(6)'' پھر آپ ﷺکا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اُن کے سامنے ایک طرف ہنڈیا میں تروتازہ پاکیزہ بھنا ہوا گوشت اور دوسری طرف خبیث (بدبودار سڑا ہوا)گوشت رکھاتھا‘ وہ پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کر اُس خبیث گوشت کو کھارہے تھے‘آپ ﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں‘ انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں‘ جن کے پاس (رشتۂ نکاح سے)حلال پاکیزہ عورت ہوتی ہے اور وہ اپنی جنسی خواہش کو بدکار عورت سے پورا کرتے ہیں ‘‘۔حدیث ِ پاک میں ہے: ''رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا: میں تمہیں سب سے بہترین نعمت کے بارے میں نہ بتائوں ‘جسے کوئی انسان حاصل کرے ‘ (وہ)نیک بیوی ہے کہ جب اُس کی طرف دیکھے تو وہ اُسے سرور عطا کرے اور جب وہ اُسے (کسی جائز کام کا) حکم دے تو اُس کا کہا مانے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی (امانت کی) حفاظت کرے‘‘ (ابودائود:1664)۔
شوہر کی ایک امانت تو گھر کا مال ومتاع ہے‘ لیکن بیوی کے پاس شوہر کی سب سے گراں قدر امانت اُس کی عفت اور پاک دامنی ہے۔ سو‘ پاک دامن عورت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت کسی سپر سٹور یاڈیپارٹمنٹل سٹور سے دولت کے عوض خریدی نہیں جاسکتی ‘ یہ صرف اللہ کی عطا سے نصیب ہوتی ہے۔
(7)سفرِ معراج کے دوران رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک ایسی وادی سے ہوا‘جہاں سے نہایت خوشگوار‘ ٹھنڈی اور خوشبودار ہوا آرہی تھی‘ جس میں مشک کی خوشبو تھی اور وہاں سے آواز آرہی تھی‘ آپ ﷺنے پوچھا: اے جبریل! یہ مشک کی خوشبو والی پاکیزہ ہوا اور یہ آواز کیسی ہے‘ جبریل امین ؑنے کہا: یہ جنت کی آواز ہے ‘جو پکار رہی ہے:اے پروردگار!اپنے وعدے کے مطابق ‘مجھے میرے باسی عطا کر‘ کیونکہ میری خوشبو ‘میرا ریشم ‘میرا سُندُس (باریک ریشم)‘ میرا اِستَبرق( دبیز ریشم) ‘ میرا عمدہ فرش ‘ میرے موتی‘ میرے مرجان‘ میرا سونا اور چاندی ‘میرے جام‘ میرے پھل ‘میرا شہد ‘ میرا دودھ بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔پس ‘اپنے وعدے کے مطابق ‘مجھے میرے اہل عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ہر مسلم اور مسلمہ‘ ہر مومن اور مومنہ جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور نیک کام کیے ‘ نہ میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ‘ نہ میرے مقابل کوئی معبود بنایا‘ جن کے دلوں میں میری خَشیت تھی۔ پس‘ وہ مجھ سے جوسوال کریں گے‘ میں انہیں عطا کروں گا‘وہ مجھے جوقرض دیں گے ‘میں اُن کو جزا دوں گا اور مجھ پرجو توکل کریں گے‘ میں اُن کے لیے کافی ہوں ‘ میں ہی اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے ‘میں وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔( آپ ﷺ نے سورۂ مومنون کی ابتدائی چودہ آیات یعنی قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر تَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ تک تلاوت فرمائیں) تو جنت نے عرض کی: میں راضی ہوگئی‘‘۔
نوٹ: اللہ کو قرض دینے کے معنی ہیں: ''اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘‘۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ''اورنماز قائم کرو اور زکوٰۃ دواور اللہ کو قرضِ حسن دواورجو اعمالِ خیرتم آگے بھیجو گے‘ اُسے اللہ کے پاس بہتر اور عظیم ترین جزا (کی صورت میں)پائو گے‘ ‘ (المزمل:20)۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے ‘تو اللہ اُس کو بڑھا کراُس کے لیے کئی گنا کردے گا‘‘ (البقرہ: 245)۔ صحیح مسلم:2569کا خلاصہ یہ ہے : '' قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور ایک شخص پیش ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہ کی‘میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے نہ کھلایا‘ میں نے تجھ سے پانی مانگا‘ تو نے مجھے نہ پلایا‘بندہ عرض کرے گا: اے اللہ! یہ سب تو بندوں کی حاجات ہیں ‘ تیری ذات تو ان حاجات سے بے نیاز ہے ‘تو ربُّ العالمین ہے‘ میں کیسے یہ سب کچھ تجھے پیش کرتا‘ اللہ فرمائے گا: اگر تو ان حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتا تو مجھے ان کے پاس ہی پاتا‘‘۔
(8) پھر آپ ﷺ کا گزر ایک وادی پر ہوا‘ جہاں آپ نے نہایت بھیانک اور مکروہ آوازیں سنیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آوازیں کیسی ہیں‘ جبریلِ امین نے عرض کی: یہ جہنم کی آواز ہے ‘ جہنم کہہ رہا ہے :(اے اللہ!)اپنے وعدے کے مطابق ‘مجھے میری باسی عطاکر‘ کیونکہ میری زنجیریں ‘میرے طوق ‘میرے شعلے‘ میرا زقّوم (تھوہر کا کڑوا پھل)‘ میری تپش‘ میرے پتھر‘ میری پیپ‘ میرا بہتا ہوا لہو‘ میری گہرائی‘ میری حرارت بہت زیادہ ہوگئی ہے‘ اپنے وعدے کے مطابق ‘مجھے میرے اہل عطا فرمادیجیے۔اللہ نے فرمایا: ہر مشرک ومشرکہ ‘ ہر کافر وکافرہ ‘ہر خبیث وخبیثہ ‘ہرجابر وظالم جو یومِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا ‘(وہ سب تیرے اہل ہیں)۔جہنم نے عرض کی: میں راضی ہوگیا‘‘۔
(9)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے شبِ معراج جنت کے دروازے پر یہ تحریر دیکھی:''صدقے کا ثواب دس گنا اور قرض کا اٹھارہ گناہے‘‘۔میں نے پوچھا:جبریل!قرض کے صدقے سے افضل ہونے کا سبب کیا ہے ‘ جبریلِ امین نے عرض کی: عام سوالی جب سوال کرتا ہے تو اُس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے اور قرض خواہ حاجت کے بغیر قرض نہیں مانگتا ‘‘(ابن ماجہ:2431)۔امام احمد رضا قادری کے سامنے قرض خواہوں کی نادہندگی کا ذکر ہوا ‘ آپ نے فرمایا: میرے بھی لوگوں پر پندرہ سو درہم (چاندی کا سکہ)قرض ہیں ‘نہ وہ دیتے ہیں ‘ نہ میں تقاضا کرتا ہوں ‘ آپ سے پوچھا گیا :اگر آپ تقاضا نہیں کرتے‘ تو معاف کیوں نہیں کردیتے ‘ آپ نے جواب دیا: میرے پیشِ نظر یہ حدیث ہے:''نبی ﷺ نے فرمایا: جو کسی تنگدست (مقروض) کو مہلت دے گا‘تو اُسے ہر روز (قرض کی رقم کے برابر) صدقے کا اجر ملے گااور جو شخص قرض کی ادائیگی کامقررہ وقت آنے پر مقروض کو مہلت دے گا‘ تو ہر روز اُسے اتنی ہی رقم کے برابر صدقے کا اجر ملے گا‘‘ (سنن ابن ماجہ:2418)۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگ قرض لے کر استطاعت کے باوجود قرض ادا نہ کریں ‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''غنی کا (قرض کی ادائی میں)ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘ (صحیح البخاری:2400)۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ''مالدار کا قرض کی ادائی میں ٹال مٹول کرنا اُس کی آبرو اور سزا کوحلال کردیتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ:2427)۔
(10)شب ِ معراج رسول اللہ ﷺ کے لیے سواری لائی گئی اور آپ اس پر سوار ہوئے ‘ اُس سواری کی رفتار کا عالَم یہ تھا کہ ہر قدم حدِّ نظر پرپڑتا تھا‘ آپ ﷺ جبریلِ امین کے ساتھ چلتے رہے‘ یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک قوم پر ہوا جو ایک دن فصل کاشت کرتے اور اُسی دن تیار فصل کاٹتے‘ جونہی وہ فصل کاٹتے ‘وہ پہلے کی طرح تیار شکل میں آجاتی ‘آپ ﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلِ امین نے کہا: یہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے ہیں ‘جن کی ہر نیکی کا اجر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور تم جو کچھ بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو گے تو وہ اس کا بدل مہیا کردے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے‘‘ (سبا:39)۔
(11)پھر آپ ﷺچلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے ‘ آپ سواری سے اترے اور اپنی سواری کو ایک چٹان کے ساتھ باندھ دیا ‘ پھر بیت المقدس میں داخل ہوئے اور نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ فرشتوں نے بھی نماز پڑھی‘ جب نماز ادا ہوگئی تو فرشتوں نے کہا: جبریل! آپ کے ہمراہ یہ کون ہیں ‘جبریلِ امین نے کہا: ''محَمّد رسول اللّٰہ ﷺ اور خاتم النبیین ہیں‘‘ فرشتوں نے پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟جبریلِ امین نے کہا: ہاں!انہوں نے کہا: اس نہایت ہی اچھے بھائی اور جانشین کو ہماری طرف سے تحیّت (سلامی)پیش کیجیے‘ نہایت اچھے جانشین اور کیا ہی عمدہ آنے والے ہیں‘ پھر آپ ارواحِ انبیاء کے پاس آئے اور اُن سب نے اپنے رب کی ثنا بیان کی ۔
ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے ہیں جس نے ابراہیم کو خلیل بنایا ‘اُس نے مجھے عظیم ملک دیا‘ مجھے اللہ سے ڈرنے والی امت بنایا‘ میری پیروی کی جاتی ہے ‘مجھے آگ سے بچایا اور اس آگ کو میرے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کردیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے جس نے مجھے ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا ‘اپنی رسالت وکلام کے لیے مجھے چنا اور مجھ سے سرگوشی کی ‘ مجھ پر تورات نازل کی‘ آلِ فرعون کو میرے ذریعے ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو میرے ذریعے نجات عطا کی۔حضرت دائود علیہ السلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ‘جس نے مجھے حکومت کی نعمت دی ‘ مجھ پر زبور نازل کی‘ لوہے کو میرے لیے نرم کردیا ‘ پرندوں اور پہاڑوں کو میرے لیے مسخر کردیا ‘ مجھے حکمت دی اور فیصلہ سنانے کا منصب عطا فرمایا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے لیے ہوائوں ‘ جنّوں اور انسانوں کو تابع کیا‘شیاطین کومیرے لیے مسخر کردیا جو عمارتیں اور مجسمے بناتے تھے ‘ مجھے پرندوں کی بولی اور ہرچیز سکھائی ‘ میرے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا‘ مجھے ایسا عظیم ملک دیا ‘جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہیں ہے‘پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا:تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں‘ جس نے مجھے تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور میں اللہ کے اذن سے مادرزاد اندھوں اور برص کے مریضوں کو صحت یاب کرتا تھااور مردوں کو زندہ کرتا تھا ‘اس نے مجھے آسمان پر اٹھایااور کفار سے نجات دی‘ مجھے اور میری والدہ کو شیطانِ مردودکے شرسے اپنی پناہ میں رکھا اور شیطان کا ہم پر کوئی بس نہیں چلتاتھا‘پھر سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں‘ جس نے مجھے رَحْمَۃٌ لِلْعَالَمِیْن بناکر بھیجا ‘ تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنایا اور مجھ پر قرآن نازل کیا‘اس میں ہرچیز کا واضح بیان ہے‘ میری امت کو سب سے بہترین امت بنایا‘ میرا سینہ کھول دیا اور مجھ سے بوجھ اتار دیا ‘ میری خاطرمیرا ذکر بلند کیا اور مجھے (نبوت میں) اول وآخر بنایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہوکر فرمایا: انہی فضائل کی وجہ سے ہم سب پر محمد ﷺ کو فضیلت دی گئی ہے‘‘۔
نوٹ:مذکورہ بالا روایات ''دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِی‘ ج:2‘ص:397‘‘میں درج ہیں۔