مغربی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک میں خود کشی کا رحجان (Phenomenon)ہمیشہ ایک خاص تناسب کے ساتھ جاری رہاہے بلکہ چند سال قبل جاپان میںاجتماعی خود کشی کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں ۔ الحمد للہ اکادکا نادرالوقوع واقعات کے علاوہ عالم اسلام اس لعنت سے ہمیشہ محفوظ رہا ہے اور اس رحجان نے کبھی بھی ایک مستقل رویّے کی صورت اختیار نہیں کی ،لیکن بد قسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے خود کشی کے سانحات رونما ہوئے ہیں ، اس افسوسناک رحجان نے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اہل فکر ونظر نے اس مسئلے کی سنگینی پر توجہ دی ہے ۔ سطور ذیل میں ہم اس افسوسناک رجحان کے شرعی پہلو،سماجی ومعاشی محرکات وعوامل اور منفی اثرات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے اور ارباب حل وعقد اور اہل نظر کی توجہ کیلئے چند اہم گزارشات پیش کریں گے۔
اسلام میں خود کشی حرام ہے :
اسلام کی رو سے انسان اپنی جان کا مالک ومختار نہیں ہے ،انسان کی جان اور اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی عطا کی ہوئی ودیعت وامانت ہے ،انسان کو صرف اس جسم وجان کے تصرف واستعمال کا اختیار دیا ہے اوراس کے لیے شریعت نے حدود وقیود بھی مقرر فرمادی ہیں ،اس اختیاری تصرّف پر ہی جزا وسزا کامدار ہے ۔انسان چونکہ اپنے جسم وجاں کا مالک نہیں ہے، اس لئے اسے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنے ،کاٹ پھینکنے یا فروخت کرنے کا اختیار نہیں ہے ، یہ تمام افعال وتصرفات ممنوع اور حرام ہیں ،جان لینے اور تلف کرنے کا اختیار صرف اسی قادر مطلق اور خالق تبارک وتعالیٰ کا ہے جس نے یہ جان تخلیق فرمائی ہے ،وہ جب چاہے اپنی اس امانت کو واپس لے سکتا ہے ،کسی کو مجال انکار نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(1)''اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، (البقرہ:۱۹۵)‘‘۔(2)''اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بلاشبہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ،(النساء :۲۹)‘‘۔
خود کشی گناہ کبیرہ ہے :
اسلام میں خود کشی گناہ کبیرہ ہے اور اس کا مرتکب جہنم کا سزاوار ہوگا، دنیا میںتو وہ ایک مرتبہ اپنی جان تلف کرتا ہے ،لیکن اس کی سزا کے طورپر اسے طویل عرصے تک اور لاتعداد بار اس اذیت سے گزرنا پڑے گا،غور فرمائیے!اس کا انجام کتنا ہیبت ناک اور ہولناک ہے، حدیث پاک میں ہے :
(1)''حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا ،تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گااور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا ، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں )لڑھکتا چلا جائے گا،(صحیح مسلم:109)‘‘ ۔ (2)''حضرت جابرایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبی ﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ حضرت طفیل بن عمرو دَوسی اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی ، اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی ،سو وہ بیمار ہوگیااور فریاد کرنے لگا۔پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر )اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیا۔ پھر اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا۔ پھر اسے طفیل بن عَمرو نے اپنے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا ،اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا ہے ، طفیل نے اس سے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟، اس نے جواب دیا: نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا ۔پھر انہوں نے پوچھا: یہ آپ کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا میں کیا دیکھ رہا ہوں؟، اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے ،ہم ہرگز اسے درست نہیں کریں گے ، پس جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے، (صحیح مسلم:116)‘‘۔
غور فرمائیے ! وہ شخص تو صحابیٔ رسول تھا ،اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم ﷺ کی معیّت میں اُسے ہجرت کے شرف سے نوازا تھا، ہمیں یقین ہے کہ اس نے موت سے پہلے اپنی اس خطا پر صدقِ دل سے توبہ بھی کرلی ہوگی اور آپ ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ یقیناقبول فرمالی ہوگی ۔لیکن اس کے باوجود اس گناہ کبیرہ وقبیحہ کی علامت کے طور پر اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے تھے ، یعنی اپنی اصلی حالت پر صحیح سلامت نہیں تھے ،اس لئے انہوں نے اس عیب کو چھپانے کیلئے انہیں لپیٹ رکھا تھا ۔رسول اکرم ﷺ نے اس کے ہاتھوں کے قصور کی معافی کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور یقینا وہ دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی ہوگی ، لیکن آج کے دور میں انجامِ بد سے بچانے کا ایسا وسیلہ کسے نصیب ہوگا ۔
حیات نعمت ربانی اور موت اختیار خالق:
پس اسلام کی روسے حیات نعمت باری تعالیٰ اور موت اختیار خالق ہے ،یہ دونوں اموربندے کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :''اس نے موت اور حیات کوپیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کا عمل سب سے بہتر ہے (الملک:۲)‘‘۔ جو حیات کو پیدا کرنے والا ہے ، سلب کرنے کا حق بھی اسی کو حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے:''حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں :تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کے پہنچنے کے سبب موت کی تمنا نہ کرے ،پس اگر وہ ضرور ایسا کرنا ہی چاہتا ہے تو یہ کہے: اے اللہ!(تیرے علم کے مطابق ) جب تک میرے لیے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے وفات بہتر ہو تو مجھے وفات عطا کر،(صحیح البخاری:5671)‘‘۔
کون جانتا ہے کہ آنے والے زمانے میں کسی کے لیے اللہ کی قضا وقدر میں کون سی خیر مستور ہے ۔ چشم فلک نے بارہا لوگوں کے حالات کو تنگدستی سے فراخی میں ،مصیبت سے راحت میں ،مرض سے صحت میں ،ضعف سے قوت میں اور غلامی سے آزادی میں بدلتے ہوئے دیکھا ہے ۔یہ ہرگز فرض نہیںکرنا چاہیے کہ آنے والے کل کے دامن میں اس کے لئے امید کی کوئی کرن ،راحت کا کوئی لمحہ اور کامرانی کی کوئی نوید جانفزا نہیں ہے۔غیب کا علم فقط ذات باری تعالیٰ کو ہے ،لہٰذا اگرکوئی شخص زندگی کی تکالیف سے بہت زیادہ اکتا گیا ہے اوراسے اپنی کم ہمتی ،کوتاہ بینی اور بے بضاعتی کے سبب موت ہی کی دامن میں عافیت نظر آتی ہے ،وہ ناامید ی کی انتہاکو پہنچ گیا ہے ،تب بھی اسے مطلقاً موت کی دعاکرنے سے منع فرمایا گیا ہے، شریعت کا حکم یہی ہے کہ اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کو تفویض کرے، وہ بندے کے نفع ونقصان کو اس سے بہتر جانتا ہے ۔
قرآن وحدیث کے ان صریح ارشادات کی روشنی میں کوئی صاحبِ ایمان خود کشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ،یہ تو وہ کرے جسے یقین راسخ ہو کہ موت واقع ہونے کے ساتھ ہی فوزوفلاح اور راحت وسکون کی کوئی اعلیٰ منزل اس کی منتظر ہے ،لیکن احادیثِ مبارکہ سے جب یہ بات ثابت ہے کہ نارِجہنم کے شعلے اس کے منتظر ہیں ،تو اسے اس فعل قبیح کا سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔اس کے برعکس احادیث مبارکہ میں مصائب پر اجر کی بڑی بشارتیں ہیں،اس کی بابت چنداحادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:
(الف):''جب بندے کے لیے اللہ کی قضا وقدرمیں کوئی (بلند)مرتبہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اعمالِ صالحہ کے سبب اس رتبے کو نہیں پہنچ پاتاتو اللہ تعالیٰ جسم یا مال یا اولاد کے حوالے سے اسے کسی آزمائش میں مبتلا فرمادیتا ہے ، امام ابودائود فرماتے ہیں: ابن نفیل نے ان کلمات کا اضافہ کیا:'' پھر وہ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مرتبے کا مستحق ہوجاتا ہے جو اللہ کے ہاں اس کے لیے مقدر ہے ،(سنن ابودائود:3090)‘‘۔ (ب):''حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھائوں؟، عطا بن ابی رباح نے کہا: ضروردکھائیے،حضرت ابن عباس نے کہا:یہ وہ سیاہ فام عورت ہے جو نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی:مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے ،آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے ۔اس عورت نے عرض کی: میں صبر کروں گی ،اُس نے پھر یہ التجا کی: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے ،آپ بس اتنی دعا فرمادیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر قائم رہے، پس آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی،(صحیح البخاری:5652) ‘‘۔(ج): حضرت جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب قیامت کے دن (دنیا میں)مصیبتیں برداشت کرنے والے لوگوں کو (اُن کے صبر پر) ثواب عطا کیاجائے گا تو (دنیا میں)عافیت میں زندگی گزارنے والے اس وقت تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالیں کاٹ دی گئی ہوتیں (اور وہ آج اس کا اجر پاتے)، (سنن ترمذی:2402)‘‘۔(د)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: مسلمان کو جو بھی بیماری، تکلیف، حزن وملال، اذیت اور غم پہنچتا ہے(ان مصائب پر صبر کرنے )کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی خطائوں کو مٹا دیتا ہے، (صحیح البخاری:5641)‘‘۔