اسلام دین ِ فطرت ہے ۔اسلام انسانیت کی مسلَّمہ اقدار کو نا صرف قائم رکھتا ہے ‘بلکہ انہیں اعلیٰ معیار عطا کرتا ہے ۔اسلام جرم سے نفرت سکھاتا ہے ‘لیکن مجرم سے ہمدردی ‘تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔ امام اہلسنت نے ایک موقع پر فرمایا: ''سادات قابلِ احترام ہیں‘ اگر کسی سید زادے کو تنبیہ یا سرزنش کرنی پڑے تو یہ سمجھ کر کرے کہ میں اس کے لباس سے گَرد جھاڑ رہا ہوں‘‘ یعنی آپ نے لباس کو اعمال سے تشبیہ دی اور اصلاح کو بھی نفرت کے دائرے سے نکال کر ادب کے دائرے میں داخل فرمایا ۔مفسرین ِکرام نے النسائ:36 میں قرآنِ کریم میں اجنبی ہمسائے اور پہلو میں بیٹھے رفیق سے بھی حُسن ِ سلوک کا حکم دیا ۔ ظاہر ہے کہ اجنبی پڑوسی غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے ‘ نیز پہلو میں بیٹھا شخص بھی ممکنہ طور پر غیر مسلم ہوسکتا ہے ۔سو ‘اسلام نے کسی نہ کسی درجے میں ان کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے ۔انسانی اقدار کی سربلندی ہی کا شعار ہے کہ اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور بلندیِ درجات کا ذریعہ بتایا ہے اور غیر مسلم کی عیادت کی بھی اجازت دی ہے ۔ ذیل میں مریض کی عیادت کے حوالے سے احادیث ِمبارکہ پیش خدمت ہیں:
(1)حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مومن کو کوئی کانٹا چبھے یا اُس سے زیادہ تکلیف پہنچے ‘اللہ اس کا درجہ بلند اور اس کا گناہ معاف فرمادیتا ہے‘‘ (سنن ترمذی:965)۔ (2)حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس مسلمان کو بیماری یا کسی اور سبب سے کوئی تکلیف پہنچے ‘اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو (اس کثرت سے) معاف فرمادیتا ہے‘ جیسے (خزاں میں) پتے جھڑتے ہیں‘‘ (ترمذی:966)۔ (3)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:''رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:تم میں سے آج کس کا روزہ ہے ‘ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: میرا‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی‘ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: میں نے‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا‘ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: میں نے‘ پھر فرمایا:تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی‘ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: میں نے‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہوجائیں ‘وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا‘‘ (صحیح مسلم:1028)۔ (4)(ایک طویل حدیث میں )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے میرے بندے! میں بیمار تھا ‘تو نے میری عیادت نہ کی ‘بندہ عرض کرے گا:اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا ؛حالانکہ تو رب العالمین ہے‘اللہ فرمائے گا:کیا تمہیں معلوم نہیں :میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ سو تونے اس کی عیادت نہ کی‘ تجھے معلوم ہے کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے قریب ہی پاتا‘‘ (صحیح مسلم:2569)۔(5)حضرت ابوفاختہ بیان کرتے ہیں:حضرت علی ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: چلوحسن کی عیادت کرتے ہیں‘ وہاں ہم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو پایا‘حضرت علیؓ نے کہا:ابوموسیٰ! ملاقات کے لیے آئے ہو یا عیادت کے لیے‘ انہوں نے کہا: عیادت کے لیے‘ حضرت علی نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو کسی مسلمان کی صبح عیادت کرے ‘ شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے نزولِ رحمت کی دعا کرتے ہیں اور جو کسی مریض کی شام کو عیادت کرے ‘صبح تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے نزولِ رحمت کی دعا کرتے ہیں‘‘ (سنن ترمذی: 969)۔(6)حضرت انس بن مالک (طویل حدیث میں )بیان کرتے ہیں:'' میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو بھی شخص کسی بیمار کی عیادت کرے گا‘تو وہ جنت کے بحرِ رحمت میں غوطے لگائے گا‘ پھر جب وہ مریض کے پاس بیٹھے گا تو رحمت اُسے ڈھانپ لے گی‘ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ!یہ تو اُس تندرست کا انعام ہے‘ جو مریض کے برابر میں بیٹھے تو مریض کی کیا شان ہوگی۔آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے گناہ مٹ جائیں گے‘‘ (مسند احمد:12782)۔(7)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بیمار کی عیادت کی‘ آسمان سے ایک منادی پکارے گا: تو نے بہت اچھا کیا‘ تمہارا چلنا مبارک ہو‘ تو نے جنت میں اپنے لیے محل بنالیا‘‘ (سنن ابن ماجہ:1443)۔ (8)''حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھائوں؟ عطا بن ابی رباح نے کہا: ضروردکھائیے‘حضرت ابن عباس نے کہا:یہ وہ سیاہ فام عورت ہے ‘جو نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی:مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے ‘آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے ۔اس عورت نے عرض کی: میں صبر کروں گی‘ اُس نے پھر یہ التجا کی: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے ‘آپ بس اتنی دعا فرمادیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر قائم رہے۔پس ‘آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی‘‘(صحیح البخاری:5652)۔ (9) ''حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیاکہ مریض کی عیادت کریں ‘ جنازہ کے ساتھ جائیں ‘چھینکنے والے کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہیں ‘ جو دعوت دے اس کی دعوت کو قبول کریں ‘ سلام کو پھیلائیں‘ مظلوم کی مدد کریں ‘ قسم کھانے والے کی قسم کوسچا کریں ‘ ہمیں سونے کی انگوٹھیوں کے پہننے ‘ چاندی کے برتنوں میں پینے ‘ ریشمی زین ‘ قِسی‘ریشم‘ دیباج اور استبرق کے پہننے سے منع فرمایا ہے‘ ‘(صحیح البخاری:5635)۔ (10): ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ایک یہودی لڑکا بیمار پڑگیا تو نبی کریمﷺ اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے‘ آپ ﷺاس کے سرہانے بیٹھ گئے اوراس سے فرمایا:اسلام قبول کرلو‘(اس کا باپ بھی اس کاباپ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا)‘ اس نے باپ کی طرف دیکھا تو باپ نے اس سے کہا:ابوالقاسم (ﷺ)کے حکم کی تعمیل کرو‘وہ لڑکا مسلمان ہوگیا ۔ پس‘ نبی ﷺ یہ فرماتے ہوئے ‘وہاں سے باہر تشریف لائے: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں‘ جس نے اس لڑکے کو آگ سے نجات دی ہے‘‘(صحیح البخاری:1356)۔آپ نے ملاحظہ فرمایا: سید المرسلین ﷺ کے حُسنِ سلوک اور عیادت کی برکت سے اُس یہودی لڑکے کو کلمۂ اسلام پڑھنا نصیب ہوا ۔ اس حوالے سے بہت سے واعظین موضوع روایات بھی بیان کرتے ہیں ‘ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ روایات کے بیان پر اکتفا کرنی چاہیے اور موضوعات سے اجتناب کرنا چاہیے ‘کیونکہ رسول کریم ؐکی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بہت وعید آئی ہے ۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے احتراز کرتا ہوں ‘کیونکہ میرے پیشِ نظر نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہوتا ہے: ''جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کو منسوب کیا ‘وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘ (صحیح البخاری:108)۔
مریض سے کیا کہے:(1)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس عیادت کرنے کے لیے داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: فکر نہ کرو‘ ان شاء اللہ !(مرض اور گناہوں کے اثر سے)پاک ہوجائو گے‘‘ (بخاری:5662)۔ (2)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:'' رسول اللہﷺ جب کسی بیمار کے پاس آتے یا کوئی بیمار آپ ﷺکے پاس لایا جاتا تو آپ یہ دعا فرماتے: اے لوگوں کے پروردگار! (اس کی) تکلیف کو دور فرمادے‘ توہی شفا دینے والا ہے‘ شفا تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے‘ ایسی شفا کہ بیماری(کا اثر) زائل کردے‘‘ (بخاری:5675)۔(3)حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم مریض (کی عیادت کیلئے)داخل ہو تو اُسے زندگی کی امید دلائو‘ اس سے تقدیر تو نہیں ٹلتی‘لیکن اس کا دل خوش ہوجاتا ہے‘‘ (شعب الایمان:8778)۔ (4)حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے ‘تو اس سے مصافحہ کرے اور اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے‘ اس کا حال احوال پوچھے ‘اس کی درازیِ عمر کی دعا کرے اور اُس سے کہے: میرے لیے دعا کرو‘ کیونکہ مریض کی دعا ملائکہ کی دعا کی طرح قبول ہوتی ہے‘‘ (شعب الایمان: 8779)۔
آداب عیادت:(1)''حضرت انس بیان کرتے ہیں: نبیﷺ تین دن بعد مریض کی عیادت کرتے تھے‘‘ (شعب الایمان: 8781)۔(2) حضرت اعمش بیان کرتے ہیں: ہم مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ‘جب کوئی شخص تین دن تک غائب رہتا تو ہم اس کی بابت پوچھتے‘ اگر وہ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرتے‘‘(شعب الایمان:878)۔(3)حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عیادت میں وقفہ کیا کرو ‘چوتھے روز چلے جایا کرو اور بہترین عیادت وہ ہے‘ جس میں مریض کے خاندان کو زیادہ دشواری میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اگر‘ وہ پریشان ہوتا ہو تو عیادت نہ کرو اور عیادت ایک ہی بار کرے‘‘(شعب الایمان:8782)۔
رسول اللہ ﷺ حسنین ِکریمین کو اِن کلمات سے دم فرمایا کرتے تھے: ''میں تم دونوں کو ہر شیطان ‘ہر موذی جانور اور ہر نظر بد سے اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں‘ ‘(سنن ترمذی:2060)۔
ہمارے ہاں عیادت کے لیے ایک شِعار یہ رائج ہوگیا ہے کہ پھل وغیرہ لے کر جاتے ہیں یا پھولوں کا گلدستہ لے کر جاتے ہیں ‘ فی نفسہ تحائف دینا اچھی عادت ہے ‘لیکن بعض اوقات پھل ضرورت سے زائد ہوجاتے ہیں یامریض پھل کھا ہی نہیں سکتا ‘ اسی طرح گلدستے بھی ضائع ہوجاتے ہیں اور اُن کا کوئی بعد میں مَصرف بھی نہیں ہوتا ‘لہٰذا؛ اگر مریض ضرورت مند ہے اور ظاہری احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے علاج کے مصارف اس کی مالی استطاعت سے زائد ہیں ‘تو بہتر یہ ہے کہ اُن کواکرام کے ساتھ حسب ِتوفیق نقد رقم دے دی جائے‘ تاکہ اس کے علاج کے کام آئے ۔بعض حضرات زیادہ دیر بیٹھتے ہیں‘ جس سے مریض اور اُن کے گھر والوں کوناگوار محسوس ہوتا ہے ‘لیکن اظہار نہیں کرپاتے یا انہیں تیماردار کی تواضع کرنی پڑتی ہے ‘تو اس سے بھی حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے ۔ بعض حضرات طرح طرح کے علاج تجویز کرتے ہیں ‘بعض خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے احوال بیان کرتے ہیں ‘ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ بس ‘ مریض کے لیے صحت کی دعا اور امید افزا باتیں کرنی چاہئیں۔