حضرت ابوبکر صدیق ؓکے حسنِ نیت کی شہادت رسول اللہ ﷺ نے دی۔حدیثِ پاک میں ہے: (1)''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺنے فرمایا: جس نے ازراہِ تکبر اپنا تہبند (ٹخنوں سے نیچے)لٹکایا ‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نظر کرم نہیں فرمائے گا‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! میرے تہبند کی ایک جانب لٹک جاتی ہے‘اِلَّا یہ کہ میں اس کی حفاظت کروں‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا:(ابوبکر!)تم اُن میں سے نہیں ہو(جوتہبند کو ازراہِ تکبر لٹکاتے ہیں)‘(صحیح البخاری:5784)‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کا پیٹ کچھ باہر کو تھا‘اس کے سبب اُن کا تہبند بے اختیار ایک جانب لٹک جاتا تھااور ظاہر ہے کہ آدمی کام کاج کرتے ہوئے ہر وقت تہبند کو پکڑ کر نہیں رہ سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ ممانعت کی علّت تکبر ہے‘ اگر بے اختیار لٹک جائے تو وہ اس وعید کا مصداق نہیں ہے یا جہاں شلوار کا ٹخنوں سے نیچے لٹکنا تکبر کی علامت نہیں ہے تو اس پر ملامت روا نہیں ہے جیسے آج کل ائمۂ حرمین کے جبے ٹخنوں سے نیچے تک ہوتے ہیں اور یہ وہاں کا رواج ہے۔ جنت کی تمنا مومن کی آرزوئوں کی معراج ہے‘ زبانِ رسالت مآب ﷺ کی یہ شہادت آج بھی قائم ہے کہ جنت کا ہر دروازہ صدیقِ اکبرؓکیلئے کشادہ رہے گا: (الف) :''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ہر چیز کا جوڑا (مثلاًکپڑے‘ گھوڑے وغیرہ )اللہ کی راہ میں خرچ کیے‘ اس کو جنت کے (مختلف)دروازوں سے بلایا جائیگا‘ (کہاجائے گا:)اے بندۂ خدا! ادھر آ یہ بہتر ہے ‘سو جو نمازی ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّلٰوٰۃ سے‘ جو مجاہد ہوگا‘ اسے بَابُ الْجِہَادسے‘ جو صدقہ دینے والا ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّدَقَہ سے اور جو روزے دار ہوگا ‘ اسے بَابُ الصِّیَام اور بَابُ الرِّیَان سے بلایا جائیگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی:(یارسول اللہؐ!)جس شخص کو ان دروازوں میں سے کسی ایک سے بھی بلالیا جائے گا‘اس کی تو کوئی حاجت باقی نہیں رہے گی( یعنی اصل مقصود تو جنت میں داخل ہونا ہے‘ اگر ایک دروازے سے بھی بلا لیا گیا توکامیاب ہے)‘پھر انہوں نے پوچھا: یارسول اللہؐ! کوئی ایسا بھی (خوش نصیب )ہے ‘ جسے ہر دروازے سے بلایا جائے گا‘آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور(ابوبکرؓ!) مجھے یقین ہے کہ تم انہی میں سے ہو‘ (صحیح البخاری:3666)‘‘۔ (ب): ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا شخص داخل ہوگا‘ جسے جنت کے ہر گھر والے اور ہر بالا خانے والے کہیں گے: مرحبا‘ مرحبا‘ ہمارے پاس آئیں‘ ہمارے پاس آئیں‘ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی: یارسول اللہؐ! وہ شخص بہت کامیاب اور سرخرُو ہوگا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں ! اورابوبکر! وہ تم ہی ہوگے‘ (صحیح ابن حبان: 6867)‘‘۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی نظر میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہی اس کے اہل تھے کہ عالمِ برزخ میں رسول اللہ ﷺ کی قُربت سے فیض یاب ہوں‘ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: میں لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تھا‘ لوگ حضرت عمر بن الخطابؓ کے لیے دعا کر رہے تھے اور حضرت عمر کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا تھا‘ اس وقت ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ آپ پر رحم کرے‘ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں(رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کردے گا‘ کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ''میں اور ابوبکر اور عمر تھے‘ میں نے اور ابوبکر وعمر نے یہ کام کیا‘ میں اور ابوبکر اور عمر گئے، پس بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے‘ (صحیح البخاری:3677)‘‘۔
جس منبعِ علم سے رَحْمَۃٌ لِلْعَالَمِیْن سیراب ہوئے‘ اسی کابچا ہواتبرک حضرت ابوبکر صدیق ؓکو عطا ہوا‘ حدیث پاک میں ہے:''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک بڑا پیالہ دیا گیا ہے‘ جو دودھ سے بھرا ہوا تھا‘ میں نے اس سے اتنا سیر ہوکر پیاکہ مجھے لگادودھ میرے گوشت اور جلد میں سرایت کر رہا ہے ‘ میں نے اس پیالے میں کچھ دودھ بچایا اور وہ ابوبکرؓ کو دیا‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! یہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا حتیٰ کہ جب آپ اس سے سیر ہوگئے تو آپ نے اپنا بچا ہوا علم ابوبکر ؓکو دیا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کی صحیح تعبیر کی ہے‘ (صحیح ابن حبان:6854)‘‘۔
افضل البشر بعدالانبیاء کون ہے‘ ملاحظہ کیجیے: ''رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: تم نے ابوبکر کی شان میں کچھ اشعار کہے ہیں‘ انہوں نے عرض کی: جی ہاں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بھی سنائو‘تو میں نے یہ اشعار پڑھے:ترجمہ:''بلند غار میں دو میں سے دوسرا‘جب وہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے (ان کی تلاش میں)چکر کاٹااور وہ رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے اور انہیں پتا تھا کہ مخلوق میں (انبیاء کے علاوہ )کوئی اُن کا ہمسر نہیں‘‘ تو رسول اللہﷺ یہ اشعار سن کر مسکرائے‘ (اَلْمُسْتَدْرَکْ عَلَی الصَّحِیْحَیْنِ لِلْحَاکِم:4413)‘‘۔ حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ برس کی عمر میں وصال ہوا اور حضراتِ ابوبکر وعمرؓ کی عمریں بھی تریسٹھ سال تھیں‘ (صحیح مسلم: 2348)‘‘۔ سورۃ اللیل کی آخری پانچ آیاتِ مبارکہ کی تفسیر اس حدیث میں ملاحظہ کیجیے:'' حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں:اس دوران نبی ﷺ تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس ابوبکرِ صدیقؓ عَبا پہنے ہوئے تھے اور وہ عبااُن کے سینے پر کانٹوں سے جوڑ کر ڈلی ہوئی تھی‘ دریں اثنا جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور سلام عرض کیا اور کہا: یارسول اللہؐ! کیا بات ہے کہ ابوبکر اپنے سینے پر کانٹوں سے جڑی ہوئی عبا ڈالے ہوئے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل! انہوں نے فتح مکہ سے پہلے اپنا مال مجھ پر خرچ کیا ہے ‘ جبریلِ امین نے کہا: اللہ کی جانب سے انہیں سلام پہنچائیے اور کہیے: آپ کا رب آپ سے پوچھتا ہے: ابوبکر! کیا تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض‘ تو ابوبکر روئے اور کہا: کیا میں اپنے رب پر ناراض ہوں گا‘(پھر دو بار فرمایا) میں اپنے رب سے راضی ہوں‘ (حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَائ‘ج:7ص:105)‘‘۔ یہ روایت ضعیف ہے ‘ لیکن فضائل میں ضعیف روایات معتبر ہیں‘ البتہ جن روایات پر عقیدے ‘ فرائض‘ واجبات اور سُنَنْ کا مدار ہے‘اُن کے لیے صحت لازمی ہے۔
سورۂ طٰہٰ آیت:55کی رو سے حضور سید المرسلین ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی تخلیق جس مٹی سے ہوئی‘وہ ایک ہی ہے:''عبداللہ بن سوّار بیان کرتے ہیں:میرے باپ نے ایک دن مجھے یہ واقعہ بیان کیا: نبی ﷺ کا گزر ایک مکان پر ہوا جہاں ایک قبر کھودی جارہی تھی‘ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کس کی قبر ہے‘ لوگوں نے بتایا: فلاں حبشی کی قبر ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: واہ سبحان اللہ! زمین سے آسمان تک اس مٹی کے آثار ہیں جس سے اسے پیدا کیا گیا تھا‘ تو میرے والد نے کہا: سوّار! میں تو سمجھتا ہوں ابوبکر وعمرؓ کی اس سے بڑھ کر کوئی فضیلت ہوہی نہیں سکتی کہ اُن دونوں کی تخلیق اُس مٹی سے ہوئی جس سے رسول اللہ ﷺ کو پیدا کیا گیا تھا‘ (فَضَائِلُ الصَّحَابَہْ لِامَام اَحْمَدْ بِنْ حَنْبَل:528)‘‘۔ ''اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیاہے اور اسی میں تم کولوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم کو باہر نکالیں گے ‘ (طٰہٰ: 55)‘‘۔ قرآنِ کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی صحابۂ کرام کے مدارج ومراتب میں اصولِ ترجیح کو بیان فرمایا ہے‘ ارشاد ہوا: ''(اے مسلمانو!) تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہوسکتا‘ جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اور(کافروں سے) قتال کیا‘ ان کا درجہ اُن سے بہت بڑا ہے جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اورجہاد کیا‘ (ہاں!)اللہ نے ان سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘ (الحدید:10)‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تصدیق قرآن کریم میں سورۂ آل عمران:181سے ہوئی‘ امام ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں:''حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ بَیْتُ الْمِدْرَاس گئے‘ آپ نے دیکھا وہاں بہت سے یہودی فِنْحَاص کے گرد جمع تھے‘ یہ شخص یہودیوں کا بہت بڑا عالم تھا‘ حضرت ابوبکرنے فِنْحَاص سے کہا: اے فِنْحَاص ! تم پر افسوس ہے‘ تم اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرلو‘ تم کو معلوم ہے کہ سیدنا محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘ وہ اللہ کے پاس سے وہ دین برحق لے کر آئے ہیں جس کو تم تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو‘فِنْحَاص نے کہا: ابوبکر! بخدا!ہمیں اللہ کی کوئی حاجت نہیں ہے‘ بلکہ اللہ ہمارا محتاج (فقیر) ہے‘ ہمیں اس سے فریاد کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ وہ ہم سے فریاد کرتا ہے اور ہم اس سے مستغنی (بے پروا) ہیں‘اگر اللہ ہم سے مستغنی ہوتا توہم سے قرض طلب نہ کرتا جیساکہ تمہارے پیغمبر کہتے ہیں‘ وہ ہم کو ربا(سود) سے منع کرتا ہے اور خود ہم کو سود(اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زیادہ اجر) دیتا ہے‘ اگر اللہ غنی ہوتا تو ہم کو سود نہ دیتا۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر غضبناک ہوئے اورفِنْحَاص کے منہ پر زور سے ایک تھپڑ مارا اور فرمایا: بخدا! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن ماردیتا‘فِنْحَاص رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور حضرت ابوبکرؓ کی شکایت کی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓسے پوچھا: تم نے اس کو تھپڑ کیوں مارا تھا‘ حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی اور کہا: اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘ اس وجہ سے میں نے غضبناک ہوکر اس کو تھپڑا مارا۔فِنْحَاص نے اس کا انکار کیا اور کہا: میں نے یہ نہیں کہا تھا‘ تب اللہ تعالیٰ نے فِنْحَاص کے رد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ''بے شک اللہ نے ان لوگوں کا قول سن لیا جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘ (تفسیر طبری: 8300)‘‘۔