امریکہ جب بھی جانا ہوا ‘میرے پروگراموں کو نیوجرسی سٹیٹ کے ممتاز عالمِ دین اور جماعتِ اہلسنت امریکہ کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود احمد قادری ترتیب دیتے ہیں ۔وہ سال بھر میرے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔میں گزشتہ سال اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ جاسکا‘ جس پر انہیں مایوسی ہوئی اور شکوہ بھی رہا‘سو اس سال ان کے اصرار پر جانا پڑا‘ لیکن دورے کے دورانیے میں کافی تخفیف کرنی پڑی۔نیو یارک کے علامہ مدثر حسین اور علامہ مقصود احمد قادری میں کافی فکری مناسبت ہے اور ان کا فکری اشتراک دین ومسلک کے لیے بہت مفید ہے۔ رویتِ ہلال‘ حلال سرٹیفکیشن‘ نمازوں کے اوقات اوروہاں کے درپیش حالات میں سفری امور سمیت چند موضوعات ایسے ہیں جن کے بارے میں تقریباً ہر مجلس میں سوال ہوتا ہے ‘لیکن یہ موضوعات تفصیلی گفتگو کے متقاضی ہیں‘ایک کالم میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے ۔ میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے یہ گزارش کرتا رہتا ہوں کہ آپ لوگ پاکستان میں مسلکی اور سیاسی وابستگی کے حوالے سے اپنی من پسند جماعتوں کا تعاون ضرور کریں ‘لیکن آپ پر یہ لازم نہیں ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کا ڈپلیکیٹ ایڈیشن امریکہ میں ضرور موجود ہواور اس بنا پر وہ اپنی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ جاری رکھیں ‘ بلکہ آپ لوگوں کو امریکن مسلم اور امریکن پاکستانی کی حیثیت سے اپنا وزن ثابت کرنا چاہیے ‘وہاں کی سیاسی جماعتوں اورکانگرس کے اراکین پر اپنی عددی قوت اورسیاسی رسوخ کے اعتبار سے اثر انداز ہونا چاہیے‘ جیساکہ وہاں کے یہود اور ہندو کرتے ہیں۔ نیز آپ کو اس کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ وہاں کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے حقوق کیا ہیں اور آپ اپنے مذہبی عقائد اور اقدار کا تحفظ کس حد تک کرسکتے ہیں۔
گزشتہ کالم میں ‘میں نے عرض کیاتھا کہ میں 20جون تا یکم جولائی امریکہ کے دورے پر تھا ‘اس دوران میری ٹینیسی سٹیٹ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز سے طویل نشست ہوئی اور بہت سے مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔یہ نشست میرے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے ‘اس سے اہلِ علم کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا ہے ۔ہم ایک دوسرے کے علم اور معلومات سے استفادہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں‘ خواہ وہ امریکی شہری بن چکے ہوں ‘کو پاکستان کے بارے میں ہمیشہ فکر لاحق رہتی ہے اور اُن کی پاکستان سے وابستگی ہم سے بھی زیادہ ہوتی ہے ‘اس لیے یہاں جو پیش رفت ہورہی ہو ‘اُس کا وہ گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اُن میں ڈاکٹر خالد اعوان صاحب پیشے کے اعتبار سے عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن ہیں ‘لیکن اُن کا تفسیر وحدیث اور اسلام کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔وہ قرآن وحدیث کی عہدِ حاضر پر تطبیق (Application)کا بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ پس مِن جملہ زیرِ بحث امور میں سینیٹ آف پاکستان سے بعنوان: ''Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018‘‘منظور کردہ بل بھی زیرِ بحث آیا ‘ کیونکہ ہمارے ہاں تو یہ کام اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل ثابت کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں‘ جبکہ وہ لوگ ان کے تباہ کُن اثرات کا شعوری طور پرمشاہدہ کررہے ہیں ۔ اُن کی اسلام سے محبت اور وابستگی بھی ہم سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیںہے‘ نیز اُن کامغربی اقدار کا تقابلی مطالعہ محض نظری (Theoretical)نہیں ہے ‘ بلکہ عملی اور مشاہداتی ہے اور فارسی کا مقولہ ہے: ''شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘۔
Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 کے عنوان سے یہ بل 7 مارچ 2018ء کو سینیٹ آف پاکستان سے پاس کیا گیا‘ اس کی محرک تین خواتین سینیٹرز روبینہ خالد‘ روبینہ عرفان‘ کلثوم پروین اور سینیٹر کریم احمد خواجہ ہیں۔ ہرقانون کی طرح بظاہر یہ بھی تحفظِ حقوق کے نام پر پیش کیا گیا ہے‘ لیکن اس کے پیچھیمبینہ طور پر Lesbian، Gays، Bysexualاور Transgender (LGBT) نامی مغربی تنظیم ہے ‘جس کا عالمی ایجنڈا ہے۔
اس دوران ''تنظیم اتحادِ امت‘‘ کے زیر انتظام بعض مفتیان کرام کا یہ فتویٰ جاری ہوا:''ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ‘ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں‘ عام عورتیں اور ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ‘ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں ‘عام مرد نکاح کرسکتے ہیں‘‘،انہوں نے مزید کہا:''ایسے خواجہ سرا جن میں مردوزن دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں‘ انہیں شریعت میں خُنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے‘ ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں ہے‘‘، نیز یہ کہ'' خواجہ سرائوں کا جائیداد میں حصہ مقرر ہے ‘‘۔ ہم حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ان مفتیانِ کرام نے مذکورہ بل کا انگریزی متن نہ پوری معنویت کے ساتھ پڑھا اور سمجھا ہوگا اور نہ انہیں اس کے عالمی محرکات اور مابعد اثرات کا اندازہ ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس شخص میں مردانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں‘ وہ مرد ہے اور جس میں زنانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں‘ وہ عورت ہے‘ اس پر خواجہ سرا کا اطلاق بے معنی ہے۔
امریکہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات نے ہمیں بتایا کہ ہم جنس پرستوں کے گروپLGBTنے بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں اسے اپنی فتح سے تعبیر کیا اور کہا: ''مسلم علما نے Transgenderکے حقوق تسلیم کرلیے ہیں ‘‘۔ ''دی ٹیلی گراف‘‘ نے لکھا:''پاکستان میںTransgenderلوگوں کا اب تک آپس میں شادی کرنا ناممکن تھا‘ کیونکہ وہاں قومِ ِلوط کا عمل کرنے والے لوگوں کی شادی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔ یعنی انہوں نے ہیجڑا کا ترجمہ Transgender کر کے فتویٰ کو قومِ لوط کے ہر قسم کے عمل کے جواز پر محمول کردیا‘ کیونکہ LGBT ان کی آرگنائزیشن کا نام ہے۔ اس میں Lesbian سے مراد ہم جنس پرست یعنی مَساحقہ عورتیں‘ Gays سے مراد ہم جنس پرست مرد‘ Bisexual سے مراد جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق رکھے اور Transgender سے مراد خواجہ سرا ہیں۔ عوام کے نزدیک LGBT سے ہم جنس پرست مراد لیے جاتے ہیں‘ جبکہ خاص طور پر ہیجڑا یا خُنثیٰ مشکل کے لیے انگریزی میں خاص اصطلاح Hermaphroditeآتی ہے‘ ان کے جنسی اعضامیں مردانہ خصوصیات غالب ہوں تو مرد اور نسوانی خصوصیات غالب ہوں تو عورت کہلاتے ہیں‘ جبکہ سینیٹ نے Transgender کے حقوق کے بارے میں بل پاس کیا ہے‘ اسے مغرب میں LGBT گروپ اپنے من پسند میں استعمال کرتا ہے‘ جس میں ہرقسم کی بے راہ روی شامل ہے۔ ایک Transgenderوہ ہے جودوجنسوں کے درمیان ہے ‘اس کے جنسی اعضا مرد اور عورت کا مرکب ہیں‘ یعنی غیر متعیّن ہیں ‘ اسے ہیجڑا کہتے ہیں ۔ایک'' زنخا‘‘ہے ‘اسے انگریزی میں Eunuchکہتے ہیں ‘ یہ وہ لوگ ہیں جومردانہ جنسی اعضاکے ساتھ پیدا ہوئے ‘مگر بلوغت سے پہلے جنسی اعضا کو خصی کردیا یا کاٹ دیا گیا۔ قدیم زمانے میں پوپ اپنے مذہبی گیت گانے والوں سے یہ سلوک کرتے تھے تاکہ اُن کی نرم اور پرکشش آواز برقرار رہے۔
LGBTگروپ میں ایسے لوگ ہیں کہ ایک امریکی فوجی افسر نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں عورت ہوں اور پھر اس نے اپنی عادات واطوار تبدیل کرنا شروع کردیں اور ظاہر ہے کہ اس میں ڈاکٹروں اور پلاسٹک سرجنز کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی موجود ہے :ایک شخص نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں بلی ہوں ‘پھر اس نے پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنا چہرہ بلی جیسا بنوایا ‘اپنے ہاتھ پائوں میں بلی جیسے ناخن لگوائے اور دُم بھی لگوالی ‘سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر موجود ہیں ‘اسے'' کیٹ مین ‘‘کہاجاتا ہے۔
اس میں فن کاری یہ ہے کہ ہیجڑا(Hermaphrodite)پیدائشی طور پر جنسی اعتبار سے جدا صفات کا حامل ہوتا ہے‘ جبکہ Transgenderکا مطلب ہے: ''وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضایا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں‘ مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش میں اس جیسی عادات واطوار اور لباس اختیارکرلیتے ہیں اور اس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور ڈاکٹر مرد کو عورت کے اور عورت کو مرد کے ہارمونز کچھ عرصے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔ اس طرح مرد کے جسم کے بال جھڑنے لگتے ہیں‘ پٹھے نرم وملائم ہونے لگتے ہیں‘ سینے میں ابھار آتا ہے اور مرد کے آلۂ تناسل کو پلاسٹک سرجری سے نکال کر نسوانی ساخت بناتے ہیں۔ اسی طرح مردانہ ہارمونز کے ذریعے عورت کی جسمانی ساخت وخصوصیات میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس سے نہ تومرد میں عورت کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ حمل قرار پائے اور بچے پیداہونے لگیںاورنہ عورت میں مرد کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے ‘ مگر یہ شغل وہاں رواج پارہا ہے۔ اسی کو قرآن کریم نے تغییرِ خَلق سے تعبیر کیا ہے کہ جب ازراہِ تکبر وحسد ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ‘ اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ کرتے ہوئے فرمایا:''تو جنت سے نکل جا‘بے شک تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے‘ (الحجر:34-35)‘‘۔''شیطان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک معیّن حصہ ضرور لوں گا‘ ان کولازماً گمراہ کروں گا‘ ان کوضرور (جھوٹی) آرزوئوں کے جال میں پھنسائوں گا‘انہیں ضرورحکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور انہیں لازماًحکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑ دیں گے‘ (النساء:118-119)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے لوگو!) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘ اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘ (الروم:30)‘‘۔ اسی بات کو حدیث پاک میں بیان کیا گیا ہے: ''ہر بچہ دینِ فطرت پر پیداہوتاہے ‘(بخاری: 1358)‘‘۔
قدرتی طور پر کسی کا مُخَنَّث یا ہیجڑا پیدا ہونا اُس کا ذاتی عیب نہیں ہے‘ اس بنا پر نہ اُسے حقیر سمجھنا چاہیے اور نہ اُسے ملامت کرنا چاہیے ‘کیونکہ ملامت کرنے کا جوازاس ناروا فعل پر ہوتا ہے ‘جس کا ارتکاب کوئی اپنے اختیار سے کرے اور جسے ترک کرنے پر اُسے پوری قدرت حاصل ہو‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اللہ کسی متنفّس کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ‘اُس کے لیے اپنے کیے ہوئے ہر(نیک)عمل کی جزا ہے اورہر (برے) عمل کی سزا ہے‘ (البقرہ:286)‘‘۔ لیکن جیساکہ سطورِ بالا میں بیان ہوا :''مغرب میں Transgenderاپنی مرضی سے جنس تبدیل کرتے ہیں ‘ جس جنس پر اُن کی تخلیق ہوئی ہے ‘مصنوعی طریقوں سے اُسے بدل دیتے ہیں ‘ہم جنس پرستی کے ذریعے لذت حاصل کرتے ہیں ‘جبکہ اس کے بارے میں بڑی وعید آئی ہے ۔(جاری ہے)