"MMC" (space) message & send to 7575

دین اور معاملات میں میانہ روی …(حصہ اول)

کسی بھی عقیدے ‘مسئلے اوررویے میں دو انتہائیں ہوتی ہیں ‘ایک کو اِفراط کہتے ہیں اور دوسری کو تفریط۔ اِفراط کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا ‘ کسی کے مقام کو بیان کرنے میں مبالغہ کرنااور تفریط کے معنی ہیں: کمی کرنا اورکسی کو اس کے مرتبے سے گرانا ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا:نبی ﷺ نے فرمایا:'' میری شان میں غلو نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کی شان میں غلو کیا ہے (یعنی انہیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا)‘پس میں اللہ کا بندہ ہوں (خدا نہیں ہوں)‘سو تم یہ کہو: اللہ کے بندے اور اس کے رسول‘ (بخاری: 3445)‘‘۔ غلو کے معنی ہیں:شان بیان کرنے میں حد سے تجاوز کرنا‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے اہلِ کتاب !تم اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو‘ (النسآئ: 171) ‘‘۔ اہلِ کتاب نے دین کے معاملات میںاِفراط وتفریط سے کام لیا ‘اِفراط اورغلو کوانگریزی میںبالترتیب Excessivenessاور Exaggeration سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ اہلِ کتاب میں سے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تفریط اور تنقیص سے کام لیا‘ آپ کی نبوت کا انکار کیا اورآپ کی والدۂ ماجدہ عفیفہ طیبہ طاہرہ سیدہ مریم رضی اللہ عنہاپر تہمت لگائی اورنصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام کے بارے میں حد سے تجاوز کیااور انہیں مقامِ بندگی سے اٹھاکر مقامِ الوہیت تک پہنچادیا حتیٰ کہ ''ابن اللہ ‘‘ کہا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اَحَد ہے‘ وحدہٗ لا شریک ہے ‘ اسے مرکّب مان کر کئی ذوات (اقانیم )کا مجموعہ قرار نہیں دے سکتے‘ جیساکہ نصاریٰ نے ذاتِ باری تعالیٰ کے تین اجزاء کیے ‘یعنی مقدس باپ‘ مقدس بیٹا اور روح القدس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مقدّس بیٹا قرار دے دیا۔اسی روش کوبعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اختیار کیا‘ حدیث پاک میں ہے:''حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا: (میری اُمت میں)تمہاری مثال بنی اسرائیل کے عیسیٰ (علیہ السلام)جیسی ہے کہ یہود نے ان سے بغض رکھا حتیٰ کہ ان کی ماں (حضرت مریمؑ)پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے اُن سے محبت میں غلو کیاحتیٰ کہ انہیں اس مقامِ (اُلُوہیت )پر فائز کردیا جو اُن کا نہیں تھا‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بارے میں دو طرح کے اشخاص (اپنے دین میں )ہلاکت سے دوچار ہوں گے‘ ایک وہ جو حقیقت کے برخلاف میری محبت میں حد سے تجاوز کرے گااور دوسرا وہ جو میری عداوت میں حد سے زیادہ بغض رکھے گا یہاں تک کہ مجھ پر بہتان باندھے گا‘ (مسند احمد:1376)‘‘۔ 
مسلمانوں میں خوارج کا ایک غالی اور انتہا پسند فرقہ پیدا ہوا ‘انہوں نے بظاہر ''تَصَلُّب فِی الدِّینْ‘‘کا شعار اختیار کیا ‘ لیکن اس کی آڑ میںمسلمانوں کی تکفیر شروع کردی حتیٰ کہ حضرت علی ؓکو بھی معاف نہ کیا‘ حدیث پاک میں ہے:''اس اُمت میں ایک قوم نکلے گی ‘وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں حقیر جانو گے‘ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘وہ (اس تیزی کے ساتھ )دین سے نکلیں گے جیسے تیر شکار کو چیر کر نکل جاتا ہے‘پس تیر مارنے والا اپنے تیر کوہر طرف سے دیکھتا ہے تو اُسے اس پر خون کا کوئی دھبا نظر نہیں آتا ‘ (بخاری:6931)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کر کے فرمایاکہ از اول تا آخراس کے کسی بھی حصے پر خون کا دھبا نہیں لگتا اور یہ اس کی کاٹ اور تیز رفتاری کی دلیل ہے ‘یعنی وہ اتنی تیز رفتاری سے دین سے نکل جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا قول ہے: ''خوارج اللہ کی بدترین مخلوق ہیں ‘وہ انتہا پسندی میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ قرآنِ کریم کی وہ آیتیں جو کفار کے بارے میں نازل ہوئیں‘ انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرنے لگے‘‘۔ اس کی نظیریں اب بھی مل جاتی ہیں: مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ اور اولیائے کرام سے جو عقیدت ہے‘ اس کو نشانہ بنانے کے لیے بعض لوگ توحید کی آڑ میں مشرکین اوربتوں کے بارے میں نازل کی گئی آیات کو اللہ تعالیٰ کے رسولوں ‘ اولیائے کرام اور عام مسلمانوں پر چسپاں کردیتے ہیں۔ الغرض خوارج حضرت علیؓ کی شان میں تفریط اور تنقیص کے مرتکب ہوئے اور بعض غالی فرقے ‘جیسے نُصیری عَلَوی ‘حضرت علیؓ کی الوہیت کے قائل ہوگئے‘ یہ اُن کی شان میں غلو اور اِفراط ہے۔
نماز ایک تو انفرادی ہوتی ہے ‘ اس میں شریعت نے طویل قرأ ت ‘قیام اور رکوع وسجود کو قابلِ تحسین قرار دیا ہے اور سورۂ مُزَّمِّلمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرّم اور بعض صحابہ کے تہائی رات یا نصف رات یا دو تہائی رات تک قیام کو مقامِ مدح میں ذکر فرمایا ہے‘ سو جب تک کہ طبیعت پر گراں نہ گزرے اوردل سکون وقرار محسوس کرے ‘انفرادی نماز کو طول دینا ہمیشہ اللہ والوں کا شعار رہا ہے‘ لیکن رسول اللہ ﷺ نے باجماعت نماز میں لوگوں پر گراں گزرنے والی طوالت کو ناپسند فرمایا‘ کیونکہ جماعت میں مختلف عمروں ‘ ہمتوں ‘ اَحوال اور استعداد کے لوگ شامل ہوتے ہیں ‘ پس اُن سب کی رعایت لازم ہے : (1)''حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں‘کیونکہ فلاں امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے‘ پس رسول اللہ ﷺ بہت سخت غضب ناک ہوئے‘ میں نے آپ کو کسی اور موقع پر اس دن سے زیادہ غضب میں نہیں دیکھا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض لوگوں کو(دین سے) متنفر کرنے والے ہیں‘ پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے‘ وہ اختصار سے کام لے ‘ کیونکہ اس کے پیچھے کمزور‘ بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں‘ (بخاری:704)‘‘۔اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: '' اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہااپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘ (بخاری:703)‘‘۔ 
(2)''حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص پانی لانے والی اپنی دو اونٹنیوں کے ساتھ آیااور رات کی تاریکی پھیل چکی تھی‘ اس نے حضرت مُعاذؓ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا تو اپنی اونٹنیاں چھوڑ کر نماز میں شامل ہوگیا‘حضرت مُعاذ نے سورۃالبقرہ یا سورۃ النساء کی تلاوت شروع کردی ‘ پس وہ شخص چلا گیااوراُسے خبر پہنچی کہ حضرت مُعاذؓاس سے ناراض ہوئے ہیں‘ پس وہ شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت معاذؓ کی شکایت کی تو نبی ﷺ نے تین بارفرمایا: مُعاذ!تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہو‘ تم نے سورۃ الاعلیٰ ‘ الشمس اور اللیل کیوں نہ پڑھ لی‘ کیونکہ تمہارے پیچھے بڑی عمر والے ‘کمزور اور کام کاج پر جانے والے لوگ کھڑے ہوتے ہیں‘ (بخاری:705)‘‘۔ 
یہ امر ملحوظ رہے کہ عہدِ رسالت مآبﷺ کامختصر قیام ‘رکوع اورسجود بھی ہماری نسبت طویل ہوتے تھے‘ احادیثِ مبارکہ میں آپ ﷺ کی مختلف اوقات کی نمازوں میں آپ کی قرأ ت کی کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ لیکن آپ ﷺ نے انفرادی نماز کی طوالت کو پسندیدہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ تفریط پر وعید بھی فرمائی ہے:''حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں منافق کی نماز کے بارے میں نہ بتادوں؟‘ وہ عصر کی نماز کو مؤخر کرتا چلا جاتا ہے ‘یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے‘پھر وہ (جلدی سے) اٹھتا ہے اور مرغے کی طرح ٹھونگیں مارتا ہے(یعنی جلدی جلدی رکوع وسجود کرتا ہے)‘ اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے‘ (مسند احمد:13589)‘‘۔ خلاصہ یہ کہ باجماعت نماز کو متوازن ہونا چاہیے تاکہ سب لوگوں کے احوال کی رعایت ہو اور انفرادی نماز خشوع و خضوع کی کیفیات کے ساتھ جتنی طویل پڑھ سکتا ہو‘ پڑھے ‘ یہ پسندیدہ بات ہے۔ مگر خشوع وخضوع اور ریاکاری دو متضاد چیزیں ہیں: 
''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ‘اس وقت ان کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی‘ آپ ﷺنے پوچھا: یہ کون ہے‘ حضرت عائشہ ؓنے عرض کی: یہ فلاں عورت ہے ‘ اس کی(خشوع وخضوع پر مبنی) نماز کا بہت چرچا ہے‘ آپ ﷺنے فرمایا:رکو‘ تم اپنی طاقت کے مطابق پابندی سے عبادت کرتے رہا کرو‘ پس اللہ کی قسم! اللہ تم سے اپنے فضل کو نہیں روکتا جب تک کہ تم عبادت کرتے کرتے اکتا نہ جائو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت وہ ہے جس پر عبادت کرنے والاہمیشگی کرے‘ (بخاری:43)‘‘۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ عبادت میں توازن ہو ‘ ایک یا چند دن لمبی نمازیں پڑھنا اور پھر نماز کو ترک کردینے سے بہتر ہے کہ نماز کا نظام الاوقات متوازن ہو ‘لیکن اس میں ہمیشگی ہو۔ ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص بھی دین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘دین اس پر غالب آجائے گا‘ پس تم درست کام کرتے رہو اور درستی کے قریب تر رہواور (جنت کی) خوش خبری دو اور صبح کے وقت اور شام کے وقت اور رات کے کچھ اندھیرے میں پابندی سے عبادت کیا کرو‘ (بخاری:39)‘‘۔ 
آپ ﷺ خود بھی نماز میں لوگوں کی کافی حد تک رعایت فرماتے تھے ‘اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے: ''حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: (کبھی)میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں کہ اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں ‘تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں ‘کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا‘ (مسند احمد:12067)‘‘۔جب باجماعت نماز میں امام کو تاکید ہے کہ لوگوں کے احوال کی رعایت کرے‘ تو پھر ''دعا بعد الصلوٰۃ‘‘میں بدرجۂ اَولیٰ لوگوں کی رعایت ہونی چاہیے ۔ہمارے ہاں بعض آئمۂ کرام اس سے غافل ہیں ۔نماز کے بعد دعا سنت ومستحب ہے‘ لیکن اگر فرض نمازکے بعد سنتیں ہوںتو فقہائے کرام نے مختصر دعا کرنے کے لیے کہا ہے‘ کیونکہ سنتیں فرض کے ساتھ لاحق ہوتی ہیں‘ اس کے تابع ہوتی ہیں اور اس کی تکمیل کا سبب ہیں‘ تو ان میں زیادہ فصل نہیں ہونا چاہیے‘ البتہ سنتوں اور نوافل وغیرہ کے بعد طویل دعا اور اذکار وتسبیحات پڑھنا مستحسن ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں