"MMC" (space) message & send to 7575

قیافہ شناسی…(حصہ دوم)

قیافہ شناسی کے عنوان سے گزشتہ کالم کو قارئین نے بہت پسند کیا اور فرمائش کی کہ اس پر کچھ اور لکھوں ،سو چند مثالیں مزید درج کی جاتی ہیں:1۔امام محمد بن یوسف صالحی لکھتے ہیں:
''اعلانِ نبوت سے پہلے نبی کریم ﷺ ایک تجارتی قافلے میں بُصریٰ کے مقام پر رکے ، وہاں بَحیرا نامی ایک راہب اپنی خانقاہ میں رہتا تھا، محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں :وہ نصرانیوں کا سب سے بڑا عالم تھا ، اس سے پہلے بھی قافلے وہاں رُکا کرتے تھے لیکن وہ راہب اُن پر کوئی توجہ نہ دیتا ۔لیکن اُس سال جب اس قافلے والے اُس کی خانقاہ کے قریب اترے ،تو اُس نے دیکھا کہ پورے قافلے میں صرف ایک شخص پر بادل سایا کیے ہوئے ہے ،پھر انہوں نے قریب ہی ایک درخت کے سائے میںپڑائو ڈالا ۔اس نے دیکھا کہ درخت کی شاخیں جھک کرایک شخص پر سایا کیے ہوئے ہیں ۔جب بَحیرا نے اپنی خانقاہ سے یہ منظر دیکھا تو آکر اُن سے گھل مل گیا، رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: یہ سَیِّدُالْعَالَمِیْن ہیں ،اللہ انہیں رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن بناکر بھیجے گا ،تو قریش کے بڑوں نے کہا: تم نے یہ کیسے جانا ،اس نے کہا: جب تم گھاٹی سے اتررہے تھے تومیں نے دیکھا: یہ جس شجریاحجر کے پاس سے گزرتے ،وہ ان کے لیے سجدہ ریز ہوجاتے ، شجروحجر صرف نبی کی تعظیم کے لیے جھکتے ہیں اور میں انہیں ختمِ نبوت کی مہر سے پہچانتا ہوں، جو دو شانوں کے درمیان سیب کی مانند ایک گھنڈی کی شکل میں ہے ،(سُبل الھدیٰ والرشاد، ج:2،ص:140)‘‘۔
2۔تین اشخاص سفر کر رہے تھے ،ایک کے پاس زادِ راہ پانچ روٹیاں اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں ، تیسرے شخص کے پاس کوئی روٹی نہیں تھی،تینوں نے مل کر وہ روٹیاں کھائیں۔ تیسرے شخص نے کھانے کے عوض اپنے دو ساتھیوں کو آٹھ درہم دیے۔پانچ روٹی والے نے پانچ درہم اپنے پاس رکھ لیے اور تین درہم تین روٹی والے کو دے دیے۔ تین روٹی والے نے کہا: آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، پھروہ فیصلہ کرانے کے لیے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے ۔ حضرت علی نے اس شخص سے کہا: تمہیں جو ملا ہے ، اس پر قناعت کرلو ، اگر انصاف ہوا تو تمہیں خسارہ ہوگا، اس نے کہا:آپ انصاف کیجیے!۔حضرت علی نے فرمایا: یہ تو ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ ،ہم فرض کرلیتے ہیں کہ تینوں نے برابر کھایا ،پس آٹھ روٹیوں کے تین تین حصے کریں تو کل چوبیس حصے بنتے ہیں اور گویا ہر ایک نے آٹھ آٹھ حصے کھائے اور تیسرے شخص نے اپنے حصے کے آٹھ درہم دیدیے۔آپ نے اس شخص سے کہا: تمہاری تین روٹیوں کے نو حصے بنتے ہیں اور دوسرے کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ، تم نے اپنے نو حصوں میں سے آٹھ حصے خود کھالیے اورتمہاری روٹیوں میں سے ایک حصہ تمہارے تیسرے ساتھی نے کھایا اور اس کے عوض تمہارا حق صرف ایک درہم بنتا ہے ۔
3۔عربی ادب کی مایہ ناز کتاب ''الکامل ‘‘کے مصنف ابوالعباس المبرّد لکھتے ہیں:
''بنوامیہ کا خلیفہ عبدالملک بن مروان انتہائی ذہین شخص تھا۔''اہلِ کتاب کے ایک قیافہ شناس نے عبدالملک بن مروان کو (لڑکپن میں)پرندوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو کہا: ابوالولید! اگر میں تمہیں کوئی خوشخبری دوں تو مجھے کیا انعام دو گے؟، عبدالملک نے کہا: جیسی خوشخبری ہوگی ،اسی کے حساب سے انعام ہوگا۔اس شخص نے کہا: اگر تم بادشاہ بن گئے تو مجھے کیا دو گے ؟۔ عبدالملک نے کہا: اگر میں تمہیں کوئی انعام دیدوں تو کیا وقت سے پہلے بادشاہ بن سکتا ہوں ، اس نے کہا: نہیں، پھر اس نے پوچھا: اگر میں تمہیں کوئی انعام نہ دوں تو کیا مقررہ وقت پر بادشاہت ملنے میں تاخیر ہوجائے گی ، اس نے کہا: نہیں۔ عبدالملک نے کہا: پھر اپنے کام سے کام رکھو، (الکامل للمُبرَّد، ج:3، ص:66)‘‘۔ یعنی جب تمہیں انعام دینے سے مجھے کوئی فائدہ نہ ملے اور نہ دینے سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے ،تو پھر میں تمہیں انعام کیوں دوں ۔
4۔علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی متوفّٰی 597ھ کی ''کتاب الاذکیائ‘‘ ہے ،اذکیاء کے معنی ہیں:'' The Intellegent People‘‘، اس میں انہوں نے ذہین لوگوںکے واقعات درج کیے ہیں:
عربی ادب کی مشہور کتاب ''البیان والتبیین ‘‘کے مصنف عمرو بن بحر متوفّٰی 255ھ(جو جاحظ کے نام سے مشہور ہیں)لکھتے ہیں: ''اِیاس نے حج کیا اور کتے کے بھونکنے کی آواز سنی ،انہوں نے کہا: یہ کتا بندھاہواہے ،(کچھ دیر بعد)پھر کتے کے بھونکنے کی آواز سنی تو کہا: اب کتے کو کھول دیا گیا ہے ،جب لوگ اس مقام پر گئے اور لوگوں سے کتے کی بابت پوچھاتو اِیاس کی بات درست نکلی ۔اِیاس سے پوچھا گیا : کتے کا پہلے بندھا ہونا اور پھر کھلا ہوناآپ کو کیسے معلوم ہوا ؟۔اس نے جواب دیا: اس کے بھونکنے سے ،جب وہ بندھا ہوا تھا تو اُس کی آواز ایک جگہ سے آرہی تھی ،پھر میں نے سنا کہ آواز کبھی قریب ہوجاتی اور کبھی دور،تو میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کتا اب آزاد ہے اور چلتے پھرتے بھونک رہا ہے ۔اِیاس ایک رات پانی پر گیا اور کہا:میں اجنبی کتے کی آواز سن رہا ہوں، اُس سے پوچھا گیا:آپ کو کیسے معلوم ہوا : اُس نے کہا: میں نے محسوس کیا کہ ایک کتا عاجزانہ انداز میں بھونک رہا ہے اور دوسرے کتے اس پر غضبناک انداز میں بھونک رہے ہیں ۔پھر جب لوگوں نے صورتِ حال معلوم کی تو پتا چلا کہ واقعی ایک اجنبی کتارحم طلب انداز میں بھونک رہاتھااور مقامی کتے اس پرغضبناک انداز میں بھونک رہے تھے، (اَلاَذکیائ، ص:65) ‘ ‘ ۔
5۔''ابن طولون نے ایک دن ایک حَمَّال (Loader)کو صندوق اٹھائے ہوئے دیکھا ،وہ اس کے نیچے پریشان محسوس ہورہا تھا۔ ابن طولون نے کہا: اگرپریشانی کا سبب بوجھ کی زیادتی ہوتی تو اس کی گردن دبی ہوتی ،جبکہ اس کی گردن اٹھی ہوئی ہے اور اس کے باوجود یہ پریشان ہے۔پس معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز وہ اٹھائے ہوئے ہے ،وہی اس کے خوف کا سبب ہے ۔اُس باربردار کو کہا گیا کہ صندوق اتار دو ،جب صندوق کھولا گیا توپتا چلا کہ اُس میں ایک مقتولہ لڑکی کی میّت ہے، جس کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیاہے۔اس سے کہاگیا کہ اصل صورتِ حال بتائو، اُس نے بتایا : فلاں گھر میں چار آدمی ہیں ،جنہوں نے مجھے دو سو اشرفیاں اجرت دی ہے تاکہ میں اس مقتولہ لڑکی کی میت کو اٹھاکر کہیں دور پھینک آئوں۔ ابن طولون نے اس باربردار کو دوسو کوڑے مارے اور اُن چاروں اشخاص کوقصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا، (اَلاَذکیائ، ص:57)‘‘۔
6۔'' ایک عورت ایک فقیہ کے پاس آئی اور کہا: میرے بھائی نے اپنی وفات کے وقت کچھ مال چھوڑا ہے اور وارثوں نے اس میں سے مجھے صرف ایک درہم دیاہے۔فقیہ نے چند لمحے غور کیا اور کہا: لگتا ہے تمہارے بھائی کے وارثوں میںایک بیوہ ،ایک ماں، دو بیٹیاں، بارہ بھائی اور ایک بہن ہے۔ اُس عورت نے تعجب کیا اور کہا :'' واقعی میرے فوت شدہ بھائی کے کل وُرَثاء یہی ہیں‘‘۔ پھر فقیہ نے کہا: تمہارا حق اتنا ہی بنتا ہے اور انہوں نے تم پر کوئی زیادتی نہیں کی ۔تمہارے بھائی کا ترکہ چھ سو درہم تھا، اُس میں سے ماں کا حصہ سو درہم یعنی چھٹا حصہ ، بیوہ کا حصہ پچھتر درہم یعنی آٹھواں حصہ ،دو بیٹیوں کا حصہ چار سو درہم (فی کس دو سو درہم)یعنی مجموعی طور پردو تہائی حصہ، باقی پچیس درہموں میں بارہ بھائیوں کا حصہ چوبیس درہم (فی کس دو دو درہم) اور تمہارا یعنی ایک بہن کا حصہ ایک درہم بنتا ہے‘‘۔ اب آپ اس فقیہ کی ذہانت کا اندازہ لگائیں کہ اس نے چند لمحے غور کر کے بتادیا کہ کل ترکہ کتنا ہے، کل وارث کتنے ہیں اور ہر ایک کا حصہ کتنا بنتا ہے اور فوت شدہ شخص کی بہن یعنی سائلہ کا حصہ کتنا بنتا ہے‘‘۔
7۔''ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طنز کیا: ابھی تمہارے نبی دفن بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم آپس میں جھگڑنے لگے ، یہاں تک کہ انصار نے کہا:''ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم(مہاجرین) میں سے‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآنِ کریم کی ایک آیت کا حوالہ دے کرانہیںالزامی جواب دیا :''اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار اتارا تو اُن کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوں کے سامنے آسن جمائے بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا معبود بنادیجیے ،جیسے ان کے معبود ہیں ، (الاعراف:138)‘‘۔یعنی فرعونیوں کے مظالم سے نجات پاتے بنی اسرائیل اپنی سرکش فطرت کی طرف لوٹ آئے۔
8۔بعض مجذوب جنہیں لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں، کبھی کبھی بڑی دانائی کی باتیں کرجاتے ہیں، ''کتاب الاذکیائ‘‘میں ''عُقَلَائُ الْمَجَانِیْن‘‘ یعنی عقلمند دیوانوں کی دانشو رانہ باتیں بھی نقل کی گئی ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے :
''کوفہ کے ایک امیر کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ، بیٹی کی پیدائش پر رنجیدہ ہوکر اس نے کھانا چھوڑ دیا ۔ اس اثناء میں بہلول دانا(جو مجذوب مشہورتھے) وہاں داخل ہوئے اورامیر سے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حسین بیٹی عطا کی ہے اور آپ اس پر غمگین ہیں ،اگر تمہارے ہاں اس کے بجائے مجھ جیسا کوئی دیوانہ بیٹا پیدا ہواہوتاتو کیاتم خوش ہوتے، یہ سن کر اس امیر کا غم دورہوگیا ‘‘۔سکندر لکھنوی مرحوم نے اپنی نعت میں ایک خوبصورت شعر لکھا ہے:
تیرے دربار میں کوئی غم زدہ آگیا، تشنہ کام آگیا
غم غلَط ہوگئے ،معصیت دُھل گئی ،مغفرت عافیت کا پیام آگیا
مفہوم:'' یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم!آپ کے دربار میں جب کوئی غم زدہ اور نامراد آتا ہے ،تو غم دور ہوجاتے ہیں ، توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے، معصیت کے داغ دھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بخشش اور عافیت کا پیغام آجاتا ہے‘‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں