سعودی عرب کی حکومت نے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلائو سے بچنے کے لیے عارضی طورپر حرمِ کعبہ میں بیت اللہ کا طواف موقوف کیااور عمرہ زائرین کی آمد پر بھی پابندی لگائی‘اگرچہ محدود طور پرطواف کو کھول دیا ہے۔اس کی بابت لوگوں نے سوال کیا ہے کہ آیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔ بعض ٹیلی ویژن چینلز نے بھی مجھ سے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیاتو میں نے معذرت کی‘ کیونکہ وہ بات درمیان سے کاٹ دیتے ہیں اور ایک دو جملے لے کر آگے اپنی عمارت کھڑی کردیتے ہیں‘ جب لوگ سیاق وسباق کے بغیر نامکمل بات سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جب ایک چینل نے زیادہ اصرار کیا تو میں ڈیرہ اسماعیل خان‘ بھکر اور ملتان کے سفر پر تھا ‘میں نے اُن سے کہا: آپ چاہیں تو واپسی پر سٹوڈیوز میں بیٹھ کر اس پر تفصیلی بات کی جاسکتی ہے‘ مگر پھر انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔ اصولی بات یہ ہے کہ انتظامی طور پرکسی بھی ملک میں وہاں کی حکومت کا فیصلہ ‘ خواہ ہمیں اُس سے اتفاق ہو یا اختلاف‘ قانوناًنافذ ہوتا ہے‘ اسی طرح اگر کسی ملک کے حکومتی نظام میں دینی رہنمائی یا افتاء کا حکومتی سطح پر کوئی نظام موجود ہے ‘ تو وہ وہاں مؤثر ہوتا ہے اور اُن کی قضا بھی وہاں معتبر ہے۔
حرمین طیبین میں ماضی میں بھی بعض فتنوں کے مواقع پر نماز موقوف ہوتی رہی ہے‘یزیدِ پلید کے لشکر نے جب مسجدِ نبوی میں اہلِ مدینہ کی حرمت کو اپنے لشکریوں پر مباح کردیا تھا تو تین دن تک مسجدِ نبوی میں نمازیں نہ ہوسکیں‘ جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مُسَیِّبؓ مجذوب بن کر وہاں ٹھہرے رہے اور بیان کرتے ہیں :'' جب نماز کا وقت آتا تو مجھے روضۂ رسولﷺ سے اذان کی آواز آتی اور میں نماز ادا کرتا‘(سنن دارمی:94)‘‘ ۔اسی طرح 317ہجری میں قرامطہ کے فتنے کے موقع پر حرمِ کعبہ میں قتل وغارت ہوئی ‘ کعبے کی حرمت کو پامال کیا گیا‘ حجرِ اسود کو نکال کر لے گئے ‘میزابِ رحمت کو اکھاڑ دیا‘ زم زم کا گنبد گرادیا‘ قتل وغارت کی اور معمولاتِ حرم متاثر ہوئے۔ بعد میں339ہجری میں حجرِ اسود کو واپس لاکر اپنے مقام پر نصب کیا گیا۔ اسی طرح جب حجاز میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت قائم کی تو اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد میں حجاج بن یوسف نے حرمِ کعبہ پر لشکر کشی کی اور بیت اللہ پر منجنیق سے سنگ باری کی اور اُس کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔ حالیہ تاریخ میں 1979ء میں ملک خالد بن عبدالعزیز کے عہدِ اقتدار میں بعض باغیوں نے حرمِ کعبہ پر عارضی طور پر قبضہ کرلیا تھا اور اُن کے خلاف آپریشن کے دنوں میں وہاں طواف اور نمازیں موقوف رہیں۔
حال میں کرونا وائرس کی وبا دنیا میں اچانک پھیلی ‘ اس وائرس کے بارے میں ابتدائی طور پر تو یہ کہا گیا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا‘ اس کاطبی وکیمیائی نام ''Novel Coronavirus 2019‘‘ رکھا گیا ہے اور اس سے بڑی تعداد میں ممالک متاثر ہوئے‘ ابتدائی طور پریہ وائرس چین کے شہر ووہان کی جنگلی جانوروں کی منڈی میں تشخیص ہوااور پھرجانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا‘اس کے بعددوسرے ممالک میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کوکنٹرول کرنے کے لیے چین کو ووہان شہر اور بعض متصل علاقے لاک ڈائون کرنا پڑے۔ چین نے کافی اہلیت کا مظاہرہ کیا اور ایک ہفتے میں ایک ہزار بیڈز پر مشتمل ہاسپیٹل بنالیا‘ جس میں ایک ہزار مریضوں کے لیے Isolation Unitsقائم کیے گئے ۔ اب جاپان‘ کوریا‘ برطانیہ ‘ سپین ‘اٹلی‘ امریکا ‘ایران اور دیگر ممالک میں اس وائرس کے مریض سامنے آئے ہیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس وائرس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرسکتاہے۔
جب اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں تو سعودی عرب کی تشویش بجا معلوم ہوتی ہے ‘ کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک سے ‘ جن میں کرونا وائرس سے متاثر ہ ممالک بھی شامل ہیں‘ لوگ عمرے اور زیارتِ حرمینِ طیبین کے لیے آتے ہیں اور اگر خدانخواستہ وہاں یہ وبا پھیل جائے تو اسے کنٹرول کرنا یقینا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوگا‘ کیونکہ حدودِ حرم میں لاکھوں کا اجتماع ہوتا ہے‘ جس میں اطراف واکنافِ عالَم سے مختلف قومیتوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ہماری نظر میں احتیاطی تدبیر کے طور پر سعودی حکومت کے اس اقدام کا کسی نہ کسی درجے میں جواز موجود ہے‘ کیونکہ یہاں بیٹھ کر ہم اس وبا کی پوری شدت (Intensity)کا اندازہ نہیں لگاسکتے ‘ اگر خدانخواستہ وہاں یہ وبا پھیل جائے تو اس پر قابو پانا دشوار ہوگا۔ اس لیے ہمیں کوئی رائے قائم کرتے وقت اس کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے ‘ اختلاف برائے اختلاف سود مند نہیں ہوتا۔ ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے جمعہ کے اجتماعات کو موقوف کردیا ہے اور عراق میں آیت اللہ سیستانی نے نماز کے لیے بڑی جماعتوں کے قیام سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے‘ سعودی عرب نے بھی بعض ایسی ہدایات جاری کی ہیں۔
حج اور عمرہ کے مسائل میں ایک مسئلہ حصر اور اِحصار کا بھی ہوتا ہے‘ یعنی ایسی صورتحال کا پیدا ہوجانا کہ حجاج ومعتمرین کو حدودِ حرم میں داخل ہونے سے روک دیا جائے ۔ فقہائے کرام کے مطابق اس کے اعذار دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک مِنجانب اللہ‘ جیسے کرونا وائرس کی وباکا پھیل جانایاخدانخواستہ کسی اور ایسی مُہلک اور متعدی بیماری کا پھیل جانا‘ دوسرا عذرمِنجانب العباد ہوتا ہے‘ جیسے دشمنوں یا کسی جابر سلطان کا راستہ روک لیناوغیرہ۔ کرونا وائرس یا اس طرح کی وبائیں ''عُذر مِنجانب اللہ‘‘ کے تحت آتی ہیں ‘اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی ایک ہدایت بھی موجود ہے :حضرت اُسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''طاعون ایک صورتِ عذاب ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی اُمّتوں یا بنی اسرائیل پر مُسلط فرمایا‘سوجب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے ‘تووہاں کے لوگ اُس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اُس بستی سے باہرہیں ‘وہ اُس میں داخل نہ ہوں‘( مسلم:2218)‘‘۔یہ وہی صورتحال ہے کہ چین نے اپنے ''وائرس زدہ‘‘ علاقے کو لاک ڈائون کردیا اور 10مارچ کو ٹیلی ویژن سے معلوم ہوا کہ اٹلی نے اپنے پورے ملک کو لاک ڈائون کردیا ہے اور 11مارچ کو معلوم ہوا کہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا: ہمارے ملک کی ستّر فیصد آبادی کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتی ہے‘ کیونکہ اُس کے اردگرد ممالک میں کروناوائرس کے پھیلنے کے شواہد مل چکے ہیں۔ پس ہمیں سعودی عرب کی صورتحال اورحکومت کے انتظامی فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔
ایسے مواقع پر علما کی ذمے داری ہے کہ عوام کو مساجد کے پلیٹ فارم سے وقتاً فوقتاً ہدایت کرتے رہا کریں کہ مُہلک اور متعدی وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں ‘ طبی ماہرین کے مشوروں پر عمل کریں اور اللہ کی ذات پر توکل کے ساتھ ساتھ اسباب کوبھی اختیار کریں ‘ کیونکہ یہ دنیا عالَمِ اسباب ہے‘ اللہ کے تکوینی نظام میں اشیا کے ظہور پذیر ہونے اور معدوم ہونے کے لیے سبب اور مُسَبَّب اورعلّت اورمعلول کا ایک فطری نظام قائم ہوتا ہے‘ تاہم اسباب مؤثر بالذات نہیں ہوتے‘ بلکہ ان کا مؤثر ہونا ذاتِ مُسَبِّبُ الْاَسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوتا ہے۔ پس ہمیں تمام تر اسباب کے اختیار کرنے کے باوجود ذاتِ باری تعالیٰ سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے اور دوائوں اور تدابیر کے ساتھ ساتھ دعائوں کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہیے‘ ذیل میں چند دعائیں درج کی جارہی ہیں:
(1)''حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺنے فرمایا:جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھے اوریہ دعا پڑھے:''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً ‘‘ ترجمہ:''سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایاجس میں تجھے مبتلاکیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پرفضیلت دی‘‘ تو وہ زندگی بھر اس مرض ووباسے محفوظ رہے گا‘ (ترمذی:3431)‘‘۔آپ ﷺ نے مسلمانوں کواللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے: (2)''اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ‘ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِی وَدُنْیَایَ وَاَھْلِیْ وَمَالِیْ ‘ اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ وَآمِنْ رَوْعَاتِیْ ‘اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَاَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ‘‘ ترجمہ: ''اے اللہ!میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلبگارہوں‘ اے اللہ!میں تجھ سے عفو و درگزر ‘ اپنے دین و دنیا‘ اہل و عیال اور مال میں عافیت کی التجاکرتا ہوں‘ اے اللہ!ہماری ستر پوشی فرما‘ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما اور ہمیں خوف و خطرات سے محفوظ اورمامون فرما‘ اے اللہ!تو ہمارے آگے اور پیچھے سے‘ دائیں اور بائیں سے‘ اوپر سے حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عَظَمت کی پناہ میں آتاہوں کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جائوں‘ (ابودائود:5074)‘‘۔ ایک اورموقع پررسول اللہﷺنے فرمایا: (3) ''اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّ ئِ الْاَسْقَامِ‘‘ ترجمہ:اے اللہ!میں برص‘ جنون‘کوڑھ اور تمام مُہلک بیماریوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں‘ (ابودائود:1554)‘‘۔ (4)''اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا یَجِیْء ُ بِہِ الرِّیْحُ‘‘‘ ترجمہ: ''اے اللہ! میں (ہر ایسی وبا سے)تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ جسے ہوا لے کر آتی ہے‘ (سنن ترمذی:3520)‘‘۔ ہوا لے کر آنے کی مثال حال ہی میں کراچی میں سامنے آئی کہ سویا بین ڈسٹ کے پھیلائو سے لوگوں کا نظامِ تنفُّس اور پھیپھڑے متاثر ہوئے اوراس کے سبب کئی اموات ہوگئیں۔ (5)'' خولہ بنتِ حکیم سُلَمیہؓ بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو کسی مقام پر اترے اور یہ دعا پڑھے: ''أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ ترجمہ: ''میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہر شر سے اُس کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں‘‘تو اُس بستی سے روانہ ہونے تک اُسے کوئی چیز ضرر نہیں پہنچائے گی‘ (صحیح مسلم: 2708)‘‘اور یہ دعا تو ہمیشہ پڑھتے رہنی چاہیے‘ (6)''حضرت عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو بندہ ہرصبح وشام اورہر رات کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھے گا‘ اُسے کوئی چیز ضرر نہیں پہنچائے گی :''بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَافِی السَّمَآئِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘ ترجمہ: ''اُس اللہ کے نام سے کہ جس کے نام کی برکت سے زمین وآسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے‘ (ترمذی:3388)‘‘۔نوٹ: ہم لکھ چکے ہیں کہ حدیث پاک کی رو سے مرض بذاتہٖ متعدی نہیں ہوتا‘ یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے‘جہاں آپ ﷺ نے طاعون زدہ بستی میں نہ جانے کی تعلیم دی ہے ‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی مشیت سے مرض متعدی بھی ہوسکتا ہے ‘اسی طرح آپ ﷺ نے صحت مند کو مریض سے دور رکھنے کی تعلیم دی ہے‘ ہمارے یکم فروری کے کالم ''وبائی امراض اور نبوی تعلیمات‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔