معزول وزیرِ اعظم نواز شریف ‘اُن کی صاحبزادی اور داماد کو احتساب عدالت کی طرف سے سزا ہوئی ‘اس مقدمے کی تفصیلات ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ایسے واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنی اصلاح کی تدبیر کریں‘لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے اس پر جشن منایا اورمٹھائیاں بانٹیں ۔پس ہماری سیاسی تاریخ یہی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔جب 1977ء میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹومرحوم کو معزول کیا گیا اور پھر سزائے موت دے دی گئی‘ تو اُس وقت بھی کچھ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، پھر یہی مناظر ہم نے نوے کی دہائی میں کئی بار دیکھے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی شخصیت مجموعۂ اَضداد تھی ‘انہوں نے اپنے سوشلزم کے نعرے کے تحت کسی حکمتِ عملی ‘تدبیر اور تیاری کے بغیر بڑی صنعتیں ‘بینک اورانشورنس کمپنیاں قومی ملکیت میں لے لیں اور پھر بیوروکریسی نے ان اداروں کو تباہ وبرباد کردیا۔ملک میں صنعتی ترقی کا پہیہ رُک گیا ‘بلکہ رول بیک ہوگیا‘اپنے دورِ اقتدار کے آخر میں انہوں نے کپاس کی جِننگ کے کارخانے اور فلور ملیں بھی قومی ملکیت میں لے لیں۔اسی طرح تعلیمی ادارے بھی قومی ملکیت میں لے لیے گئے۔اس اقدام سے بعض خوش نصیب افراد کو ملازمتیں تومل گئیںاور یہ اچھی بات ہے‘ لیکن تعلیم کا معیار بھی تباہ وبرباد ہوگیا ‘ یہ اس کے منفی پہلو تھے۔کراچی میں تعلیمی نظام کے حوالے سے سکول‘ کالج سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک بربادی میں جو کسر رہ گئی تھی ‘وہ جناب الطاف حسین نے پوری کردی اور آج تک اس کی تلافی نہیں ہوسکی ۔ تباہی ایک لمحے میں بھی آسکتی ہے‘ لیکن تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے کئی عشرے چاہییں‘بشرطیکہ قیادت میں اس کے لیے اخلاص ‘ عزمِ صمیم اور بصیرت ہو‘ جبکہ دور دور تک اس کے آثار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ملک میں سب سے بڑی اور سب سے نفع بخش صنعت بن گئے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم مقبول عوامی لیڈر تھے‘ لیکن اُن کے اندر کے جاگیردار نے انہیں ناکامی سے دوچار کردیا ۔وہ کسی بھی صورت میںمخالفت برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے اور اُن کی اِسی روش نے اُن کے مخالفین میں اضافہ کردیا ۔سرمایہ دار اور صنعت کار تو پہلے ہی اُن کے مخالف ہوچکے تھے‘ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے بھی ناپسندیدہ قرار پائے۔
آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے کریڈٹ پر بعض بہت اچھے کام بھی ہیں ‘جن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا1973ء کا متفقہ دستور ‘ جس پر سردار خیر بخش مری کے سوا دستور ساز اسمبلی کے تمام ارکان کے دستخط ثبت ہیں اور بہت سی ترمیمات کے باوجود یہی دستور آج قوم کو جوڑے ہوئے ہے ‘ورنہ تشتت وتفریق اور انتشار کے موجودہ ماحول میں آج متفقہ دستور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اس دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہی کے دور میں ہماری پارلیمنٹ نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے اتفاقِ رائے سے عقیدۂ ختمِ نبوت کوآئینی تحفظ دیا ‘منکرینِ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے تمام گروہوں کو خارج از اسلام قرار دیا‘یہ ریاستی سطح پرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے بعد اسلامی تاریخ میں بہت بڑا کارنامہ ہے ۔لبرل عناصر ‘جن میں پیپلز پارٹی کے لبرلز بھی شامل ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اس اِقدام کے آج بھی ناقد ہیں ‘مگر ہمارے نزدیک آخرت میں اُن کا یہی کارنامہ شاید اُن کے لیے نجات کا باعث بن جائے۔ بلاشبہ اس کارنامے میں اُس وقت کی اسمبلی میں موجود علمائے کرام کا بہت بڑا کردار ہے ‘جو آج بھی اُن کے لیے سرمایۂ افتخار ہے ‘ لیکن چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت تھی ‘اس لیے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حمایت کے بغیر اس ترمیم کا پاس ہونا عملاً ممکن نہ تھا۔پیپلز پارٹی کے لبرل عناصر وقتاً فوقتاً گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے دبائو میں یہ کام کیا ‘یقینا ایسا ہی ہوگا‘لیکن قوم کا نباض وہی قائدہوتا ہے جو قوم کی امنگوں اورآدرش کو سنے ‘سمجھے اورقبول کرے۔ اگر سیاسی قائد میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو جمہوریت بے معنی اور بے فیض چیز بن کر رہ جاتی ہے ۔
انہوں نے اتوار کی ہفتہ وار تعطیل کو ختم کر کے جمعۃ المبارک کی تعطیل کو رائج کیا ‘جسے بعد میں نواز شریف صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں ختم کردیا اوراس پر دینی لوگوں کے احتجاج کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی ۔شاید اُن کی گرفت کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہو ۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان آج بہت سے قومی معاملات کو براہِ راست حل کر رہے ہیں ‘اُن سے گزارش ہے کہ اپنے منصبی اختیارات سے کام لے کر جمعۃ المبارک کی تعطیل کو بھی بحال کرادیں۔ اسی طرح ایٹمی پروگرام کا آغاز بھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا کارنامہ ہے ‘سو یہ اُن کے عہدِ اقتدار کے روشن پہلو ہیں ۔اسی طرح ایٹمی دھماکہ کرنے کا اعزاز نواز شریف صاحب کو ملا ‘ کوئی اتفاق کرے یا اختلاف‘ملک بھر میں موٹرویز کا جال بچھانے کا اعزاز بھی اُنہی کو حاصل ہے ۔
ہماری گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو جشن منانے کے بجائے کسی کے برے انجام کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہیے ‘سبق حاصل کرنا چاہیے ‘جشن منانا اور مٹھائیاں بانٹنا سنگ دلی اور کھلنڈرے پن کی علامت ہے ۔ ماضی میں جو ایسا کرتے چلے آئے ہیں ‘ انہیں بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔جن پرگزر رہی ہے ‘انہیں بھی صدقِ دل سے توبہ کرنی چاہیے اور اپنی تقصیرات اور خطائوں پراللہ تعالیٰ کے حضورمعافی مانگنی چاہیے ۔کسی سے فی الواقع کوئی غلطی ہوئی ہے ‘تو اُس کا جواز تلاش کرنے کے بجائے اُسے تسلیم کرکے اُس کا ازالہ کرنا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر وقت ہر مومن کے ذہن میں تازہ رہنا چاہیے:''اللہ کسی شخص پراُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘ہرشخص کے لیے اُس کے نیک عمل کی جزا ہے اور اُس کے برے عمل کی سزا ہے ‘(یہ دعا مانگو)اے ہمارے پروردگار!ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے تو ہماری گرفت نہ فرمانا‘اے ہمارے پروردگار! ہم پر (احکام کا) ایسا بوجھ نہ ڈال ‘جیسا تونے ہم سے پہلیلوگوں پر ڈالا‘ اے ہمارے پروردگار! ہم پر (آزمائشوں کا)ایسا بوجھ نہ ڈال جس سے عہدہ برآ ہونے کی ہم میں طاقت نہیں ‘ ہمیں معاف فرما ‘ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما ‘(البقرہ:286)‘‘۔ایک بار آپ ﷺ نے دورانِ جنگ یہ خطبہ ارشاد فرمایا: اے لوگو!دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو‘ پس جب تمہارا دشمن سے ٹکرائو ہوجائے تو صبر کرو‘(صحیح البخاری:2966)‘‘۔ ان تعلیمات کا تقاضا ہے کہ بندہ عَجز وانکسار کا پیکربن کر رہے ‘اللہ تعالیٰ سے اپنی خطائوں کی معافی مانگے ‘ابتلا وآزمائش کو از خود دعوت نہ دے ‘ورنہ اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے نفس کے سپرد فرمادیتا ہے ‘آپ ﷺبکثرت یہ دعا کیا کرتے تھے:''اے اللہ!میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں ‘مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرمااور میرے تمام احوال کی اصلاح فرما‘(ابودائود: 5090)‘‘۔
اس لیے آج جو سیاسی رہنما بلندیوں کی جانب محوِ پرواز ہیں ‘ اقتدار کی منزل انہیں قریب نظر آرہی ہے ‘ایک ایک پل بے قراری میں گزر رہا ہے ‘انہیں ہمارا مشورہ ہے کہ تکبرسے اجتناب کریں ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے لیے بھی تاریخ اپنے آپ کوایک بار پھر دہرائے اور وہ بھی اپنے معتوبین کی طرح نشانِ عبرت بنیں ۔کاش کہ ہم عبرت حاصل کریں ‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں ‘جن پریہ لوگ توجہ دیے بغیر گزر جاتے ہیں‘ (یوسف:105)‘‘۔ عارف محمد بخش نے کہا ہے: ''دشمن مَرے تے خوشی نہ کریے ‘ سجناں وی مرجاناں‘‘، لیکن ہم چھوٹے ظرف کے لوگ ہیں ‘ذرا سی کامیابی ملے تو ظرف چھلک جاتا ہے اورپھر بندہ تہی دامن ہوجاتا ہے۔ اقتدار ‘دولت ‘جمال اورعلم ایسی نعمتیں ہیں جو انعام بھی بن سکتی ہیں اور امتحان بھی ‘پس اگر ان میں سے کوئی نعمت نصیب ہو جائے تو دعا کرتے رہیںکہ اے اللہ! اس نعمت کوآزمائش نہ بنا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں سے سرخرو ہونا انبیائے کرام علیہم السلام اور اولوالعزم بندوں کی شان ہے‘ ہم عاجز اُن کی گَردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔