کرام نے لکھا: برائی کے بدلے کو صورتاً برائی سے تعبیر کیا گیا ہے ،ورنہ وہ قانونِ الٰہی کے مطابق بندے کا حق ہے ،مگر انہی کلمات کے بعد ارشاد فرمایا: ''پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے ، (الشوریٰ:40)‘‘۔یعنی ازروئے قرآن بدلہ لینے کی رخصت ہے اور یہ بندے کا استحقاق ہے ،لیکن عزیمت معاف کرنے میں ہے۔