میں نے پہلے بھی ایک بار لکھا تھا اور آج پھر سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم یاد آرہے ہیں ۔1973ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کامتفقہ آئین منظور ہونے کے بعد جس وزیر اعظم نے پرسکون اور ہرقسم کے ذہنی تنائو سے آزاد ہوکر (Relaxed & Tension Free)حکومت کی ‘وہ جنابِ جونیجو ہی تھے ۔اُن سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں اگر کوئی رکن اسمبلی تحریکِ التوا ‘پوائنٹ آف آرڈر یاتوجہ دلائو نوٹس پیش کرتا ‘تو اسے اسمبلی سے باہر کردیا جاتا‘مگر جونیجو مرحوم کے دور میں ارکانِ اسمبلی کے لیے ہر شوق پورا کرنے کی آزادی تھی اور ان چیزوں سے نظام متزلزل نہیں ہوتا تھا۔جونیجو دور میں اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی کے بعد لاہور واپس آئیں تو اُن کابہت بڑا استقبال کیا گیا‘ یہاں تک کہ گورنر ہائوس کے سامنے سے گزرتے ہوئے محترمہ نے کہا: '' اگر ہم چاہیں تو ابھی گورنر ہائوس پر قبضہ کرسکتے ہیں‘‘لیکن اس سے کوئی زلزلہ نہیں آیا ‘نظامِ حکومت چلتا رہا ؛حالانکہ اس وقت چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق بدستور صدر تھے ۔جونیجو مرحوم نہ تو پرکشش شخصیت کے مالک تھے ‘نہ ہی مقبول عوامی مقرر تھے ‘ان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ بھی( ق) لیگ کی طرح سرکار کی سرپرستی میں تشکیل پائی تھی ‘ لیکن وہ ایک ٹھنڈے اور منکسر المزاج حوصلہ مند شخص تھے ۔
پس معلوم ہوا کہ حاکمِ وقت کو حوصلہ مند ‘ متحمل اور ٹھنڈے مزاج کا ہونا چاہیے ‘لیکن جب کم حوصلہ ‘تھُڑدلے اور بے صبرے لوگ کرسیِ اقتدار پر بیٹھ جائیں ‘تو ایسی ہی بوکھلاہٹ نظر آتی ہے ‘جیسے گزشتہ چند دنوں میں نظر آئی ۔ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر اپنے تجزیوں اورافلاطونی تبصروں سے آسمان کی بلندیوں کو سر کرنے والے بہت چھوٹے نظر آئے ۔اگر نواز شریف ائیر پورٹ آنے والے لوگوں سے خطاب کرلیتے ‘پھررائے ونڈ میں جاتی اُمرا میں جاکر اپنی بوڑھی ماں سے مل لیتے اور وہیں سے انہیں گرفتار کرلیا جاتا ‘تو وہ شور نہ مچتا‘ جو استقبال کو روکنے کے سبب مچا اور لگا کہ حکومت حواس باختہ ہے ۔اُس کے بعدزیادہ سے زیادہ ٹیلیویژن چینلز پر یہ بحث چھڑ جاتی کہ استقبال کامیاب تھا یا ناکام‘ عوام کی تعداد دس ہزار تھی یا لاکھوں میں اور پھر قصہ تمام ہوجاتا‘ لیکن حکومت کی بوکھلاہٹ نے نواز شریف کے مقصد کو پورا کردیا اوراُن کے آنے پر ہلچل مچ گئی۔ یہ سن کر ہنسی آئی کہ مسلم لیگ( ن) نے ریلی کی اجازت نہیں لی۔کیا 2011ء سے 2018ء تک جو دھرنے ہوئے ‘ان سب کے پاس حکومت کے اجازت نامے تھے؟‘آئے دن احتجاجی ریلیاں نکلتی ہیں ‘کیا وہ اجازت نامہ لے کر نکلتی ہیں ۔جب سارا نظام ایک شخص کو گرفتار کرنے کی طرف متوجہ ہوجائے گا‘ تو دہشت گردوں کو ضرور موقع ملے گا ‘ جس کے مظاہر ہمیں گزشتہ ہفتے نظر آئے‘ ہماری ترجیحات اور قبلۂ توجہات بدل سکتا ہے ‘لیکن دہشت گرد اپنے مشن میں یکسو رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی حملہ کرتے ہیں ۔ہم فرض کرلیتے ہیں کہ وہ کچل دیے گئے ہیں ‘لیکن اچانک وہ سر اٹھاکر اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں ‘ ہمیں بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہئیں‘ کیونکہ ہم ابھی بھی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
ہمارے میڈیا کی اخلاقیات اور علمی معیار کا جواب نہیں ہے ‘ٹکر چل رہے ہوتے ہیں :نااہل وزیر اعظم لاہور سے اسلام آباد یا اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوگئے ‘گویا ملک میں وزیر اعظم دو ہوتے ہیں: ایک ''اہل وزیر اعظم ‘‘اور ایک'' نا اہل وزیر اعظم‘‘‘ جب کوئی شخص وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے نا اہل ہوگیا تو اب وہ وزیر اعظم نہیں رہا؛ البتہ معزول وزیر اعظم یا سابق وزیراعظم لکھا جاسکتا ہے ‘ جیسے انگریزی میں Ousted Prime Ministerلکھا جاتا ہے‘اسی طرح مجرم کا سابقہ لگانے کی مستقل ضرورت کوئی نہیں ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا مقدمہ چل رہا تھا تو ہائی کورٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے پی ٹی وی روزانہ ان کا نام بڑے ملزم کے سابقے کے ساتھ لیتا تھا‘پھر وہ مجرم قرار پائے‘ لیکن آج عام لوگوں کو اُن عالی مرتبت منصفوں کے نام تک یاد نہیں ہیں‘ مگر بھٹو کا نام سب کو یاد ہے ۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ کسی کو ابتلا میں دیکھیں ‘تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگیں ۔ ابتلا وآزمائش کے اسباب زمینی بھی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے فیصلے بھی ہوتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ اپنی بلندیِ درجات اور تعلیم ِ امت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتے تھے: ''اے اللہ!میں تیری ناراضی سے بچ کر تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اورتیری سزا سے بچ کر تیری عافیت کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری گرفت سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں‘ (صحیح مسلم:486)‘‘۔(۲)''اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اورتیری عافیت سے محروم ہوجانے سے تیری پناہ چاہتا ہوںاوراس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اچانک تیری سزا کا نشانہ بنوں ‘ (صحیح مسلم:2739)‘‘۔
جنابِ عمران خان کا اضطراب اور بے قراری دیدنی ہے‘ روزانہ کئی ٹی وی چینل ‘ کالم نگار اور تجزیہ کار انہیں وزارتِ عظمیٰ کی بشارت سناتے ہیں ‘ لیکن اُن کا ظرف چھلک رہا ہے ۔ایک مُدبّر رہنمامیںجو متانت اوروقار ہونا چاہیے ‘وہ انہیں چھوکر بھی نہیں گزرا۔ ایک ذمے دارقومی رہنما کو یہ لب ولہجہ زیب نہیں دیتا کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ جانے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں ‘جو اُن کو لینے جائیں گے ‘وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں ۔آپ نے صرف اپنی پارٹی کا نہیں ‘پوری قوم کا وزیر اعظم بننا ہے‘ منتخب ہونے کی صورت میں آپ کوسب کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔اُدھر رانا ثناء اللہ کی ہَفَوات بھی ختم ہونے کو نہیں آرہیں ‘سیاسی وابستگیوں کو دینی مقدّسات سے تشبیہ دینا یا اُن سے برتر قرار دینا انتہائی درجے کی بدنصیبی اور محرومی ہے۔خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ ان کی جماعت میں صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری انتہائی متین ‘باوقار ‘ذی علم ‘متقی اور متحمل مزاج شخص ہیں ‘وہ باعمل پیر بھی ہیں ‘ فرصت ملے تو اُن کی مجلس اختیار کیا کریں‘ اچھے لوگوں کی صحبت بابرکت ہوتی ہے‘ اس سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔
ڈمپ ٹرمپ:امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ''پہلے تولو ‘پھر بولو‘‘ کے قائل نہیں ‘ بلکہ پہلے بولتے ہیں ‘پھر تولتے ہیں ‘نتیجہ ان کے حصے میں شرمندگی آتی ہے ‘ اگرچہ وہShameproofہیں۔ وہ برطانیہ کے دورے پر ہیں‘ اسے میڈیا نے سرکاری دورہ قرار نہیں دیا ‘بلکہ ورکنگ وزٹ قرار دیا ہے ‘ٹرمپ نے ''The Sun‘‘اخبار کے رُوپَرٹ مَرداک کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ٹرسامے کے بارے میں توہین آمیزانداز میں کہا: ''مے نے بریگزٹ پر میرے مشورے کو نہیں مانا‘‘۔انہوں نے ٹرسامے کی کابینہ سے اُن کی بریگزٹ ڈیل پر بطورِ احتجاج مستعفی ہونے والے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کے بارے میں کہا: ''وہ عظیم وزیر اعظم ثابت ہونگے‘‘انہوں نے مزید کہا: ''یہ ڈیل وہ نہیں‘ جس کے لیے برطانیہ کے عوام نے ووٹ دیا تھا‘‘۔ اس پرامریکی ٹی وی چینل سی این این نے خوب تماشالگایا اور لوگوں نے جی بھر کر ٹرمپ کو کوسا۔بعد میں ٹرمپ کو احساس ہوا اور مے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے معذرت کی ۔رُوپَرٹ مَرداک کی رپورٹ کو جعلی قرار دیا اور مے کے بارے میں چند تعریفی کلمات کہے کہ وہ زبردست مذاکرات کارہیں ‘مگر مے کو جو نقصان پہنچنا تھا ‘وہ پہنچ چکا تھا اور اب ٹرمپ کی طرف سے اس کی تلافی محض اشک شوئی کے مترادف تھی۔وزیر اعظم ٹرسامے مشکل میں ہیں ‘کیونکہ ان کی ''بریگزٹ ڈیل‘‘ کا جو خاکہ سامنے آیا ہے ‘اُس پر احتجاج کرتے ہوئے‘ اُن کی کابینہ کے تین وزرا مستعفی ہوچکے ہیں۔
ٹرمپ کے دورے کے دوران جمعے کے دن سینٹرل لندن میں ان کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی گئی ‘مظاہرین نے جو پلے کارڈ اٹھارکھے تھے‘ ان پر لکھا تھا: ''ہم ٹرمپ کو خوش آمدید نہیں کہتے ‘‘ ''ڈمپ ٹرمپ‘‘وغیرہ۔Dumpکے مِن جُملہ معانی میں سے ایک ہے:''کچرے کو ٹھکانے لگانا‘‘۔ لندن آنے سے پہلے ٹرمپ نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی ‘یہ اجلاس بھی کوئی زیادہ خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا‘ جرمن چانسلر انجیلا مرکل اُن کے لیے آئرن لیڈی ثابت ہوئیں ۔ٹرمپ نے کہا:''نیٹو اتحادیوں نے دفاع میں اپنا حصہ جی ڈی پی کے چار فیصد تک کرنے کا وعدہ کیا ہے ‘لیکن نیٹو کے سکریٹری جنرل جین اسٹوٹل برگ نے اس کی توثیق نہیں کی‘‘ اور فرانسیسی صدر ایمونول مکغا ں نے کہا: '' ہم نے صرف دو فیصد کے سابق وعدے کو پورا کرنے کا عہد کیا ہے ‘‘۔ الغرض اگرچہ نیٹو امریکہ کے تابع ہے ‘لیکن جب سے ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدات سے یک طرفہ انحراف شروع کیا ہے ‘ نیٹو اتحادی پہلے کی طرح تابع مُہمَل نہیں رہے ‘ بلکہ کسی حد تک اس پر احتجاج کرتے ہیں ۔پس اختلافی امور میں ایران کا جوہری معاہدہ ‘عالمی تجارتی معاہدہ اورماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے شامل ہیں۔اس میںیہ پیغام مستور ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھورہا ہے۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے روس کے ساتھ آٹھ سو میل طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا جو معاہدہ کر رکھا ہے ‘اس پر ٹرمپ سخت ناراض ہیں ‘ کیونکہ ان کاخیال ہے کہ اس کے نتیجے میں جرمنی کا انحصار روس پر بڑھ جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ہر ملک کے لیے اس کا اپنا قومی مفاد مقدم ہوتا ہے۔(نوٹ: یہ کالم ہفتہ 14جولائی کو لکھا گیا)۔