گزشتہ چند کالم ہم نے دینی موضوعات پر لکھے تاکہ وہ قارئین جو خراباتِ سیاست سے اُکتا جاتے ہیں‘ اُن کے لیے کسی گوشۂ عافیت کا اہتمام کیا جائے۔اس دوران ایک فلم ''زندگی تماشا‘‘ کا چرچا ہوا‘ اس کے خلاف دینی طبقات نے پرزوراحتجاج کیا اور احتجاجی مارچ کی کال بھی دی۔ دوسری طرف سٹوڈیوز میں رونق افروز لبرل دانشوروں نے آزادی ٔاظہار کی آڑ میں اس کے حق میں آوازیں بلند کرنا شروع کیں تو ہماری تشویش میں اضافہ ہوا اور اضطراب کی لہریں محسوس کی جانے لگیں‘ کیونکہ مغرب میں توہینِ رسالت‘ توہینِ قرآن اور توہینِ مقدّسات وشعائرِ دین کی جو نفرت انگیز کارروائیاں کی جاتی ہیں‘ وہ بھی آزادی ٔاظہار کی آڑ میں ہوتی ہیں‘ گویا آزادیِ اظہار تمام مقدّسات سے زیادہ مقدس ومحترم ہے اور اس کی خاطر ہر تقدیس وحرمت کو پامال کرنا لبرل ازم کی شریعت میں روا بلکہ ناگزیر ہے۔
جب بھی اس طرح کی کارروائیاں منظر عام پر آتی ہیں تو اس کے ڈورے کہیں نہ کہیں مغرب سے جاملتے ہیں۔ مغرب کے مالیاتی بحرِجودوعطاسے فیض یافتہ بعض این جی اوز اُن کی پشت پناہی شروع کردیتی ہیں ۔ یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے مغرب کی مالی امداد اور پشت پناہی سے این جی اوز کا ایک سیلاب رواں دواں ہے۔ کیری لوگر بل کی چار ارب ڈالر کی امداد میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اُس کا ایک مُعتد بہ حصہ سوِل سوسائٹی کے ذریعے پاکستان میں استعمال کیا جائے گااور ہر ایک جانتا ہے کہ پاکستان میں نام نہاد سوِل سوسائٹی کے روحِ رواں اور کرتا دھرتا کون لوگ ہیں اور کس طرح کے طبقات ہیں‘ پھر ہمارا لبرل میڈیا اس کا پشتیبان ہوتا ہے۔ آج کل ہمارا الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا مسلسل شاکی رہتا ہے کہ بعض غیر مرئی پابندیاں ہیں ‘ جن کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں کیا جاتا ‘ ''نکّے دے ابا‘‘والی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن بزعمِ خویش نظر نہ آنے والی پابندیوں میں جکڑے ہوئے میڈیا کو ایک شعبے میں کھُل کھیلنے کی مکمل آزادی ہے اور وہ ہے مذہب کا میدان ۔
ہم نے تو مذکورہ فلم کے کلپس نہیں دیکھے‘ لیکن جو کچھ ہمیں بتایا گیا ہے ‘وہ یہ ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کی آڑ میں مذہبی علامات‘ دینی شعائر اور اس کے متعلقات کو اجاگر کیا گیا ہے ۔مدرسہ ‘متعلّم‘ معلّم اور ماں کا مقدّس رشتہ‘ ان چیزوں کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جرم کوئی بھی ہو ‘برائی کسی سے اور کہیں بھی سرزد ہو‘اس کی پرزور مذمت کی جانی چاہیے‘ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی لازم ہے اور ایسے سماجی مجرموں کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے ۔لیکن ایک فرد کے حوالے سے ایک پورے طبقے یا دینی شعائر کو ہدف بناکر فلمیں بنانا یہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے‘ یہ کسی نہ کسی درجے میں عصبیت بھی ہے‘ جو لوگ دین ومذہب کو براہِ راست نشانہ نہیں بناسکتے‘ وہ دینی علامات اور اس سے وابستہ شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں‘ یہ ویسا ہی ہے جیسا مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی اسلامی شناخت یا اسلامی نام کا حامل شخص جرم کرتا ہے ‘تو اُسے فرد کا جرم قرار دینے کے بجائے کسی تاخیر کے بغیر اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اس شخص کانسلی تعلق اگر کسی مسلم ملک سے ہے تو پورے ملک اور قوم کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘ بلکہ اگر مسلم ملک سے تعلق نہ بھی ہو توضرور کھوج لگائی جاتی ہے کہ یہ شخص کبھی کسی مسلم ملک میں گیا تو نہیں یا یورپ وامریکا کے کسی اسلامی مرکز میں اس کا آنا جانا تو نہیں رہا۔ذرا سی کوئی خفیف سی علامت مل جائے تو اس کو بنیاد بنالیا جاتا ہے ۔لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ اس فلم کو بار بار سینسر کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے‘بلکہ اسے ممنوع قرار دیا جائے اور ایسی فلموں پر پابندی عائد کی جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مختلف شعبہ جات میں اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے‘ لیکن کیا پورے شعبے کو کبھی نشانہ بنایاجاتا ہے‘بلکہ گزشتہ ہفتے ہی ایک مجسٹریٹ پر ایک خاتون سے دست درازی کا الزام لگایا گیا‘ تو کیا اس پر فلم بنائی جائے گی ؟ اگر ایسا نہیں کیا جاتا اور نہ کیا جانا چاہیے تو مذہبی اداروں اور علامات کوخاص طور پر ہدف بنانے کا جواز کیا ہے ؟ صرف انتہاپسندی کی مذمت کرنا کافی نہیں ہے ‘ بلکہ اس کے اسباب کی بھی کھوج لگانی چاہیے‘ اس کے محرّکات کا بھی پتا چلانا چاہیے۔ خود میڈیا میں رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ ہماری جدید ترین یونیورسٹیاں منشیات کی مختلف اقسام کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ ہمارے علم میں ایسی مثالیں ہیں کہ انتہائی ذہین طلبہ انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے ‘ان کا ریکارڈ بہت اچھا تھا‘ لیکن آج وہ منشّیات میں مبتلا مریضوں کے ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ چند ہفتے پہلے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بعض قوم پرست طلبہ نے ایک طلبہ تنظیم کے کتب میلے میں براہِ راست فائرنگ کر کے مخالف طلبہ کو جاں بحق اورزخمی کیا۔
اگر مدرسہ جاتے ہوئے کسی بچی کو خدانخواستہ اغوا کرلیا جائے تو اس کی نسبت بھی مدرسے سے قائم کرلی جاتی ہے‘ لیکن اگر سکول‘ کالج یا یونیورسٹی جاتے ہوئے ایسا واقعہ ہوجائے تو اسے محض اغوا یا اغوا برائے تاوان یا اغوا برائے دست درازی کے واقعے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ کسی محترمہ نے مطالبہ کیا کہ مدارس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں‘ اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جہاں جہاں وسائل دستیاب ہیں ‘ایسا انتظام کیا جاتا ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ حفاظتی تدبیر کے طور پر یہ ایک ضرورت ہے ‘ ہاں! اگر حکومت خود یہ سہولت فراہم کرنا چاہے تو ہم خوش آمدید کہیں گے‘ لیکن کیا یہ مطالبہ دوسرے اداروں کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؟
ہم تو ہمیشہ متوجہ کرتے ہیں کہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی شعبے میں خدانخواستہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات رونما ہوجائیں‘ تو میڈیا کئی کئی دن اُن کو مختلف زاویوں سے ہائی لائٹ کرتا ہے ‘اس سے وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو شعوری عمر میں داخل ہورہے ہوتے ہیں یا اس کی سرحد پر ہوتے ہیں‘ اُن کے ذہنوں میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو جاننے کے درپے ہوجاتے ہیں‘ جیسا کہ پہلی بار لوگ نشہ آور چیزوں کی طرف اس تجسس میں قدم بڑھاتے ہیں کہ آخر ان میں کیا ایسی کشش ہے کہ لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں‘ خواہ وہ مشروبِ نجس کا پہلا گھونٹ ہو‘ سگریٹ یا ہیروئن کا پہلا کش ہویااس طرح کی دیگر اشیا‘ لیکن پھر ہلاکت وبربادی کے اس کُوچے سے صحیح سلامت واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔جو لوگ پہلے سے اس لَت میں مبتلا ہوتے ہیں‘ انہیں بھی اپنے مزید ساتھیوں کی تلاش ہوتی ہے۔بدکاری کے حوالے سے ماں باپ‘ بہن بھائیوں یا دیگر قابلِ احترام رشتوں کا حوالہ آجائے یا شوہر اور بیوی ‘باپ بیٹا یا بہن بھائیوں کے قتل کے واقعات رونما ہوجائیں ‘ اُن کی مسلسل تشہیر پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ میڈیا میں دینی ‘ نفسیاتی اور سماجی ماہرین کی ایک ٹیم ہونی چاہیے جو ان واقعات کی تشہیر کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی وضع کرے تاکہ معاشرے میں اُن کے پھیلائو کو حتی الامکان روکا جاسکے۔جب صرف پی ٹی وی تھا ‘تو 1980ء کے عشرے میں بعض کلاسیکل ڈرامے نشر ہوئے ‘ وہ سماجی یا اصلاحی موضوعات پر ہوتے تھے‘ اشفاق احمد خان مرحوم کے پروگرام ''زاویہ‘‘کا اب بھی حوالہ دیا جاتا ہے ‘ لیکن بتایا گیا ہے کہ اب جو ڈرامے ہیں ‘ ان کا عام معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ بس فریبِ نظر‘ آوارگی ‘ رشتوں کی بے حرمتی اور جنسی تلذُّذ پر مبنی ہوتے ہیں‘ بعض ڈرامے ہندو تہذیب سے متاثر ہوتے ہیں ‘بعض میں ہندی فلموں اور ڈراموں کے الفاظ کو استعمال کر کے اپنی زبان کے بگاڑ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی تحدید وتوازن یا تقطیر (Filtration)کاکوئی انتظام ہونا چاہیے‘ کیونکہ ہمارے ہاں یہ میڈیا نفرت انگیزی اور کسی ثبوت کے بغیر تہمت زنی اور الزام تراشی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے اور شرفاء کے لیے اپنی عزت بچانا مشکل ہوگیا ہے‘ نیز اسی سوشل میڈیا کو تضحیک اور استہزا کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہماری یورنیورسٹیاں صرف مشینی انسان پیدا کرتی ہیں ‘جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک مفید پرزے کے طور پر کام کرسکیں‘ جو لوگ آئے دن دینی مدارس وجامعات کو کوستے رہتے ہیں‘ اُن سے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ یونیورسٹیاں جن پر قومی خزانے سے یا طلبہ وطالبات کی ادا کردہ فیسوں کے ذریعے اربوں کھربوں روپے خرچ ہورہے ہیں ‘وہ علوم وفنون کے مختلف شعبوں میں ایجاد کرنے والے ذہن بنانے میں کیوں ناکام ہیں‘ جدید علوم وفنون اور تحقیقات وایجادات میں ایسی کتنی مثالیں ہیں ‘جن میں ہمارے لوگوں نے انسانیت کو کوئی تحفہ دیا ہواور ملک کا نام روشن کیا ہو۔ یہی نوجوان جب ملک سے باہر جاتے ہیں تووہاں ان کی صلاحیتیں نکھر آتی ہیں‘ تخلیقی ذہن کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں ‘ لیکن پھر وہ بہتر حالاتِ زندگی کے لیے مغربی معاشرے میں جذب ہوجاتے ہیں‘ کیونکہ یہاں انہیں مناسب ماحول اور شایانِ شان تکریم میسر نہیں آتی۔ لاہور میں پنجاب گورنمنٹ کے کڈنی سینٹر میں ایک انتہائی ماہر ڈاکٹر امریکا سے مراعات اور آسائشیں چھوڑ کر آئے اور ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے ان کی تذلیل کر کے اپنے انا کو تسکین بخشی‘ انہوں نے وطن کی طرف مراجعت کے خواہش مند دوسرے ماہرین کو یہی پیغام دیاہوگا :
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے