ہمارے سیاسی امراض کی اصلاح کا بیڑا تو ماشاء اللہ ہمارے میڈیا نے رضا کارانہ طور پر اٹھا رکھا ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ روزانہ کے دھواں دار مباحثوں کے بعد جب وہ اپنے پروگرام کی بساط لپیٹتے ہیںتو ناظرین کے دامن میں فکری انتشار‘ بے یقینی اور قنوطیت کے سوا باقی کچھ نہیں بچتا‘سو ہم آج اصلاحِ ذات اور پاکیزگیٔ نفس کی بات کریں گے۔ رسول اللہﷺ تعلیمِ امت کے لیے اپنے خطباتِ مبارَکہ میں اکثریہ کلمات ارشاد فرماتے تھے:''ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اﷲکی پناہ میں آتے ہیں‘‘۔انسان کو جو اَخلاقی اور نفسانی (Psychic)عوارض لاحق ہوتے ہیں‘ ان میں سے ایک حسد ہے‘ اسے ہم اردو میں'' جلنا‘‘اور انگریزی میں ''Jealousy‘‘کہتے ہیں ۔ اس کے مقابل جو پسندیدہ صفت ہے‘ اسے عربی میں ''غِبْطَہ‘‘اور اردو میں ''رشک‘‘ کہتے ہیں۔
کسی کو جمال‘ مال‘ صحت‘ علم یا جاہ ومنصب جیسی نعمتوں میں پھلتا پھولتا دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے‘ حسد کہلاتا ہے۔ یہ اتنی قبیح نفسانی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ''سُوْرَۃُ الْفَلَق‘‘ میں حاسد کے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اﷲ تعالیٰ کی ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کسے نعمت عطا کرے اور کسے نعمت سے محروم کردے یا کون نعمت کا حق دار ہے اور کون نہیں ہے اور یہ کہ کس کے لیے اُس کی عطائیں بطورِانعام ہیں اور کس کے لیے آزمائش اور امتحان ہیں ۔
حاسد دَراصل اﷲ کی تقدیر اور تقسیم پر اعتراض کرتاہے ‘قرآنِ کریم میں ہے:(1)''کیا یہ لوگ اُس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیںاپنے فضل سے عطا فرمائی ہے‘(النسائ:54)‘‘۔(2)اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پرجو فضیلت دی ہے‘اس (کے چھن جانے )کی تمنا نہ کرو‘(النسائ:32)‘‘۔ایسی تمنا تو وہ کرے ‘ جس کا یہ ایمان ہو کہ اللہ کے خزانے میں اتنا ہی تھا ‘ جوفلاں شخص کو دے دیا ‘ اب میرے لیے کچھ نہیں بچا۔ مومن کا اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے خزانے بے حد وبے حساب ہیں ‘ وہ جتنا زیادہ کسی کو عطا کرے ‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آتی ۔پس مومن کو یہ تمنا کرنی چاہیے کہ اے اللہ! یہ بھی تیری نعمتوں میں پھلتا پھولتا رہے اور مجھے بھی اپنے فضل وکرم سے نواز دے‘ چنانچہ فرمایا: ''اور اللہ سے اُس کے فضل کا سوال کرو‘(النسائ:32)‘‘۔
مشرکینِ مکہ نے اعتراض کیا کہ اگر اﷲتعالیٰ کو نبوت عطا کرنی ہی تھی تو مکہ اور طائف کی بستیوں میں سے کسی بڑے سردار کو عطا کی جاتی‘ ظاہری اعتبار سے وسائل نہ رکھنے والے حضرت عبداللہ وآمنہ (رضی اللہ عنہما)کے یتیم فرزند کو کیوں عطا کردی گئی؟‘ اﷲتعالیٰ فرماتاہے:'' اور انہوں نے کہا: یہ قرآن ان دو شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟(اﷲ نے فرمایا:) کیا یہ (کفار) آپ کے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں ؟‘ ہم نے (اپنی حکمت سے)ان کے درمیان دنیاوی زندگی میں معیشت کو تقسیم کیا ہے‘ (الزخرف:31-32)‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نعمتوں کوتقسیم فرماتا ہے‘ اس کے لیے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتاہے‘ جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے دھو ڈالتا ہے‘ جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور نماز مومن کا نور ہے اور روزہ جہنم سے (نجات کے لیے) ڈھال ہے‘(سنن ابن ماجہ:4210)‘‘۔ آپ ﷺ نے ایک طویل حدیث میں فرمایا:''مومن کے دل میں ایمان اور حسد دونوں بیک وقت جگہ نہیں پاسکتے‘(سنن نسائی:3109)‘‘۔آپ ﷺ سے سوال ہوا:'' تمام لوگوں میں افضل کون ہے ‘آپ ﷺ نے فرمایا:''ہر وہ شخص جو دل کانرم اورزبان کا سچا ہو‘ صحابہ نے عرض کیا : زبان کا سچا ہونے کو تو ہم پہچانتے ہیں ‘ یہ ''مَخْمُوْ مُ الْقَلْب(نرم دل)‘‘کو ن ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جو متقی ہو‘ اس کا دل پاکیزہ ہو ‘ اس نے کوئی گناہ اور سرکشی نہ کی ہواور وہ اپنے دل میں کسی کے لیے کینہ اور حسد نہ رکھے‘(ابن ماجہ: 4216)‘‘۔
یہودِمدینہ سیدالمرسلینﷺ کو پہچان چکے تھے کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی بشارت سارے انبیائے کرام علیہم السلام دیتے چلے آئے ہیں ‘ ان کی نشانیاں تورات وانجیل میں موجود ہیں اوروہ نبیِ آخر الزمان کے منتظربھی تھے ‘نیز قرآن نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے عہد کے کفار کے مقابلے میں آنے والے نبیِ آخرالزمانﷺ کے وسیلے سے فتح کی دعائیں بھی مانگتے تھے ۔ لیکن جب خاتم النبیین سیدنا محمد رّسول اللہﷺ تشریف لے آئے تو صرف اس حسد کی بنا پرکہ یہ آخری نبی اور سارے انبیاء کے تاجداربنی اسرائیل کے بجائے بنواسماعیل میں کیوں بھیجے گئے‘ آپ پرایمان نہ لائے اور آپ کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘ اﷲتعالیٰ فرماتاہے :''اور جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کتاب آئی ‘ جو اُس آسمانی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے ‘ جو ان کے پاس (پہلے سے موجود) ہے اور وہ اس سے پہلے(اسی نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف فتح کی دعا کرتے تھے‘ پس جب وہ ان کے پاس آگئے ‘ جن کو انہوں نے (تورات میں بیان کردہ نشانیوں سے) پہچان لیا‘ تو انہوں نے ان کا انکار کیا‘(البقرہ:89)‘‘ ‘نیزاللہ تعالیٰ نے فرمایا:''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ‘ وہ اس نبی کواس طرح پہچانتے ہیں ‘ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور اُن کا ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے‘(البقرہ:146)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد اخلاقی اور اعتقادی اعتبار سے اتنی مُہلک بیماری ہے کہ اس کے باعث انسان نعمتِ ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ایک پوری امت اس کے نتیجے میں آخرت کی تباہی اور اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے تاکیداً فرمایا: ''بدگمانی سے بچو‘ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے ‘تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کا سراغ نہ لگائو‘ لوگوں کے عیوب تلاش نہ کرو‘ جس چیز کو خریدنے کا ارادہ نہ ہو اُس کی قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ لگاؤ ‘ ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو‘ ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ کرو‘ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرواور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ‘(بخاری:6064)‘‘۔ کفار رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حسد بھی کرتے تھے‘ مختلف طریقوں سے ایذا بھی پہنچاتے تھے اور نظر بد بھی لگاتے تھے‘ جبرائیلِ امین آئے اوریہ دعائیہ کلمات پڑھ کر آپ کو دم کیا:''بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ‘ مِنْ کُلِّ شَیْء ٍ یُؤْذِیکَ‘ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ وَعَیْنٍ حَاسِدَۃٍ‘ بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ‘‘۔ ترجمہ:'' میں اللہ کے نام سے ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذا پہنچائے ‘ہر انسان اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے حفاظت کے لیے آپ کودم کرتا ہوں‘میں اﷲکے نام سے آپ کو دم کرتاہوں ‘ اﷲآپ کو شفا عطا فرمائے ‘(ترمذی:972)‘‘۔
حسد ہی وہ مرض ہے جس میں شیطان مبتلا ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائک بنا کر جوفضیلت عطا کی‘ وہ اس سے برداشت نہ ہوئی ‘ اسی نفسانی مرض کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوا اور اﷲکی رحمت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ آج ہمارے گھرانوں اور ماحول میں یہ اَخلاقی بیماری بہت عام ہے ۔ حاسد کے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اسی لیے عطا فرمائی کہ حاسد آتشِ انتقام میں جَل کر کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے ۔لیکن زیادہ تر صورتوں میں حاسد اپنا ہی نقصان کرتاہے‘ اپنے ہی اعمالِ خیر کو برباد کرتاہے اور وہ اندر ہی اندر حسد کی آگ میں جلتا اور کڑھتا رہتا ہے‘ دوسرے کا نقصان کم ہی کر پاتاہے ‘ اسی لیے اﷲکے نیک بندے یہ دعا کیا کرتے ہیں :'' اے اﷲ! مجھے حاسد نہ بنا ‘ محسود بنا‘‘ ۔ محسود اسے کہتے ہیں جس سے حسد کیا جائے اور ظاہر ہے کہ حسد اسی سے کیا جائے گا ‘ جس میں کوئی کمال ہو‘ خوبی ہو ‘ صورت وسیرت کا جمال ہو ‘ اﷲتعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہو۔ پس حسد کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت‘ نعمت اور فضل وکرم کاسوالی بن کر رہے‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ‘ اس کی عطا لامحدود ہے ‘ نعمت ملے تو شکر کرے ‘ مشکل کا سامنا ہو تو صبر کرے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے : آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی شخص تمہارے سامنے نمودار ہوگا‘ پھر انصار کا ایک شخص نمودار ہوا‘ اس کی داڑھی سے وضو کے قطرات ٹپک رہے تھے‘ پھر دوسرے اور تیسرے دن یہی واقعہ رونما ہوا۔جب نبی ﷺ مجلس سے اٹھے تو عبداللہؓ بن عَمرو اس شخص کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میری میرے والد سے ناچاقی ہوگئی ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن تک گھر میں داخل نہیں ہوں گا‘سو آپ تین دن تک مجھے اپنے گھر میں ٹھکانا دے دیں ‘اس نے کہا: ٹھیک ہے‘ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: عبداللہؓ نے بتایا ‘اس نے تین راتیں اس شخص کے ہاں گزاریں‘ اس نے قیام الیل بھی نہیں کیا سوائے اس کے کہ جب وہ بستر پر لیٹتا تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتارہتاحتیٰ کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھتا‘البتہ میں نے اس سے خیر کے سوا کوئی بات نہیں سنی۔ جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے اس میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہ آئی تومیں نے اس سے کہا: میرے اور میرے باپ کے درمیان کوئی ناراضی نہیں تھی ‘لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے تین بار تمہارے جنتی ہونے کے بارے میں سنا تو میں نے ارادہ کیا کہ میں آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عمل کو دیکھوں اور اس کی پیروی کروں‘تو میں نے کوئی غیر معمولی عمل نہیں دیکھا ‘سو بتائیے کہ آپ کس خوبی کی بنا پر زبانِ نبوت سے جنتی قرار پائے ‘اس نے بتایا:میں ویسا ہی ہوں جیسا آپ نے دیکھا ‘بس اتنی سی بات ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ اور حسد نہیں رکھتا ‘ عبداللہؓ نے کہا: یہی تو وہ عظیم خصلت ہے جس پر پورا اترنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے‘ (مسند احمد:12697 ملخصاً)‘‘۔