(۱)''حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ایک دن نبی ﷺ گھر سے باہر نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں سے ایک آپ کی دائیں طرف تھے اور دوسرے بائیں طرف تھے اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن اسی طرح اٹھائے جائیں گے‘‘ (ترمذی:3669)۔ (۲)''حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا: تم میرے حوض پر بھی صاحب ہو اور غار میں بھی صاحب ہو‘ ‘( ترمذی: 3670)۔ (۳)''حضرت عبداللہ بن حنطب بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھ کر فرمایا: یہ میری آنکھیں اور کان ہیں‘‘ (ترمذی:3671)۔ (۴)''حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لیے امام بننا سزاوار نہیں ‘‘ (ترمذی:3673)۔ (۵)'' حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس ابھی ابھی جبریل آئے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یارسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؛ حتیٰ کہ میں بھی اس دروازے کو دیکھوں‘ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر!سنو! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے‘‘ (سنن ابودائود:4652)۔ (۶)''حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا‘ صحابہ نے عرض کی : حضرت ابوبکرؓ کی رائے صحیح ہے ‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں ہے‘‘(مجمع الزوائد‘ ج:9ص:46)۔
اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق کے کئی امتیازات واختصاصات ہیں‘ جن میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے‘ ان میں ایک سفرِ ہجرت اور غارِ ثور کے تین دن اور تین راتیں ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ جوڑ کر ''اِثْنَیْن‘‘ (دو) سے تعبیر فرمایااور سورۂ توبہ میں غارِ ثور کے منظر کو اِن کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا :''دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ‘ جب وہ اپنے صاحب سے فرمارہے تھے :غم نہ کرو ‘بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘پس اللہ نے اُن پر قلبی طمانیت نازل فرمائی‘‘۔اس آیت میں قرآنِ مجید کا کمالِ اعجاز ہے کہ رسول کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ذکر ایک ساتھ فرمایا اور یہ ذکرِ مبارک اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ آیت کے ایک حصے میں دونوں کا مختلف انداز میں چھ چھ بار ذکر فرمایا‘اس کی تفصیل یہ ہے: تین مقامات میں دونوں کا ذکر ایک ہی کلمے میں ہے اور وہ ہیں:(۱)'اِثْنَیْن‘‘(۲)ضمیرِ تثنیہ'ھُمَا‘(وہ دونوں)‘ (۳) 'مَعَنَا‘ (ہمارے ساتھ)میں ضمیر جمع متکلم۔ تین مقامات میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر جدا ہے: (۱)'ثَانِیْ‘‘(۲) 'یَقُولُ‘ صیغہ واحد غائب‘ (۳) 'لِصَاحِبِہٖ‘ میں 'ہ‘ضمیرِ متصل‘ اس کا مرجع رسول اللہ ﷺ ۔اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر بھی تین مقامات پر جدا ہے : (۱) 'لِصَاحِبِہٖ‘میں 'صاحب‘ سے مراد صدیقِ اکبر ہیں‘ (۲) 'لَا تَحْزَنْ میں واحد مذکر مخاطَب کی ضمیرِ مستتر 'اَنْتَ‘‘ (۳)'فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘میں ' ہ ‘ ضمیر متصل‘ اس کا مرجع ابوبکر صدیق ہیں۔ اس کے علاوہ پوری آیت میں چار جگہ نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک مزید بھی ہے: (۱) 'اِلَّا تَنْصُرُوْہٗ ‘اور 'فَقَدْ نَصَرَہٗ‘ اور 'اِذْاَخْرَجَہٗٗ اور 'وَاَیَّدَہٗ‘میں چار بار ' ہٗ ‘ ضمیرِ متصل کا مرجع ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے‘گویا مجموعی طور پر رسول کریم ؐکا ذکر دس مرتبہ آیا ہے۔ سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکی رسول کریم ﷺ کے ساتھ رفاقت اور غارِ ثور میں بلاشرکتِ غیرے معیّتِ مصطفی ﷺ ایسا مُسَلَّمہ شرف ہے کہ اِس کے مصداق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔ مشہور قول ہے :''مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ ‘‘یعنی جو جس سے محبت کرتا ہے ‘وہ اُس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے ‘پس اللہ تعالیٰ کا اس ایک آیت میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کابالترتیب دس باراور چھ بارمدح کے طورپر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہستیاں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ۔معیّت ورفاقت توآج تک روضۂ انور میں بھی جاری وساری ہے ‘حشر میں بھی ہوگی اور یقینا جنت میں بھی ہوگی۔ امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے '' اللہ تعالیٰ نے النساء:69میں انعام یافتہ طبقات کا ذکر فرمایا اور اُس میں مقامِ نبوت کے بعد مقامِ صدیقیت کو بلافصل بیان کر کے بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کے بعد یہ اعلیٰ ترین منصب ہے‘اسی طرح آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خلافت بھی بلا فصل ہے ‘‘۔
قرآنِ مجید میں ایک سے زائد مرتبہ عظمتِ رسالت مآب ﷺ کے لیے باری تعالیٰ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ جب مخالفین نے عِناد کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ پر کوئی الزام لگایا یا آپ پر عِیَاذاً بِاللّٰہ!کوئی طعن کیا تواللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی صفائی بیان فرمائی‘ بعینہٖ یہی شِعار ہمیں سیرتِ ابوبکرِ صدیقؓ کے بارے میں بھی نظر آتا ہے ۔ سعید بن مسیَّب کی روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے غلام نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید کر آزاد کردیا‘ اُس کے پاس کافی مال تھا ‘وہ بھی اُمَیَّہ کو دے دیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کہا: تم مسلمان ہوجائوتو یہ سب مال تمہارا ہوجائے گا‘ اس نے انکار کردیا جس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اس سے ناراض ہوگئے اور جب اُمَیَّہ نے کہا: میں بلال کونِسطاس کے عوض بیچتا ہوں تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کو غنیمت جانا اور نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید لیا۔ اس موقع پر مشرکین نے طعن کیااورکہا: ابوبکرؓ نے جو بلال کو اتنی بھاری قیمت پر خریدا ہے‘لگتا ہے کہ بلال نے اُن پر کوئی احسان کیا ہوگا‘ جس کا انہوں نے بدلہ چکایا ہے ‘ اُس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: ''اورعنقریب وہ انتہائی پارسا شخص (نارِ جہنم ) سے محفوظ رہے گا‘جواپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے اور اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ چکایا جارہا ہو‘وہ صرف اپنے خداوند بزرگ وبرتر کے لیے ایسا کرتا ہے اور عنقریب اللہ اس سے ضرور راضی ہوگا‘‘(اللیل:17-21)‘(السیرۃ النبویہ ‘ ج:1ص: 354-55)۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مختلف مواقع پرحضرت بلالؓ بن رباح کے علاوہ مندرجہ ذیل چھ مظلوم غلاموں کو اُن کے آقائوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے خرید کر آزاد کیا :(۱) عامر بن فہیرہ ‘یہ بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوئے ‘ (۲) اُمِّ عُمَیس‘(۳) زُنَیرہ‘اِن کی بینائی چلی گئی تھی ‘اللہ تعالیٰ نے کفار کے طعن کے بعد لوٹادی‘(۵۔۴)نہدیہ اور اُن کی بیٹی ‘ (۶) بنو مؤمل کی باندی ۔
نفسِ نبوت میں تمام انبیاء ورسل کرام برابر ہیں‘ مگر اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر درجات میں بلندی عطا فرمائی ہے اور اس کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت کی وجوہ کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایاہے ؛اگرچہ ہر نبی کا رُتبہ اپنی جگہ بلند ہے ‘اسی طرح تمام اہلِ بیت اطہار اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ مراتب کے حامل ہیں ‘ہماری عقیدت ومحبت کا مرجع اور محور ہیں اورہم اُن میں سے کسی کی بھی تنقیص کا تصور نہیں کرسکتے ‘ لیکن ان کے درمیان باہم ایک دوسرے پر فضیلت کی گنجائش موجود ہے اور قرآن وسنت میں مختلف انداز میں اس کا بیان بھی ہے ‘لیکن اس باہم تفاضُل کا بیان نفسُ الامر اور حقیقتِ واقعی کے طور پرہونا چاہیے ‘ اِس سے تعریض ‘ توریہ ‘اشارہ وکنایہ اور ایہام کے طور پر کسی دوسرے صحابی کی تنقیص مراد لینا باطل ہے ۔حضرت ابوبکرصدیق ہمیشہ ایثاراورجاں نثاری کا استعارہ اور حوالہ رہے اور تاقیامت رہیں گے ۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکی ذات پر سید المرسلین ﷺ کے غیر معمولی اعتماد کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نا صرف انہیں‘ بلکہ اُن کے پورے گھرانے کوہجرت کی تیاری اور سفرِ ہجرت کے موقع پر امین بنایا ‘ اس میں اُن کی بیوی ‘صاحب زادی ‘ فرزند اور غلام‘ الغرض سب شامل تھے ۔یہ حضرتِ ابوبکر صدیق ؓکی استقامت ہی تھی کہ خاتم النبیینﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد انتہائی نازک دور میں امورِ خلافت کو سنبھالا اور اُسے منہاجِ نبوت پر اُستوار کیا ۔آپ ہی نے یہ شِعار قائم کیا کہ حالات کیسے ہی پُرخطر کیوں نہ ہوں ‘ اطاعت واتّباعِ مصطفی ﷺ سے انحراف نہیں کیا جائے گااور ''مقامِ اُبْنیٰ‘‘کی طرف'' جیشِ اُسامہ ‘‘کی روانگی اس کی روشن مثال ہے ۔ آپ نے یہ شِعاربھی قائم کیا کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں‘ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی ‘منکرینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختمِ نبوت کی سرکوبی اس کی واضح مثال ہے۔آپ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں اپنا منشور بیان کرتے ہوئے یہ اصول وضع کیا کہ ہر تنقید سے بالاتر اور معصوم عن الخطا صرف ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے ‘آپ کے بعد ہر صاحبِ اقتدار واختیار کو قرآن وسنت کے معیار پر پرکھا جائے گااوراِسی پیمانے پر اُس سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکے گا‘کوئی بڑے سے بڑا صاحبِ منصب اپنی ذات میں قطعی حجت نہیں ۔
''ثانی اثنین ‘‘کا مظہر صرف سفرِ ہجرت پر ہی موقوف نہیں ہے ‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تئیس سالہ نبوی زندگی میں قدم قدم پر یہ منظر ہمیں نظر آئے گا ۔آپ ایمان لانے اوردعوت وتبلیغِ دین میں بھی ''ثانی اثنین ‘‘ ہیں‘اسلام کے ابتدائی دور میں آپ ہی کی دعوت وترغیب سے اسلام کے تابندہ ستارے حضرت عثمان بن عفان‘ عثمان بن مظعون ‘طلحہ بن عبیداللہ‘ زبیر بن عوام ‘عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم مشرّف بہ اسلام ہوئے ‘اِن میں سے پانچ حضرات عَشرۂ مبشّرہ میں سے ہیں‘ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دیدی تھی۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ جب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے ‘تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق کو مصلّیٰ امامت پر اپنا جانشین بنایااور آپ نے رسول کریم ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ نے بیعت کی ‘جب حضرت ابوبکرؓنے فرمایا: لوگو!میں نے تمہاری بیعت کو لوٹادیا ہے‘ مبادا تم میں سے کوئی اس بات کو ناپسند کرے‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' اللہ کی قسم!ہم آپ کی بیعت کو واپس نہیں لیں گے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کریں گے ‘آپ کو رسول کریم ﷺ نے نماز میں ہمارا امام بنایا ‘تو کون ہے‘ جو آپ کو (خلافت میں) پیچھے رکھے‘‘(فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل:101)۔