اس سال 25صفر المظفر کو امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کا صدسالہ عرس منایا جا رہا ہے ‘ اس کی مناسبت سے میں اپنی فہم اور علمی بساط کے مطابق فکرِ رضا کے چند گوشے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بد قسمتی سے اہلسنت نے چند شعائر اور ظاہری علامات کو عملاً واجب کا درجہ دے رکھا ہے اور فرائض و واجبات اور سُنن کو حسب ِ مراتب اہمیت نہیں دی جارہی‘ اس کے نتیجے میں بے عملی اور بے حسی فروغ پار ہی ہے اور مسلک کو حَظّ و سرور کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے‘ نعت خواں و قوال مذہب کے ہیرو اور سٹار قرار پائے ہیں ۔ اس حکمتِ عملی کے سبب دین کی ترجیحات پسِ منظر میں چلی گئی ہیں ۔ پاکستان سے لے کریورپ ‘کنیڈا اور امریکہ تک ان مجالس کے لیے پروموٹر افراد اور ادارے وجود میں آ گئے ہیں ۔ برطانیہ میں آرٹ اینڈ کلچرکے لائسنس یافتہ لوگ نعت خوانوں کو بھی سپانسر کرتے ہیں‘گویا یہ آرٹ کا شعبہ بن گیا ہے۔کاش کہ ان لوگوں نے فتاویٰ رضویہ ہی کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں دین کی ترجیحات کا علم ہوتا ۔ آج سے کم و بیش ایک سو دس سال قبل امام احمد رضا اہلسنت کی بے حسی اور دینی ترجیحات کی معکوس ترتیب کو دیکھ کر تڑپ اٹھے اور لکھا:
مرا سو زیست اند ردل ‘ اگر گویم زباں سو زد
وگر دَم دَر کش‘ تَرسم کہ مغزِ استخواں سو زد
ترجمہ:دین و مسلک کے بارے میں اپنے لوگوں کے طرزِ عمل کو دیکھتا ہوں‘ تو دل میں جذبات کا ایسا شعلہ اٹھتا ہے کہ اگرانہیں زبان پر لاؤں‘ تو زبان جل جائے اور اگر ضبط کر کے سانس روکے رکھوں‘ تو اندیشہ ہے کہ ان جذبات کی تپش سے ہڈیاں تو کیا ‘ ہڈیوں کا گودا تک جل جائے گا ‘کیفیت یہی ہے:
جو سچ کہتا ہوں‘ مزا الفت کا جاتا ہے
جو چُپ رہتا ہوں‘ کلیجہ منہ کو آتا ہے
اہلسنت کی بے عملی کو دیکھتے ہوئے ‘امام احمد رضا قادری نے اسلام کی نشأ ۃِ ثانیہ کے لیے ایک منشور دیا‘ اس کے چند نکات یہ ہیں:
''ایک علماء کا اتفاق‘ جو اُن کے عہد میں بھی مفقود تھا‘ دوسرا ''تحمل ِ شاق قدر بالطاق‘‘ یعنی ہر مسلمان کو اپنی طاقت کے مطابق دین کی راہ میں مشکلات کو برداشت کرنا ‘جبکہ مسلمان سہل پسند ہو چکے ہیں ۔ تیسرا'' اُمراء کا انفاق لوجہ الخلاق‘‘ یعنی ہر طرح کی نمود اور ریاکاری سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اُس کے عطا کیے ہوئے مال میں سے اُس کی راہ میں اس انداز سے خرچ کرناجیساکہ حدیث پاک میں ہے : ''بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ؟‘‘ پھر لکھتے ہیں : ''یہ تمام چیزیں یہاں مفقود ہیں ‘کیونکہ لوگوں کو نمود اور شہرت مطلوب ہے‘‘۔یہ تواُن کے دور کا عالم تھا‘ آج اخلاص سے محرومی اور ریاکاری کی یہ بیماری اور زیادہ پھیل چکی ہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے مالی وسائل سِوم ‘ جمعرات‘ دسویں بیسویں ‘ چہلم اور اَعراس کی تقریبات پر خرچ ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایصالِ ثواب کے مختلف عنوانات ہیں ‘ان کا جواز و استحباب مسلّم ‘ مگر رسول اللہ ﷺ نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے صدقاتِ جاریہ کو ترجیح دی ہے ۔ صدقاتِ جاریہ سے مراد ایسے شعبوں اور ایسی مدّات پر اپنے لیے اور اپنے وفات پانے والے اقارب کے ایصالِ ثواب کے لیے مال خرچ کرنا ‘جس کا فیض ابد الآباد یا عرصۂ دراز تک جاری و ساری رہے ‘ کیا محبین امام احمد رضا نے اس شِعار نبوت کو اختیار کیا ہے اورعمل کے سانچے میں ڈھالا ہے :
خیر گر چاہے‘ پھر فیض کے اسباب بنا
پل بنا‘ چاہ بنا‘ مسجد و تالاب بنا
امام احمد رضا سے پوچھا گیا : ایک خاتون ہر سال گیارہویں شریف کی نیاز کرتی ہیں اور ڈیڑ ھ من چاول پکا کر غوث الاعظم کی ایصالِ ثواب کے لیے تقسیم کرتی ہیں ‘فلاں جگہ ایک دینی مدرسے میں مستحق طلبہ ہیں ؛ اگر یہ اُن پر خرچ کر دیے جائیں‘ توکیاگیارہویں شریف کی نیاز ہو جائے گی ؟۔ آپ نے جواب دیا :تم گیارہویںشریف کی نیاز کے جواز کی بات کرتے ہو‘ گیارہویں بھی ہو جائے گی اور چودہ سو گنا زیادہ اجر ملے گا ‘ کیونکہ یہ صدقۂ جاریہ ہو گا ‘انہوں نے لکھا:۔
(۱)عظیم الشان مدارس قائم کیے جائیں اور باقاعدہ تعلیمی نظام ہو ‘(۲)انتہائی ذہین اور قابل طلبا جو غربت کے سبب تعلیم کو ترک کرکے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ‘اُن کو وظائف دیے جائیں تاکہ وہ تعلیم ِ دین کی طرف مائل ہوں‘(۳) مدرّسین کو اعلیٰ معیار پر بیش بہا تنخواہیں دی جائیں ‘تاکہ وہ فکرِ معاش سے بے نیاز ہوجائیں اور کسی کی ملامت کی پروا کیے بغیر احقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کا فریضہ ادا کریں ‘(۴) طلبہ کے ذہنی رجحان کو دیکھ کر انہیں اُن کے پسندیدہ علمی شعبے کامتخصّص بنایا جائے‘(۵)جن کے اندر تحقیق اور تصنیف وتالیف کا جوہر ہے‘ اُن کی قابلیت کے مطابق مشاہرے دے کر اس شعبے میں اُن کی خدمات حاصل کی جائیں‘ (۶) دینی رسائل وجرائداوراخبارات کا اجراکیا جائے ‘ (۷) سودی شکنجے سے نجات کے لیے مسلمانوں کے اپنے مالیاتی ادارے ہوں‘ جو دیانت کا اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے اسلامی شراکت ومضاربت کے اصولوں پر لوگوں کو خدمات فراہم کریں اور انتہائی ضرورت مندوں کو بلاسود قرضے دیں ‘ (۸)مسلمانوں کے باہم تنازعات کو طے کرنے کے لیے ثالثی کونسلیں بنائی جائیں‘ تاکہ برسوں عدالتوں میں رُلنے اور وکلاء کی بڑی بڑی فیسیں دینے سے بچ سکیں ‘اس کی ضرورت آج بھی ہر شخص محسوس کرسکتا ہے‘ کیونکہ ہمارے ہاں انصاف انتہائی گراں قدر جنس بن چکا ہے اور وکلاء کی فیسیں لاکھوںاور کروڑوں میں ہیں۔ قرآنِ کریم نے بھی عائلی تنازعات طے کرنے کے لیے ایک ''مجلسِ تحکیم‘‘ تشکیل دینے کاحکم فرمایا ہے ۔
لوگوں نے غلط طور پر یہ تاثر دیا ہے کہ اُن کا من پسند مشغلہ کفر کے فتوے جاری کرنا تھا‘ یہ اُن کی فکر کی سو فیصد غلط تعبیر ہے ‘ آپ لکھتے ہیں : '' فرضِ قطعی ہے کہ اہلِ کلمہ کے ہر قول و فعل کو؛ اگر چہ بظاہر کیسا ہی خراب سے خراب تر ہو ‘ حتیٰ الامکان کفر سے بچائیں؛اگر ضعیف سے ضعیف ‘ نحیف سے نحیف تاویل بھی پیدا ہو سکتی ہو ‘ جس کی رو سے حکمِ اسلام کی گنجائش نکلتی ہو‘ تو اس کی طرف جائیں اور اس کے سوا ہزار احتمال اگر جانبِ کفر جاتے ہوں ‘ خیال میں نہ لائیں‘(فتاویٰ رضویہ ‘ ج: 12ص: 317)‘‘۔ آپ حدیث بیان کرتے ہیں : ''لااِلٰہ الا اللّٰہ کہنے والوں سے زبان روکو ‘ انہیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو ‘ لااِلٰہ الا اللّٰہ کہنے والوں کو جو کافر کہے ‘ وہ کفر سے نزدیک تر ہے ‘ (المعجم الکبیر‘ ج: 12 ص:272)‘‘۔آپ لکھتے ہیں : امام اعظم اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں : ''جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اُس سے کفر صادر ہو ‘ وہ کفر کرے یا نہ کرے ‘ یہ(خواہش رکھنے والا) ابھی کافر ہو گیا کہ مسلمان کا کافر ہو نا چاہا ‘ (فتاویٰ رضویہ ‘ ج: 12 ص : 403)‘‘۔ البتہ آپ لکھتے ہیں : ''جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو ‘ باجماعِ مسلمین یقینا قطعاً کافر ہے؛ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے ‘ مگر اس کی وضاحت تو کی جائے کہ کسی شخص نے ضروریاتِ دین میں سے کس چیز کا انکار کیا ہے‘ اگرواقعی ایسا ہے تو علمائے کرام کو اتفاقِ رائے سے فیصلہ صادر کرنا چاہیے‘ تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور سب یک سُو ہوں ‘‘۔ امام احمد رضا قادری کا یہ مشورہ نہایت صائب ہے کہ ایسے اُمور میں ‘جن کے نتائج دور رس ہو ں ‘ انفرادی کی بجائے ثقہ علما ء کو اجماعی اور متفقہ فتوے جاری کرنے چاہئیں‘ تاکہ اگر کسی پہلو کے بارے میں ایک عالم سے صرفِ نظر ہو جائے تو دوسرا اس کی اصلاح کر لے ۔
وہ لکھتے ہیں: ''خدمتِ دین میں مشغول کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے تقدیرِ الٰہی سے کوئی لغزش واقع ہو‘تو اس پر پردہ ڈالنا چاہیے ‘ ورنہ لوگ اُن سے بدظن ہوں گے اور اُن کی تحریر وتقریر سے دین جو فائدہ پہنچتا ہے ‘اُس کا نقصان ہوگا‘‘۔بعض لوگ بغض وعداوت کی بنا پر کسی کی طرف جھوٹی بات منسوب کرلیتے ہیں ‘ آپ نے حدیث کا حوالہ دیا : ''جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر عار دلایا‘ جو اُس نے نہیں کیا‘ تو موت سے پہلے یہ شخص خود اس میں مبتلا ہوگا‘‘(سنن ترمذی:2505)۔
امام احمد رضا قادری کی ایک انتہائی دقیق عبارت کا خلاصہ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے ‘ جس سے ان کی فکر میں یُسر اور توسُّع کا اندازہ ہوتا ہے : ''ان امور میں یہ قاعدۂ کلیہ ضروریادرکھناچاہیے کہ فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے بچنے کو مخلوق کی خوشنودی پر ترجیح دے اور ان امورمیں کسی کی ناراضی کی پروا نہ کرے۔ دینی حکمت کے تحت مخلوق کی دلداری اور ان کے جذبات کومستحب کاموں پر ترجیح دے ‘ یعنی نفسانیت نہیں‘ بلکہ دینی مصلحت کے تحت بعض صورتوں میں افضل کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے اور بعض اوقات خلافِ اَولیٰ کام بھی کیاجاسکتا ہے۔ دین کے مُبلّغ کو لوگوں کے درمیان نفرت پیداکرنے سے گریز کرنا چاہیے‘ وہ لوگوںکے لیے اذیت اور دل آزاری کاسبب نہ بنے۔ لوگوں میں کوئی ایسا شِعار رائج ہو جو نہ شریعت کے خلاف ہے اور نہ اس میں شرعی عیب ہے ‘اپنی پارسائی ظاہر کرنے کے لیے اس پر لوگوں کوملامت نہ کرے ۔ اگرکوئی لوگوں کی عام روش سے ہٹ کر الگ راستہ اپناتا ہے‘ تو یہ لوگوں کے دلوں کو دین کی طرف مائل کرنے کے اعلیٰ مقصد کے خلاف ہے ۔خبر دار رہو!اس بات کوخوب توجہ سے سنو !کہ یہ بہت خوبصورت باریک علمی نُکتہ اور حکمت کی بات ہے اور دین کے معاملے میں سلامتی اور وقار کا راستہ ہے ‘جس سے بہت سے خشک مزاج زاہد اور باطنی کشف کا دعویٰ کرنے والے غافل اور جاہل ہوتے ہیں۔وہ اپنے فاسدگمان میں بڑے دین دار بنتے ہیں‘ لیکن درحقیقت وہ دین کی حکمت اورشریعت کے مقاصدسے بہت دور ہوتے ہیں ‘ حکمت ودانش کے اس پیغام کو مضبوطی سے پکڑو‘یہ چند سطریں ہیں ‘ مگر اس میں علم کا بڑا خزانہ ہے‘‘(فتاویٰ رضویہ ‘جلد:4ص:528 )۔