عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ناموسِ رسالت ﷺ کے عنوان سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک پٹیشن کا تفصیلی فیصلہ لکھا ہے اور ہم بحیثیت مجموعی اس کی تحسین کرتے ہیں ۔اس کی شق نمبر24کے بعض مندرجات اگرچہ نہایت اطمینان بخش ہیں ، لیکن بصد ادب ہماری چند گزارشات ہیں۔قارئین کرام پہلے مذکورہ فیصلے کی شق نمبر24کو مِن وعَن پڑھ لیں:
''24(الف):چند نامور دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمان اپنے نبی حضرت محمدﷺکیلئے کٹ مرنے اور تختہ دار پر چڑھنے کے لئے کیوں تیار رہتے ہیں۔ مسلمان کو اللہ سُبحانہٗ تعالیٰ کا تعارف اور اس کی ہستی کے ہونے کی دلیل آپ ﷺنے دی، تو اللہ سُبحانہٗ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے ایمان و یقین پیدا ہوا۔ اسی طرح قرآن کریم، جو مختلف اوقات میں نبی مہربان ﷺکے قلب اطہر پر وحی کی صورت میں نازل ہوتا تھا اور آپ ﷺاس کی تلاوت فرما کر صحابہ کرام اجمعین کو سناتے تھے ، پر اللہ کا کلام ہونے کا یقین اور ایمان اس لئے پیدا ہوا کہ آپ ﷺنے گواہی دی کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ آج ہم قرآن کریم کو جس کتابی صورت میں دیکھتے ہیں، یہ ہر گز اس شکل میں نازل نہیں ہوا تھا۔ اس پہلو پہ غور کرنے سے عاقبت نا اندیش مُلحدوں اور کم ظرف دانشوروں کو جواب مل جانا چاہیے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی ہستی اور قرآن مجید کا الہامی کتاب ہونا نبی آخر الزماں ﷺکی گواہی کا ثمر ہے۔
(ب)ایسے ہی افراد پر مشتمل ایک مخصوص طبقہ کئی دہائیوں سے توہین رسالتﷺ کے قانون پر برانگیختہ ہے اورقانون پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ایک دلیل پیش کرتاہے کہ اس قانون کاغلط استعمال ہوتاہے، لہٰذا اس قانون کوختم کردینا چاہیے۔ یہاں قابل غور امریہ ہے کہ کیاکسی قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس کا صحیح استعمال بھی روک دیناچاہیے یاغلط استعمال کے اسباب کودورکرناچاہیے ؟ یقینا ایک عام فہم آدمی بھی یہی رائے قائم کرے گا کہ غلط استعمال کے اسباب دورہونے چاہئیں نہ کہ قانون ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک توہین رسالتﷺ کے جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں کسی بھی مسلم یاغیرمسلم کی سزائے موت پرعمل درآمد نہیں ہوا۔
(ج)پاکستانی معاشرہ کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ یہاں خاندانی دشمنیاں کئی نسلوں تک چلتی ہیں اورقتل اوربدلہ ایک عمومی کارروائی تصور ہوتی ہے اوراگر معاملہ قانونی کارروائی کی طرف جائے تو بے گناہ افرادکوبھی مقدمہ میں ملوث کرنالازمی شرط ہے۔ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے لیکن قانون کے اس غلط استعمال پرنہ کبھی کوئی نوحہ کناں ہوا اورنہ ہی معترض ،محض قانونِ توہین رسالتﷺ پر تنقید اور ہرزہ سرائی نیک نیتی کوظاہرنہیں کرتی۔ عدالت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بعض عناصر اپنے ذاتی مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اوراپنے مخالف کوعامتہ الناس کے غصے اورغضب کانشانہ بنوانے اورقانون کے شکنجے میں پھانسنے کیلئے توہین رسالتﷺ کاجھوٹا الزام بھی عائد کردیتے ہیں۔ اس سے ملزم اور اس کاخاندان نفرت کی علامت، لائقِ معاشرتی قطع تعلق اورقانونی کارروائی کے تحت واجب سزاتصور ہوتاہے، گو ایسے واقعات بہت ہی محدود تعداد میں ہیں، لیکن توہین رسالتﷺ کاجھوٹا الزام لگانا کسی جرم کی غلط اطلاع دینے اوردفعہ182مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت سزاوارعمل نہیں ہے، بلکہ یہ ازخودایک سنگین جرم ہے جوکہ الزام لگانے والا کسی بے گناہ فردسے توہین رسالتﷺ کے الفاظ، حرکات یاعمل منسوب کرکے، کم ازکم خوداس جرم کاارتکاب کرتاہے۔ اس لئے غلط استعمال روکنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ توہین رسالتﷺ کالگایاگیا الزام غلط ثابت ہونے پرالزام لگانے والے کو وہ سزادی جائے جوکہ توہین رسالتﷺ کے قانون کی صورت میں موجود ہے۔ اس لئے یہ معاملہ مقننہ کے پاس لیکر جاناضروری ہے تاکہ ضروری قانون سازی کی جاسکے‘‘۔
پیراگراف (ب )میں آپ نے پڑھ لیا کہ اس میں عاقبت نااندیش ملحدین اور کم ظرف دانشوروں کا ذکر کیا گیا ہے جو چاہتے ہیں کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے غلط استعمال کی آڑ میں اس قانون کو ختم کرادیں ۔پیراگراف(ج) میں جج صاحب غلط استعمال کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور آخر میں جو حل تجویز کرتے ہیں، اسے ''اس لیے غلط استعمال ‘‘سے لے کر آخر تک پڑھ لیں۔ اس حل سے ہمیں اختلاف ہے اور یہ رائے کوئی نئی نہیں ہے ،اسے قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کو بے اثر بنانیوالے دانشور اکثر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ اس رائے پر عملدرآمد کے بعد یہ قانون ''پاکستان پینل کوڈ ‘‘کی زینت تو بنا رہے گا،لیکن عملی نفاذ کے اعزاز سے محروم رہے گا۔اس کی مثال اس شیر کی سی ہوگی کہ جس کے دانت اور پنجوں کے ناخن جڑ سے نکال دیے جائیں ،تو پھر شیر اور بھیڑ میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آئین سمیت دیگر قوانین کا استعمال بالکل ٹھیک ہورہا ہے ،آئین کو منسوخ یامعطّل کیا جاتارہا، بے اثر بنایا گیا تو کیا اب ہمیں آئین کی ضرورت نہیں ہے ۔کیا آئے دن عدالتوں میں جھوٹی اور مشتبہ شہادتیں نہیں دی جاتیں ،کیا اِس کی پاداش میں اُن گواہوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ؟
فرض کیجیے : دوگواہوں نے عدالت میں گواہی دی کہ فلاں شخص نے ہمارے سامنے فلاں شخص کو قتل کیا ہے اور وہ گواہی جھوٹی ثابت ہوجاتی ہے ،تو کیا ان دونوں گواہوں کو سولی پر لٹکادیا جائے گا۔بار بارصرف قانونِ تحفظ ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے یہ اصول تجویز کیا جاتا ہے کہ اہانتِ رسول کے مرتکب شخص کے خلاف جس نے گواہی دی ہے ،اگر اس کی گواہی جھوٹی نکلتی ہے تو اسے اہانتِ رسول کی سزادے دی جائے۔ ہمارے دیہی معاشرے میں تو آئے دن ایسا ہوتا ہے کہ جس خاندان کا کوئی فرد قتل ہوا ہے ،وہ حقیقی قاتل کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کراتا ،بلکہ اس خاندان کے سب سے طاقتور اور با اثر شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کراتا ہے تاکہ پورا خاندان اپنے سرپرست سے محروم ہوجائے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ فرض کریں: قتل کی سچی چشم دید گواہی دینے والوں کی گواہی وکلا کی ماہرانہ جرح کے سبب عدالت کے معیار پر پوری نہ اتری ،پھر اُسے رد کردیا گیا اور مجرم چھوٹ گیا ،تو کیا اب ان سچے گواہوں کو محض عدالتی معیار پر گواہی کے قبول نہ ہونے پر سولی چڑھا دیا جائے گا۔خدارا!انصاف کیجیے!،ایسے لوگ ہم نے علماء کے بھیس میں بھی دیکھے ہیں ،جن کے نام یورو اور ڈالر جرمنی اور امریکہ کی ویب سائٹس پر موجود ہیں اورجو بظاہر بڑھ چڑھ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت تک کوئی جرأت نہیں کرسکتا کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کوکوئی تبدیل کرے، مگر جھوٹے الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہینِ رسالت کی ہے اور یہی بات جج صاحب نے لکھی ہے ،یہ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے ،کیونکہ یہ قانونِ تحفظ ناموس رسالت کو بے اثر بنانے کے مترادف ہے۔ایسے کسی مفروضۂ قانون کے ہوتے ہوئے کوئی اپنی کھلی آنکھوں سے رسالت مآبﷺ ، قرآنِ کریم اور شعائرِ دین کی توہین ہوتے ہوئے دیکھے، تب بھی ایف آئی آر درج کرانے اور عدالت میں گواہی دینے سے اجتناب کریگا کہ کہیں وکلاء کی حجت بازیوں کے سبب کل عدالت اسے ہی سزائے موت کا حقدار قرارنہ دے دے۔
اس کے لیے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ182پہلے سے موجود ہے، اس میں درج ہے:''ایسی صورت میں کہ ایک شخص نے جان بوجھ کر کسی کے خلاف غلط مقدمہ دائر کیا ہے ،اسے چھ ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔یہ جرم ''قابلِ دست اندازیٔ پولیس‘‘ نہیں ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس از خود دفعہ 182کا مقدمہ درج نہیں کرسکتی۔ عدالت کے سامنے پولیس یا کسی شخص کی شکایت کی صورت میں عدالت اس کا حکم دے گی‘‘۔کوئی ہمیں بتائے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تعزیراتِ پاکستان کی اس دفعہ کا اطلاق مختلف مقدمات میں گواہی دینے والے کتنے لوگوں پر کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ اس دفعہ میں ''جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے ‘‘کی کڑی شرط ہے ۔اگر اس دفعہ کا بھی اطلاق کرنا ہو تو پھر ملک بھر میں چلنے والے تمام مقدمات پر کرنا پڑے گا،مسلمان قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے بارے میں جانبدارانہ قانون کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔
قرآنِ کریم کی رُوسے صرف زناایساجرم ہے کہ کوئی کسی پر الزام لگائے یا عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور پھر چار چشم دید گواہوں سے وہ الزام ثابت نہ کرسکے، تو پھرالزام لگانے والے پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر (اس کے ثبوت کے لیے)چار (چشم دید) گواہ پیش نہ کرسکیں ،تو تم ان کو اسّی کوڑے مارو اور (آئندہ) ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اوراصلاح کرلیں، تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بے حد مہربان ہے، (النور:4-5)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کو ایک عام مسلمان کی ناموس اس قدر عزیز ہے کہ قطعی ثبوت کے بغیر تہمت زنا کی ممانعت ہے ، اس کا معیارِ ثبوت بھی دیگر تمام جرائم سے زیادہ ہے اور زناکی جھوٹی تہمت لگانے پر قرآن کریم میں اسّی کوڑوں کی حد مقرر ہے،جسے کوئی سربراہ حکومت بھی ساقط یا معاف نہیں کرسکتا۔یہاں تک کہ اس پر اجماع ہے کہ آیت نمبر5میں توبہ کی صورت میں جو استثناہے، وہ صرف حکم فسق سے برأ ت تک محدود ہے،پس اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے کے بعد اس سے رجوع بھی کرنا چاہے، تو پھر بھی اُسے اسّی کوڑے مارے جائیں گے ۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی،یہ مسئلہ آیتِ قذف اور سنن ابن ماجہ(حدیث :2366)سے ثابت ہے۔جب اسلام میں ایک عام مسلمان کی ناموس حُرمت کی حقدار ہے،تو اللہ تعالیٰ، رسول مکرم ﷺ ،قرآنِ کریم اور شعائر دین کی ناموس کی تقدیس کا آپ خودتصور کرسکتے ہیں۔