علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''محبت کا معنی ہے:کسی شخص کااس چیز کی خواہش اوررغبت رکھنا، جسے وہ اپنے لیے بہتر سمجھتا ہو اور اس کی تین قسمیں ہیں: حصولِ لذت کے لیے محبت کرنا جیساکہ مردعورت کی باہم محبت، حصول ِنفع کی غرض سے مثلاً کسی نفع بخش چیزسے محبت کرنا، فضل وکمال کی وجہ سے محبت کرناجیساکہ اہل علم کا ایک دوسرے سے علم کی وجہ سے محبت کرنااور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت اس پر انعام فرمانا ہے اور بندے کی اللہ سے محبت اس کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنا ہے، (مفردات:ص:215)‘‘۔
رسول اللہﷺ تمام مومنین کے محبوب ہیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپؐ سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں، آپﷺ کی ذات اَقدس ایک مومن کے لیے مال ودولت، جاہ ومنصب، اولاد، والدین یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ محبوب ہے، اگر اس میں کچھ کمی ہو تو ایمان نامکمل ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ''آپ کہیے: اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری تجارت جس کے گھاٹے میں جانے کا تمہیں خدشہ لگا رہتاہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (الغرض یہ سب چیزیں)تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم انتظارکرو حتیٰ کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (التوبۃ:24)‘‘۔اس آیت میں وہ تمام متعلقات بیان کردیے گئے ہیں، جن کے ساتھ انسان کی محبت کارشتہ قائم ہوتا ہے اور اسلام نے ان سب کی محبت سے منع نہیں فرمایا، ایسا کرنا فطرت کے خلاف ہوتا، کیونکہ ان چیزوں کی محبت انسان کی فطرت میں پیوست ہے۔لیکن معیار یہ بتایا کہ مومن کا محبوب کوئی بھی ہوسکتا ہے، مگر محبوب ترین صرف تین چیزیں ہونی چاہئیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدّسہ، دوسری ذاتِ رسالت مآبﷺ اور تیسری اللہ کی راہ میں جہاداور اگر کوئی اس معیارِ محبت پرپورا نہیں اترتاتودعویٰ ٔ ایمان تو بہت دور کی بات ہے‘ اسے عذابِ الٰہی کا انتظار کرنا چاہیے۔
حدیثِ پاک میں ہے :نبی کریمﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اس کی اولادحتّٰی کہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، (بخاری: 15)‘‘۔مُحدّثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا: ''جس کے دل میں نفسِ محبتِ رسول نہیں ہے، اُس کے دل میں نفسِ ایمان نہیں ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبتِ رسول نہیں ہے، اُس کے دل میں کمالِ ایمان نہیں ہے، الغرض ایمان کے گراف کی بلندی اور پستی محبتِ رسول کے گراف پر موقوف ہے ‘‘۔
ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کی : ''یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اپنی جان کے سوا آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوگاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، پھر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تورسول اللہﷺنے فرمایا:اے عمر!اب ایمان کا تقاضا پورا ہوا، (مسند احمد:18047)‘‘۔
جس مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نقش ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کو ایمان کی حلاوت عطا فرماتا ہے اور وہ ایمان کی لذت کو پالیتا ہے، حدیثِ پاک میں ہے: نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کا مزہ پالے گا:اللہ اور اس کا رسول اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے محبت کرے، تو محض اللہ کی رضاکے لیے کرے، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنا اس کو آگ میں ڈالے جانے سے زیادہ ناپسند ہو، (مسلم:43)‘‘۔رسول اللہﷺ سے محبت کرنا کامل ا یمان کی علامت ہے، تاریخ کے ہر دور میں آپ سے محبت کرنے والوں نے جریدہ عالم پر اپنی حقیقی محبت کے اَنمٹ نقوش ثبت کیے ہیں اوران کی محبت کی تابانیاں آج تک محبین کے لیے مَشعَلِ راہ کاکام دیتی ہیں، ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالَم دوامِ ما
ترجمہ:''جس کادل حرارتِ عشق سے زندہ ہوجائے، وہ کبھی مرتا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کتابِ کائنات پر ہماری تاریخ کے نقوش ثبت ہیں‘‘۔رسول اللہﷺ سے براہ راست تربیت پانے والے صحابہ کرام کو آپؐ سے مثالی محبت تھی، آپﷺ کا ہر صحابی آپ پر دل وجان سے فدا تھا، مگر چند صحابہ کرام نے محبت کی وہ لازوال تاریخ رقم کی ہے کہ سن کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے، رسول کریمﷺ کے معیار محبت پر پورا اترنے والے ان غلاموں میں سے ایک حضرت زیدؓ بن دَثِنہ تھے، جب کفار نے رسول اللہﷺ سے اُن کی محبت کو جانچا، توآپﷺ کے سخت ترین مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ رسول اللہﷺکے غلام آپؐ سے بے حد محبت کرتے ہیں ۔روایت میں ہے :جب اہل مکہ حضرت زیدؓبن دَثنہ کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو ابوسفیان نے کہا: اے زید !میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتائو کہ کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمدﷺ ہوتے؟ حضرت زیدؓ نے کہا:خدا کی قسم، مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ میں اپنے گھر میں عافیت سے رہوں اور رسول اللہﷺکے پیر میں کانٹا چبھ جائے، ابوسفیان نے کہا: میں نے جتنااَصحابِ محمدﷺ کو اُن سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے، اتنا کسی اور کو نہیں دیکھا، (الشفاء، ج:2ص:17)‘‘۔
ان وفا شِعار غلاموں میں سے ایک حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنہوں نے غزوئہ احدکی افراتفری کے عالم میں رسول اللہﷺ کا دفاع کیا، حضورﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھوں اور جسم پر روکتے رہے اور کوئی تیر رسول اللہﷺ تک پہنچنے نہ دیا، حدیث ِ پاک میں ہے :جب مشرکین نے نبی اکرمﷺ پر تیربرسانے شروع کیے، تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ آگے کردیے، حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں: ہم غزوئہ احد کے دن حضرت طلحہ کے پاس آئے توہم نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم پائے اور ان کی انگلیاں کٹ چکی تھیں، (عمدۃ القاری: ج:14 ص:313 تا 314)‘‘۔
انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں :غزوہ ٔاحد کے دن رسول اللہﷺ سات انصار اور دو مہاجرصحابہ کرام کے ساتھ اکیلے رہ گئے تھے، جب اسلام دشمنوں نے آپؐ کو گھیر لیا تو آپﷺ نے فرمایا: جو شخص ان کو ہم سے دور کرے گا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا، پس انصار میں سے ایک مرد آگے بڑھا، اور دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا، دشمنوں نے آپﷺ کو دوبارہ گھیرلیا، پس آپ نے فرمایا :جو شخص ان کو ہم سے دور کرے گا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا، پھر انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھااور وہ بھی دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا، یہ سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ ساتوں انصاری صحابہ شہید ہو گئے۔(مسلم: 1789)‘‘۔
حدیثِ پاک میں ہے:جب احد کے دن مشرکین سے دوبدو جنگ شروع ہوئی اور دشمنان ِاسلام نے رسول اللہﷺکو گھیر لیا تو حضرت مصعبؓ بن عمیر رسول اللہﷺکے دفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، حضرت ابودُجانہؓ آپ کی مدافعت میں لڑے حتیٰ کہ شدید زخمی ہوگئے اور رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا، آپؐ کے دانت مبارک کاکچھ حصہ ٹوٹ گیا، نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا اور آپ کا رخسار مبارک خون آلود ہوگیا، اس دن رسول اللہﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں، پس رسول اللہﷺنے فرمایا :ہمارے لیے کون اپنی جان کا سودا کرے گا، تب انصار کے پانچ جوان آپ کی طرف بڑھے، ان میں حضرت زیادؓ بن السَّکن بھی تھے، وہ سب رسول نبی کریمﷺ کی مدافعت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، آخر میں حضرت زیادؓ بن السَّکن لڑتے رہے، پھر دوسرے مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑ کر آئے، حتیٰ کہ انہوں نے دشمن کو بھگا دیا، تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :زیاد بن السَّکن کو میرے پاس لائو، وہ اس وقت بہت شدید زخمی ہوچکے تھے، رسول اللہﷺنے اپنا قدم مبارک ان کے سر کے نیچے رکھا حتیٰ کہ اسی حالت میں انہوں نے جاں‘ جانِ آفریں کے سپرد کردی، (الاستیعاب:ج:2:ص: 106)‘‘۔
حضرت زیاد بن السَّکن اس حال میں فوت ہوئے کہ ان کا سر آپ کے قدم مبارک پر تھا، ایک محبت کرنے والے کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس کا سر محبوب کے قدموں میں ہو، شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
بہ چہ ناز رفتہ باشد، زِ جہاں نیاز مندے
کہ بہ وقتِ جان سپردن بَسرش رسیدہ باشی
''آپ کا نیازمنداس شان سے دنیا سے رخصت ہوا کہ جان دیتے وقت اس کا سر آپ کے قدم ِمبارک پر پہنچ گیا‘‘۔
حضرت علیؓ سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺکے ساتھ آپ کس طرح محبت کرتے تھے، توانہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم! آپﷺ ہمیں، اولاد، ہمارے ماں باپ، اموال اور سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے، (شرح البخاری للسفیری:ج:1:ص:408 )‘‘۔
محبت اور وفا کا یہ جذبہ صرف مردصحابہ تک محدود نہیں تھا، خواتین صحابیات بھی آپﷺ کے رُخِ انورپر خود کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں اور اُن کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور حضورﷺ کی سلامتی سے وابستہ تھا اور وہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتی تھیں، علامہ محمد بن یوسف صالحی لکھتے ہیں : ایک انصاری صحابیہ کو بتایا گیاکہ تمہارے والد، بھائی اور شوہر جنگ میں شہید ہوگئے ہیں، اُس نے کہا :اِن سب کا ذکر چھوڑو، یہ بتاؤ کہ رسول اللہﷺ کا کیا حال ہے، صحابہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے، آپؐ خیریت سے ہیں، اس نے کہا: مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لے جاؤ تاکہ میں آپﷺ کو دیکھ کر سکون حاصل کرسکوں، جب وہ آپﷺکی زیارت سے مُشرّف ہوئیں تو فرطِ مسرت سے کہا : آپ کو سلامت دیکھنے کے بعد ہر مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہے، اب مجھے کسی چیز کی پروا نہیں، (سُبُل الہُدیٰ والرشاد، ج:4 ص:228)‘‘۔یعنی حضور سلامت ہیں توہر مصیبت آسان ہے، خواتین توعموماًنرم دل ہوتی ہیں، دور کا رشتہ دار بھی مرجائے تو صدمے سے بے حال ہوجاتی ہیں اورچیخنا چلانا اور رونا شروع کردیتی ہیں، جبکہ اُن صحابیہ کے والد، بھائی اور شوہر شہید ہوچکے تھے، لیکن وہ آپﷺ کو سلامت دیکھ کر اپنے سب غم بھول گئیں ۔ (جاری)