"MMC" (space) message & send to 7575

ہمارے رویے

ہمارا سیاسی کلچر بحیثیت ِ مجموعی سنگدلی ،خود غرضی ،مفاد پرستی اور دوسروں کے دکھ سے اپنا مفاد کشیدنے سے عبارت ہے، ہمارے رویّوں کی گہرائی میں کوئی اُتر کر دیکھے یا ہمارے باطن میں جھانکے ،تو انسانی تَرَحُّمْ اورانسانیت دوستی سے ہم کوسوں دور ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا سارا اثاثہ ٹیلی ویژن پر ٹِکر چلانے کے لیے دکھ سے کراہتے یا المناک موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے کسی شخص کے ساتھ ایک تصویربنانے یا ہمدردی کی اداکاری کرنے تک محدودہے۔حالیہ ایّام کے چند واقعات ہماری قیادت کے رویّوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ 
پی پی پی ،پی ٹی آئی ،پی اے ٹی ،جماعتِ اسلامی ودیگر جماعتوں کے رہنمائوں کے نزدیک ظلم صرف قصور میں ہوا ہے اور انصاف بھی وہیں کے لیے چاہیے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں قوم کی ایک جوان بچی کو بے لباس کر کے بازار میں گھمایا گیا ،اسی طرح مردان میں قصور جیسا المیہ رونما ہوا ،مگر وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان اور دیگر رہنمائوں کے لیے قابلِ توجہ نہیں ہے ،جنابِ خان اپنی ہردوسری تقریر یا انٹر ویو میں پختونخوا پولیس کے قصیدے پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں ،لیکن عملی نتائج کے اعتبار سے پختونخوا پولیس اور پنجاب پولیس میں کیا فرق ہے ۔ضلع مانسہرہ کی تحصیل اوگی میں ہمارے ایک ممتاز خطیب علامہ محمود شاہ کا قتل ہوا ،قتل کے الزام میں جو شخص پکڑا گیا ،وہ بھی ضمانت پر رہا ہوگیا اور پختونخوا پولیس کی کوئی کارکردگی ہمیں نظر نہ آئی ،جبکہ اس سانحے کوپورے تین سال بیت چکے ہیں ۔ جس طرح جناب سراج الحق دوڑے دوڑے قصور چلے آئے ،وہ مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان اسی کرّوفر کے ساتھ احتجاج کرنے کیوں نہیں گئے ، سوائے اس کے کہ وہ وہاں شریکِ اقتدارہیں،اور سبب کیا ہے؟ ۔
اسی طرح پی پی کی قیادت پنجاب کے واقعات کو انتہائی جوش وخروش کے ساتھ نمایاں کر رہی ہے ،لیکن سندھ اور کراچی میں اسی طرح کے رونما ہونے والے واقعات پر اُن کاکوئی احتجاج ریکارڈ پر نہیں ہے ،البتہ مسلم لیگ ن چونکہ ہر طرف سے دبائو میں ہے ، اس لیے اُن کے حریف جوابی یلغار سے محفوظ رہتے ہیں ۔پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی ساری بیٹیاں ہماری بیٹیاں نہیں ہیں، پاکستان کے سارے بچے اور جوان ہمارا قومی اثاثہ نہیں ہیں، ہر پاکستانی کا دکھ ہمارا دکھ نہیں ہے ،کیا پاکستانیوں کی دریافت شدہ یا گم شدہ لاشیں کسی اورکی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک دوسرے پر رحم کرنے ،ایک دوسرے سے محبت کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں تم مومنوں کو ایک جسم کی مانند دیکھو گے کہ جب ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوکر اُس کرب میں شریک ہوتا ہے،(بخاری:6011)‘‘۔ہمارے رویّوں کے تضادات کی چند مثالیں یہ ہیں:
''نواز شریف صاحب مظلوم بن کر یہ تاثّر دے رہے تھے کہ عدالتِ عظمیٰ نے اُن کے ساتھ انصاف نہیں کیا ‘‘ ،توشہباز شریف صاحب اور چوہدری نثار علی خاں کہہ رہے تھے کہ اداروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے ،اب اپنی باری آئی توجنابِ شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ میں چیئرمین نیب کے بارے میں حقائق بتائوں گا، چوہدری نثار علی خان ویسے تو کہتے رہے کہ عدلیہ اور فوج کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے ،لیکن خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ پر کمیشن کو نشانہ بنایا۔اسی طرح پی ٹی آئی ، جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی طعن کر رہے تھے کہ نواز شریف اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں، مگر اب کراچی میں نقیب اللہ قتل کیس میں جب سپریم کورٹ نے ازخود ایکشن لیا ،تو جنابِ بلاول بھٹو زرداری نے کہا: ''سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کے سوا باقی سارے کام کر رہی ہے‘‘،یعنی دوسرے اداروں اور حکومتوں کے کام میں مداخلت کر رہی ہے ، انہوں نے مزید کہا: ''قانون کے مطابق ''لاریفارمز کمیشن ‘‘ کا اجلاس سال میں چار بار ہونا چاہیے ،لیکن 2015سے ایک اجلاس بھی نہیں ہوا‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فرائضِ منصبی کی طرف تو توجہ نہیں دے رہی ،لیکن غیر متعلقہ امور میں بہت فعال دکھائی دے رہی ہے ۔عدلیہ کے بارے میں یہی رویّہ اپنی ترجیحات کے حوالے سے جنابِ عمران خان کا ہے۔پس جس کو کہیں سے ریلیف ملے تو وہ فیصلہ ٹھیک ہے اور جسے نہ ملے تو فیصلہ غلط ہے،دوسری جانب عدلیہ کا رویّہ بھی محلِّ نظر ہے۔ الغرض یہ سب تعبیرات حقائق پر نہیں ،بلکہ ذاتی یا گروہی مفادات کے تابع ہیں۔
اسی طرح بعض چینلز ،اینکرپرسنز اور این جی اوز قصور کے المیہ کی راکھ سے اپنا مطلب کشید کرنے بیٹھ گئے ہیں اور وہ یہ کہ ان المیوں کا سبب اسکولوں میں جنسی تعلیم کا نہ ہوناہے۔ شہزاد رائے اور این جی اوز کی دیگر بیگمات اس حوالے سے مہم چلارہے ہیں ،اُن کے لیے سنہری موقع ہاتھ آگیا ،بعض چینلز نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیااوروہ چینلز پر یہ تعلیم دینے بیٹھ گئے کہ قریبی رشتے داروں سے بچ کر رہو، یعنی اب اُن کا ہدف ہمارے مربوط خاندانی نظام کو شکست وریخت سے دوچار کرنا ہے ۔ جنابِ گلِ نوخیز اختر طنز ومزاح لکھتے ہیں،لیکن بعض اوقات حسّاس موضوعات کوبھی زیرِ بحث لاتے ہیں ۔ انہوں نے روزنامہ دنیا میں ''ماموں، چاچو‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اس سازش کا پردہ چاک کیا ہے۔ گویابعض لوگوں کو زینب سے غرض نہیں،بلکہ معاشرے کی کئی اور زینبوں کے ذہن سے رشتوں کے احترام کو نفرت سے بدلنا اوررِدائے حیا کو چھیننا ہے ۔ان سے کوئی پوچھے کہ امریکہ اور یورپ میں تو جنسی تعلیم دی جاتی ہے ،وہاں جنسی دست درازی اور آبرو ریزی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں۔جناب مبشر علی زیدی ایک اخبار میں ''سو لفظوں کی کہانی‘‘ لکھتے ہیں ، وہ اینکر پرسنز کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، ذرا یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ دونوں حضرات مُلّا نہیں ہیں، بلکہ اینٹی مُلّااور لبرل ہیں، لیکن پاکستانی ہیں اور پاکستانیوں کی خاندانی وحدت کوتار تار ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے،وہ لکھتے ہیں :''ڈاکٹر صاحب!آپ کے گلے میں اسٹیتھو سکوپ لٹکا ہے،میرے گڈو کے گلے میں جوتا لٹکا رہتا ہے،وہ اسے سینے سے لگا کر سوتا ہے،جاگتے میں کبھی کپڑا پھیرتا ہے، کبھی برش،کبھی پالش کرتا ہے،کبھی منہ سے چاٹتا ہے،میں اس کی یہ عادت کیسے چھڑوائوں؟، خاتون یہ بتاتے ہوئے روہانسی ہو گئیں۔میں نے تسلی دی،فکر نہ کریں،بچپن میں ایسی عادتیں پڑ جاتی ہیں،گڈو بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا۔خاتون چلا اٹھیں:ڈاکٹر صاحب!میرا گڈو بچہ نہیں ہے،وہ بڑا ہو چکا ہے اور ٹی وی شو کا میزبان ہے‘‘۔
مغرب نے عورت کو آزادی کا سَراب دکھایا اور اسے باور کرایا کہ اُسے خادمہ بناکر گھر میں قید کردیا گیا ہے ، وہ معاش میں شوہر یا باپ کی محتاج ہے ،اُسے آزاد ،خود کفیل اورخود مختار ہونا چاہیے ۔ گھر میں وہ باندی کی طرح کام میں جُتی رہتی ہے ، شوہر ، والد یا بھائی کے بستر پر چادر بچھاتی ہے ،گھر کی صفائی کرتی ہے ،کچن میں مصروف رہتی ہے ۔اس آزادی نے مغربی عورت کو کیا دیا :آج وہ ہوٹلوں میں اجنبی مردوں کے بستر سجارہی ہے ،ہوٹلوں میں پونچھا لگارہی ہے ،کچن اور ڈائننگ ہال میں کُک اور بیرے کا کام کر رہی ہے،سیلز گرل ہے، اُسے استقبالیہ پر مصنوعی مسکراہٹ طاری کر کے گاہکوں کا دل لبھانا ہے ۔وہ ائیرہوسٹس ہے ۔
ایک مرتبہ ہوائی سفر کے دوران ایک ائیر ہوسٹس میرے پاس آئیں اوردکھ بھرے انداز میں اپنے دکھڑے سنانے لگیں ،میں نے کہا:'' آپ لوگوں کو توپرکشش تنخواہ ملتی ہے ،چمک دمک ہے، آزادی ہے‘‘۔ اُنہوں نے کہا: مفتی صاحب! آپ کو ہمارے دکھوں کا پتا نہیں ، آپ ہمارے اندر کا کرب نہیں جانتے، ڈیوٹی پر آنے کے لیے ہمارے تین گھنٹے میک اَپ میں لگ جاتے ہیں، نوکری کے تقاضے پورے کرنے اور اجنبی مردوں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے ، ہمارے گھریلو دکھ اس سے سِوا ہیں‘‘۔ایک ائیر ہوسٹس نے مجھے بتایا :''میں والدین کی سب سے بڑی اولاد ہوں ،میں نے ملازمت کرکے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی، انہیں تعلیم دلائی ،اُن کی شادیاں ہوئیں ،وہ برسرِ روزگار ہوکر اپنے گھروںمیں آباد ہوگئے، میں نے ڈھلتی عمر میں سب سے آخر میں شادی کی ، میں نے مکان بھی والد کے نام پر بنایا۔اب میں والد سے کہتی ہوں :'' سب بہن بھائی اپنے گھروں میں خوش وخرم ہیں ،میری کمائی سے بنا ہوا یہ مکان میرے نام کردیجیے ، والد صاحب کہتے ہیں: یہ تو میں اپنے بیٹوں کو دوں گا‘‘۔سو یہ آزادی نسواں کی ایک مدھم سی تصویر ہے ۔
اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کا ایک وفد حکومتِ برطانیہ کی دعوت پر گیا ،اس کا مقصد وہاں کے اُن اداروں کا مطالعاتی دورہ تھا ،جہاں عصری اور دینی تعلیم کا امتزاج ہے ۔ایک ادھیڑ عمر خاتون کیئر ٹیکر تھیں ،وہ صبح سات بجے ہوٹل پہنچتیں، ہم سب اطمینان سے ناشتہ کر کے نکلتے، وہ گنتی کر کے کوچ میں بٹھاتیں ،سفر کے دوران وہ اونگھتی رہتیں،پھر شام کو گنتی کر کے ہمیں ہوٹل پہنچاتیں ، اس کے بعد بس یا ٹرین کے ذریعے اپنے گھر روانہ ہوتیں ،ہمیں نہیں معلوم کہ ڈیوٹی کے مقام تک آنے جانے میں اس کاکتنا وقت لگتا ہوگا،لیکن یاس اور محرومی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
سو ہمارا میڈیا انسانی اذیت کے ان واقعات کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے ، اپنا مطلب کشید کرتا ہے۔ فار ن فنڈڈاین جی اوز کا ایک جمِ غفیر ہے جو مغربی ایجنڈے کی تکمیل میںمگن ہے، اس کے لیے انہیں پرکشش معاوضہ ملتا ہے۔جب این جی اوز کے کارکن نوجوان لڑکے یا لڑکیاں کسی مسئلے پر رابطہ کرتے ہیں اورمیں معذرت کرتا ہوں،تو وہ ہربار تازہ دم ہوکر پھر رابطہ کرتے ہیں، میں اُن سے کہتا ہوں:'' جتنی کمٹمنٹ آپ لوگوں کی اپنے مشن سے ہے ،اگر اتنی کمٹمنٹ اپنے دین سے ہوجائے ،تو مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ ولی یا ولیہ بن جائو‘‘۔لیکن آخرت کی جزا عالَمِ غیب کی چیزہے ،جبکہ اس دنیا کی چمک نگاہوںکے سامنے ہے، اس لیے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں