سولہویں پارے کے مضامین
پندرھویں پارے میں حضرت موسیٰ وحضرت خضر علیہماالسلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جارہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا : جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں ‘اُن کے بارے میں آپ صبرنہیں کرپائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ''انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: '' آپ میری پیروی کرتے ہوئے میرے کسی فعل کے بارے میں سوال نہیں کریں گے ‘ تاوقتیکہ میں خود آپ کو بتادوں ‘‘چلتے چلتے وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو‘ حضرت خضر علیہ السلام نے اُس کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : '' یہ تو آپ نے بہت بری بات کی ‘اس سے تو سواریوں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوسکتاہے ‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے آپ سے یہی تو کہاتھاکہ آپ صبر نہیں کرپائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : میری بھول پر میری گرفت نہ کیجئے اور میرے مشن کو مجھ پر دشوار نہ کیجئے ۔
سورۂ کہف کی اس واقعہ سے متعلق آیات میں بتایا: راہ چلتے اُن دونوں کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی اور حضرت خضر علیہ السلام نے اُس لڑکے کوقتل کردیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ''آپ نے ایک بے قصور شخص کوقتل کردیا‘آپ نے یہ بہت براکام کیا‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ''میں نے تو آپ سے کہاتھاکہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے ‘‘۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا :اس کے بعد میں اگر آپ سے کوئی سوال کروں ‘تو مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ پھر چلتے چلتے ایک بستی والوں کے پاس آئے ‘اِنہوں نے اُن سے کھانا مانگا ‘تو اُنہوں نے میزبانی نہ کی ‘اس کے باوجود اُس گاؤں کی ایک دیوار گراچاہتی تھی ‘ حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے ٹھیک کردیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان بے لحاظ لوگوں سے آپ نے مزدوری ہی لے لی ہوتی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا : اب آپ کے اور میرے راستے جداہیں ‘میں اپنے تینوں کاموں کی حکمت آپ کو بتا دیتا ہوں : (1) کشتی سمندر میں کام کرنے والے مسکین لڑکوں کی تھی اور آگے ایک ظالم بادشاہ تھا‘جو ہر صحیح وسالم کشتی کو زبردستی لے لیتاتھا ‘ میں نے اُس کشتی کو عیب دار کردیا‘ تاکہ اُس کی دست برد سے بچی رہے ۔(2)لڑکے کے ماں باپ مومن تھے اوراندیشہ تھاکہ یہ بڑے ہوکر اُن کو سرکشی اورکفر میں مبتلا کردے گا ۔اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُن کو ایک پاکیزہ اور زیادہ رحم دل بیٹا عطافرمائے گا ۔ (3)گاؤں میں دیوار دویتیم لڑکوں کی تھی اور اُس کے نیچے اُن کا خزانہ دفن تھا اور اُن دونوں کا باپ ایک صالح شخص تھا ‘توآپ کے رب نے چاہاکہ وہ جوان ہوکر اپنے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں ۔یہ تینوں کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کئے ‘ یعنی یہ اللہ کا حکم تھا‘ لیکن آپ صبر نہ کرسکے اور جلد بازی میں سوال کربیٹھے۔
آیت83سے ذوالقرنین کا ذکر ہے ‘ اللہ نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا ‘ وہ ایک مہم پر نکلے اور طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچے تو ایک قوم کو پایا ‘ جن پر سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا‘ پھر ایک اور مہم پہ نکلے اور دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے ‘ ان پہاڑوں کے اس پار ایک قوم تھی جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی ۔ انہوں نے کہا : اے ذوالقرنین! یاجوج وماجوج زمین میں فساد کررہے ہیں‘ ہم آپ کو کچھ سامان مہیا کرتے ہیں آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیں۔ ذوالقرنین نے کہا: اللہ نے مجھے طاقت دی ہے اور میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں گا۔ اس دیوار میں لوہا اور تانبا بھی پگھلا کر ڈالا گیا‘ تاکہ وہ دیوار ناقابلِ شکست ہوجائے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت سے بنی ہے اور جب میرے رب کا مقررہ وقت آئے گا‘ تو وہ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کردے گا۔ آخری آیات میں اللہ نے فرمایا کہ اگر سارے سمندر‘ اور ان جیسے اور بھی آجائیں ‘ مل کر روشنائی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائیں گے۔
سورہ مریم
سورۂ مریم میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے (یحییٰ) کی بشارت دی ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں نبوت عطا کی اور کتاب دی ‘وہ پاکیزہ ‘ متقی‘ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے۔ اس کے بعد حضرت مریم کا ذکر ہے کہ وہ گھروالوں سے دور چلی گئیں اور باپردہ جگہ کو اختیار کر لیا۔ ان کے پاس فرشتہ بشری شکل میں آیا اور کہا کہ میں آپ کے رب کا فرستادہ ہوں اور اس نے انہیں پاکیزہ لڑکے کی بشارت دی ۔ حضرت مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا‘ حالانکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں ۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ کے لئے یہ بات آسان ہے اوراللہ اسے لوگوں کے لئے نشانی بنائے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ طے ہوچکا ہے۔ انہیں حمل ہوا اور وہ ایک دور مقام پر کھجور کے درخت کے پاس چلی گئیں۔ فرشتے نے ندا دی کہ آپ غمگین نہ ہوں‘ اگر کوئی بشر آپ سے سوال کرے‘ توکہیے کہ میں نے (چپ کے) روزے کی نذر مانی ہے اور میں کسی انسان سے کلام نہیں کروں گی ۔ پھر وہ بچے کو اٹھائے قوم کے پاس گئیں تو قوم نے ملامت کی کہ یہ کیا ہوا۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا اور قوم نے کہا کہ ہم گود کے بچے سے کیسے کلام کریں ‘ بچے نے کہا : میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھے کتاب ونبوت عطا کی ہے اور بابرکت بنایا ہے۔
آیت 51سے مختلف انبیائے کرام کا ذکر ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کو وعدے کے سچے ‘ رسول نبی اور اللہ کے پسندیدہ قرار دیا گیا ۔ ادریس علیہ السلام کو صدیق نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا ۔ آیت 76سے بتایا کہ جو لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں ‘ ان کی ابتلا میں اضافے کے لئے مہلت کی مدت بڑھا دی جاتی ہے اورجو ہدایت یافتہ ہیں‘ ان کو مزید استقامت نصیب ہوتی ہے اور اﷲکے ہاں ثواب اور انجامِ خیر کے اعتبار سے باقی رہنے والی نیکیاں سب سے بہتر ہیں۔
سورہ طٰہٰ
ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ قرآن نصیحت کے لئے نازل ہوا اور اللہ ظاہر وباطن سب کو جانتاہے ‘ وہ وحدہٗ لاشریک ہے اور اس کے سبھی نام اچھے ہیں۔ آیت 10سے مَدین سے واپسی کے سفرکے دوران موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعے کا بیان ہے کہ وہ ایک جگہ اپنی اہلیہ کو ٹھہرا کر آگ لینے طور پر گئے ۔ وہاں انہیں غیب سے ندا آئی کہ اے موسیٰ! میں آپ کا رب ہوں ‘ آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں‘ ادباً اپنے جوتے اتار دیجئے ‘ میں نے آپ کو چن لیاہے اور میرے پیغامِ وحی کو توجہ سے سنئے‘ میں اللہ وحدہٗ لا شریک ہیں ‘ میری بندگی کیجئے اور میری یاد کے لئے نماز قائم کیجئے۔
اسی موقع پر آپ کو معجزات عطا ہوئے اور آپ کو حکم ہوا کہ جا کرفرعون کو دعوتِ حق دیجئے ۔ آیات 25تا 28 موسیٰ علیہ
السلام کی دعا کوبیان کیا: ''اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول ‘ میرے لئے میرا کام آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھو ل دے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھیں‘‘۔
آیت38 سے موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کے حالات کا ذکر ہے۔ فرعون نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرائیل کے ہر گھر میں پیدا ہونے والے بیٹے کو قتل کردیا جائے ۔ اﷲتعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو ایک صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیں‘ اﷲکے حکم سے یہ تابوت کنارے لگے گا اور اﷲکے دشمن (فرعون) کے ہاتھ لگ جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایساہی کیا تاکہ رب کی نگرانی میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش ہو۔آیت 43 سے موسیٰ وہارون علیہما السلام کو حکم ہوا کہ آپ دونوں فرعون کے پاس جاؤ‘ وہ سرکش ہوچکا ہے‘ اسے نرمی کے ساتھ دعوتِ حق دو ‘ شایدوہ نصیحت حاصل کرلے۔ وہ دونوں فرعون کے پاس گئے اور کہا کہ ہم اﷲکے رسول ہیں ‘بنی اسرائیل کو اذیت نہ دواور انہیں ہمارے ساتھ بھیج دو۔ فرعون نے اﷲکی ذات کے بارے میں موسیٰ وہارون علیہما السلام سے مجادلہ کیا ‘ ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور پھر اپنے جادوگروں کو بلاکر مقررہ دن پر مقابلے کا چیلنج دیا‘ اس کی تفصیل پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے کہ جادو گر ناکام ہوگئے ۔ آیت:85سے سامری کا ذکر ہے کہ اُس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا۔ آیت 105سے فرمایا : لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں‘آپ کہہ دیجئے کہ میرارب اُنہیں ریزہ ریزہ کردے گا اور پوری زمین ہموار میدان کی طرح ہوجائے گی ۔ آیت 109میں فرمایا: آج اللہ کی بارگاہ میں کسی کو مجالِ شفاعت نہیں ہوگی‘سوائے اُس کے جسے وہ اِذنِ شفاعت عطاکرے اورجس کے قول سے وہ راضی ہو ۔آیت 115سے اِس بات کاذکرہے کہ آدم علیہ السلام جو جنت میں درخت کے قریب چلے گئے ‘تویہ اُن کی بھول اور اجتہادی خطاتھی‘ انہوں نے قصداً اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی نہیں کی۔ آدم علیہ السلام کو جنت میں داخل کرکے بتایا کہ یہاں نہ بھوک لاحق ہوگی ‘ نہ بے لباسی ہوگی ‘ نہ پیاس لگے گی اورنہ ہی دھوپ کی تپش محسوس ہوگی۔ اور یہ کہ آپ اپنے دشمن شیطان کی چالوں سے بچے رہیں گے ۔ اس مقام پر قرآن نے اس موضوع کو پھر بیان کیا کہ شیطان نے وسوسہ ڈالا اور مخلص اور ہمدرد کا روپ اختیار کرکے ان کو بہکایا۔ انہوں نے ممنوعہ درخت سے کھا لیا سو اُن کے ستر کھل گئے اور وہ جنت کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے۔ پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور جنت سے زمین پر بھیج دیا۔ آیت 124 سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو ہماری یاد سے غافل رہے گا ‘ اس کے لئے معیشت تنگ کردی جائے گی اور اسے قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا‘ وہ کہے گا : میرے رب تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟‘ حالانکہ میں دنیا میں بینا تھا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے پاس میری نشانیاں آئی تھیں ‘ جنہیں تو نے نظرانداز کردیا تھا‘ اسی طرح آج تم بھی نظر انداز کردئیے جاؤگے۔