دینی مدارس وجامعات پرامن تعلیمی ادارے ہیں۔ ان کی کل پانچ تنظیما ت ہیں ‘ اپنے سائز یعنی مدارس وجامعات اور طلبہ وطالبات کی تعداد کے اعتبار سے دوسری بڑی تنظیم''تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان ‘‘ہے ۔حال ہی میں میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہاتھا اور بعض وزرا بھی ایسے بیانات دے رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمن دینی مدارس کے طلبہ کو اپنی تحریک کا ایندھن بنانے جارہے ہیں ۔ ہم نے ان موہوم خدشات کے ازالے کے لیے واضح بیان دیا کہ ہم تعلیمی ادارے ہیں‘ہمارا کام تعلیم وتعلُّم ہے ‘ ہم نصاب مقرر کرتے ہیں‘ اس کے تحت پاکستان بھر میں اپنے ملحق اداروں میں امتحانات منعقد کرتے ہیں اور کامیاب طلبہ وطالبات کو اَسناد وشہادات جاری کرتے ہیں‘ حکومتوں کو تخت پر بٹھانا یا گرانا نہ ہمارا منشور ہے ‘ نہ ہمارا ایجنڈاہے‘ نہ ہدف ۔ اس سلسلے میں ظاہراً و باطناً ‘لفظاً و معناً ہمارا موقف ایک ہی ہے اوربالکل واضح ہے۔اس میں کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس حوالے سے میرا انٹرویو پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہوچکا ہے‘اداروں کے پاس بھی ہے اور ہم اپنے فیس بک پیج پر بھی اَپ لوڈ کرچکے ہیں اور ملک کے اندراورباہرسوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں ۔
ہمارے دستور کے مطابق آئندہ پانچ سال کے دورانیے کے لیے ہمارے انتخابات منعقد ہورہے تھے ‘ آزاد کشمیر‘ صوبۂ سندھ اور بلوچستان میں ہمارے حمایت یافتہ حضرات بلامقابلہ آئے ‘ صوبہ خیبرپختونخوا میں مقابلہ ہوا ‘لیکن جیتنے اور ہارنے والے دونوں فریق ہمارے حامی تھے اور ہیں ۔جنوبی پنجاب میں مقابلہ ہوا‘ وہاں بھی دونوں پینل اعَلانیہ طور پر ہمارے حامی ہیں ‘ صرف شمالی پنجاب میں مخالفین نے مقابلہ کیا اور انہیں بمشکل پندرہ فیصد ووٹ ملے۔
13اکتوبر کو ہمارے مرکزی انتخابات تھے اور ان کے لیے انتخابی مرکز جامعہ فریدیہ ساہیوال مقرر کیا گیا تھا۔ انتخابات سے ایک دن قبل سرِ شام ڈی سی ساہیوال نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا کہ ''جامعہ فریدیہ‘‘ ساہیوال میں انتخابات منعقد نہیں ہوسکتے ‘کیونکہ بے امنی اور انتشار کا خطرہ ہے۔ میں نے اعلیٰ ادارے کے سربراہ سے براہِ راست رابطہ کیا کہ ہم پرامن لوگ ہیں ‘ہمارے انتخابات پر امن ہوں گے اور انتظامیہ کو ہمارے انتخابی معاملات میں دخل دینے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ان کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ اگر اُن سے درخواست کی جائے تو ضرورت کے مطابق سکیورٹی فراہم کریں اور جو فساد کرے‘ اُسے گرفتار کر کے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ہم سے کہا گیا کہ تنظیم المدارس کے انتخابات آپ کا پرائیویٹ معاملہ ہے‘ ریاستی اداروں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘لیکن بدقسمتی سے یہ وعدہ وفا نہ ہوا اور ضلعی انتظامیہ نے جامعہ فریدیہ کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا کہ آپ اپنے ادارے میں انتخابات منعقد نہیں کراسکتے ۔ ہم نے 12اکتوبر کی رات کو کمشنر ساہیوال سے تفصیلی میٹنگ کی ‘ اس میں ڈی پی او بھی موجود تھے ‘ ہم نے کمشنر اور ڈی پی او ساہیوال سے یہ بھی کہا کہ ہم ہرقسم کی تحریری یقین دہانی دینے کے لیے تیار ہیں‘نیز وہ چاہیں تو اپنا مبصر بھی بٹھاسکتے ہیں تاکہ آپ کو تسلی ہو کہ انتخابی عمل شفاف ہورہا ہے ‘ لیکن وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے‘ ہمیں یہ تاثر دیا گیا کہ اس کے پیچھے ہوم سیکرٹری پنجاب اور شاید اسلام آباد کی کوئی بااختیار شخصیت ہے ‘ واللہ اعلم بالصواب۔
چونکہ ہمارے پاس قطعی شواہد نہیں ہیں‘ اس لیے ہم محض قیاسات کی بنا پر کسی پر الزام لگانا مناسب نہیں سمجھتے‘ حقیقتِ حال کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ‘ بہرحال یہ ضرور ہے کہ کسی بااختیار شخصیت کے حکم ‘ اشارے یا آشیر باد کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا تھا‘ لیکن یہ ہوا۔اس دوران ہمارے لوگ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سے عازمِ سفر تھے ‘ بعض پہنچ چکے تھے ‘ بعض کواتوار کی صبح مختلف ٹول پلازوں اور ناکوں پر روکا جارہا تھا‘ لیکن جو کسی طرح اپنی گاڑیاں پیچھے چھوڑ کر اور دور دورسے پیدل چل کرپہنچے‘ ان کے نام ‘عہدے ‘اداروں کے نام ‘ قومی شناختی کارڈ نمبر ‘موبائل نمبر‘ انگوٹھا اور دستخط تمام چیزیں ہمارے پاس ریکارڈ ہیں‘ اس ریکارڈ کو شخصی طور پر بھی اور نادرا سے بھی چیک کرایا جاسکتا ہے۔ہماری شوریٰ کے کچھ ارکان کو کسی بھی صورت میں ساہیوال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور انہیں حاضری کا اندراج کیے بغیر واپس ہونا پڑا۔تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے الیکشن کمیشن نے بامرِ مجبوری الیکشن کو غیر معیّنہ مدت کے لیے ملتوی کیا اور موجودہ عہدیداروں کو تاحکمِ ثانی کام جاری رکھنے اور منتخب صوبائی عہدیداروں کو فعال کرنے کا حکم جاری کیا۔
ہمارے دستور میں ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار ہماری تنظیم کا عہدیدار نہیں بن سکتا‘ کیونکہ یہ تنظیم کے لیے تباہ کن ہوگا اور تنظیم ایک دھڑے کے تابع ہوکر اس کی آلۂ کار بن جائے گی‘ اس لیے روزِ اول سے ہمارایہی شعاررہا ہے کہ تنظیم کو ہر قیمت پر سیاست زدہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ ہمارے روحانی مراکز غزالیٔ زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ادارہ اور خانوادہ‘ محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے سجادہ نشین‘ پیر صاحب پگارا شریف کی زیرنگرانی جامعہ راشدیہ پیر جو گوٹھ اوران کے تمام ذیلی اداروں کاہماری تنظیم کے ساتھ الحاق ہے‘ علامہ ابوالخیر پیر سید حسین الدین شاہ صاحب بانی وسربراہ جامعہ رضویہ ضیاالعلوم راولپنڈی تنظیم کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔
اس سال فیصل آباد کے صاحبزادہ حامد رضاتنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کو اپنے سیاسی مقاصد اور مہم جوئی کے لیے استعمال کرنے کی خاطر اچانک منظر عام پر آئے اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہ تاثر دیا کہ غیبی طاقتیں میری پشت پر ہیں ۔ وہ چند غیر متعلقہ فسادی عناصر بھی لے کر آئے تاکہ تصادم پیدا کر کے انتخابات کو بدنام یا ملتوی کراسکیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہمارے علما پرامن رہے اور اُن کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیاگیا ‘یہ اُن کے لیے انتہائی مایوس کن پیغام تھا‘ کیونکہ ہماری سخت تاکید تھی کہ زیادتی کے باوجود پرامن رہا جائے۔
الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! اہلسنت وجماعت کے دینی مدارس وجامعات کی نوّے فیصد اکثریت آج بھی ہمارے ساتھ ہے‘ وہ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کو سیاست سے پاک رکھنا چاہتے ہیں‘ گروہی سیاست سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے اور اس کے لیے باہمی اتحاد واتفاق سے ہر ممکن مزاحمت کریں گے ۔ہماری رائے میں مقتدرہ نے ہمارے مرکزی انتخابات کو غیر قانونی طور پر اور جبراً رکوا کر دانستہ یا نادانستہ مولانا فضل الرحمن کے ایجنڈے کو تقویت دی ہے‘کیونکہ اُن کا موقف یہی ہے کہ انتظامیہ غیر قانونی طور پردینی مدارس وجامعات کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور ان کی آزادی کی راہ میں حائل ہے اوراپنے دستور کے مطابق کام کرنے میں اُن کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے ‘ یہ پیغام اتنا واضح ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
آپ اندازہ لگائیے کہ ملک بھر سے انتہائی جیّد علما یعنی دینی مدارس وجامعات کے مہتممین وناظمین طویل سفر طے کر کے تنظیم کے مرکزی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آئے اور انہیں مایوس واپس لوٹنا پڑا‘ کیا اس سے حکومتِ وقت کے بارے میں علمائے کرام کی صفوں میں بد دلی نہیں پھیلے گی ؟اس سے پہلے پانچ دہائیوں پر مشتمل ہماری پوری تاریخ میں کبھی بھی انتظامیہ نے ہمارے معاملات یا انتخابات میں کسی بھی طور پر دخل نہیں دیا۔ مختلف ادوار میں مختلف سول اور فوجی حکومتیں رہیں ‘لیکن کسی نے ہمارے معاملات میں دخل نہیں دیا ۔صرف موجودہ دورمیں ہمارے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا ہے جو انتہائی تکلیف دہ ہے ‘اس سے ملک بھر میں دینی مدارس وجامعات اور علما میں حکومت کے حوالے سے بدگمانی پیدا ہورہی ہے ۔
میں نہایت دردِ دل کے ساتھ وزیرِ اعظم پاکستان جنابِ عمران خان ‘ چیف آف آرمی سٹاف جنابِ جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام اربابِ حَلّ وعَقد اور اربابِ اختیار سے یہ دردمندانہ التجا کر رہاہوں کہ ڈی سی ساہیوال کے توسط سے کی گئی اس کارروائی اور کوشش کی تحقیق کی جائے اور اس کے پیچھے جو بھی قوت کارفرما ہے ‘ اس کا محاسبہ کیا جائے‘ ورنہ موجودہ حساس وقت میں اس کے نتائج افسوس ناک ہوں گے اور ہمارے دینی مدارس وجامعات اور علما کے لیے تو ویسے ہی انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہیں۔ کیا اس ریاست میں کوئی دردِ دل رکھنے والا بااختیار ہے جو ہماری فریاد کو سنے اور ہماری مشکلات کا ازالہ کرے اور سیاسی عناصر کو مذموم کھیل نہ کھیلنے دے ؟ اہلسنت وجماعت کے تمام دینی مدارس وجامعات تو دور کی بات ہے‘ اگرکسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ ان کی ایک محدود تعداد بھی ان سے جڑنا چاہتی ہے‘ تو وہ حکومت کی اجازت سے اپنا ادارہ بنالے اور اپنا شوق پورا کرلے ‘ لیکن ہماری تنظیم کو تباہ وبرباد کرنے کا شوق ترک کردے‘ اس کی حفاظت کے لیے اہلسنت وجماعت کے تمام علمائے کرام اور دینی مدارس وجامعات سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوں گے ۔
ہم ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حکومتِ وقت سے نہ ہمارا کوئی تصادم ہے اورنہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ ہمارا اختلاف واتفاق دینی معیار پر مسائل کے حوالے سے ہوتا ہے اور دینی مدارس وجامعات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے‘جو ہمیشہ بحث وتمحیص کے بعد حل ہوتا رہا ہے اور کبھی بھی ہم بند گلی میں نہیں پہنچے ۔اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمیں مکالمے کے عمل میں شریک رہی ہیں اور ہمیشہ ہم نے کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکالنے میں مدد کی ہے تاکہ ریاست کے لیے بھی مسائل پیدا نہ ہوں اور دینی مدارس وجامعات بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ حکومت بھی ہمیشہ یہی کہتی رہی ہے کہ ہم نہ دینی مدارس وجامعات کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں اور نہ اُن کی آزادی فکروعمل پر کوئی قدغن لگانا چاہتے ہیں ۔ امید ہے کہ موجود ہ حکومت بھی اپنے اس پیمان پر لفظاً ومعناً عمل کرے گی۔ہم تمام با اختیار اور ذمے دار مناصب پر فائز شخصیات سے استدعا کرتے ہیں کہ ہماری تشویش کا ازالہ کیا جائے اور ہمارے مسائل کو احسن طریقے سے حل کیا جائے۔