محبت اور وفا کے راستے میں صرف محبوب پر جان قربان کرنا ہی محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ہوتا، بلکہ جو اس کے محبوب سے عداوت رکھیں اور محبوب کو تکلیف پہنچانے کا باعث بنیں، اُن سے لاتعلقی بھی لازم ہے، خواہ وہ رشتے میں کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (لیکن ساتھ ساتھ)اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے بھی محبت رکھیں، خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں پر اللہ نے ایمان ثبت فرمادیاہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی، اللہ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے‘‘۔ (المجادلہ:22)
صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں رشتہ داریوں کو قربان کرنے کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، جو بھی رسول اللہﷺ کے مقابلے میں آیا، ان مردانِ وفا شعار نے ان سے ہر رشتہ ناتا توڑ لیا، جنگ کے میدان میں رسول اللہﷺ کے مقابلے میں نکلنے والے اپنے قریبی رشتوں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ کے رکھ دیا، چشمِ فلک نے شاید ایسے مناظر کہیں اور نہ دیکھے ہوں، یہ وہ لوگ تھے جن کی محبت کا محور صرف رسول اللہﷺ کی ذات تھی، علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کیا، حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی کو قتل کیا، حضرت عمر نے اپنے ماموں کو قتل کیا، حضرت علی نے اپنے کئی رشتہ داروں کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کو مقابلے کے لیے للکارا(رضی اللہ عنہم)‘‘۔ (شرح الشفا ء:ج:3ص:368 )
کوئی محبوب کی شان میں ادنیٰ سی بے ادبی کردے، محبت کرنے والے تڑپ اٹھتے ہیں اور جب تک اس کا ازالہ نہیں کرتے‘ آرام سے نہیں بیٹھتے، خواہ وہ بے ادبی کرنے والا کوئی بھی ہو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:غزوئہ بنی المصطلق میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ایک گستاخانہ کلمہ کہا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : ''وہ (منافقین) کہتے ہیں :اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور وہاں سے عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا‘‘۔ (المنافقون:8) متعددسندوں سے روایت ہے: عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ ایک مخلص صحابی تھے، اُن کو جب علم ہوا کہ ان کے والد نے یہ گستاخانہ کلمہ کہا ہے، تو انہوں نے مدینہ کے قریب پہنچ کر اپنے باپ پر تلوار سونت لی اور کہا:خداکی قسم! میں اس تلوار کو اس وقت تک میان میں نہیں ڈالوں گا، جب تک تم یہ نہیں کہوگے کہ محمدﷺعزت والے ہیں اور میں ذلت والا ہوں، جب تک باپ نے یہ نہ کہا، بیٹے نے اسے نہ چھوڑا۔ ایک روایت میں ہے: انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا: جب تک تم رسول اللہﷺسے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت حاصل نہیں کروگے میں تم کوشہر میں آنے نہیں دوں گا تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ عزت والا کون ہے اور ذلت والا کون، حتیٰ کہ اس نے رسول اللہﷺ سے اجازت حاصل کی تب حضرت عبداللہؓ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے دیا‘‘۔ (تفسیر روح المعانی :جز:14:ص:210 )
حضرت عبداللہؓ نے رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام دیا کہ رشتوں کی حرمت کی بنیاد رسول اللہﷺ کی ذات سے وابستگی ہے، جس کی وابستگی اس ذات سے نہ رہے، اس رشتے کی حرمت ختم ہوجاتی ہے، خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو اور عزتیں رسول اللہﷺکے دَر سے ملتی ہیں، جو اُن کے در سے پھر گیا، اس کی کوئی عزت نہیں، امام احمد رضا قادری نے کہاہے:
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
رسول اللہﷺ کی محبت کے لیے زمان ومکان کی قید نہیں ہے، ہر عہد میں آپﷺ کی محبت کادم بھرنے والے موجود رہے ہیں اور ہرآنے والا لمحہ آپﷺ کی محبت کی شدت میں اضافہ کرتا ہے، حدیث ِپاک میں ہے : ''رسول اللہﷺنے فرمایا:میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، اُن میں سے ہر شخص یہ خواہش کرے گا کہ وہ اپنی جان ومال الغرض سب کچھ قربان کرکے میرے دیدار کی ایک جھلک دیکھ لے‘‘۔ (مسلم: 2832) بیکل اُتساہی نے کہاہے:
جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہو گا
ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے، تو دیدار کا عالم کیا ہو گا
رسول اللہﷺ کی محبت وہ نعمت ہے، جو عمل میں کمی کے باوجود محبت کرنے والے کو آپﷺ کی معیت کا شرف عطا کرتی ہے، حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں : ''میں اور نبی کریمﷺ مسجد سے باہر جارہے تھے، مسجد کے دروازے کے پاس ایک شخص ہم سے ملا، اس نے کہا: یارسول اللہﷺ! قیامت کب واقع ہوگی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:یہ بتاؤ قیامت کے لیے تمہاری تیاری کیا ہے؟ وہ شخص ڈر کر خاموش ہوگیا، پھر اس نے عرض کی:میرا ذخیرہ اعمال تو بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں، آپﷺنے فرمایا :تم اسی کے ساتھ ہوگے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو‘‘۔ (بخاری:7153)
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:''اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ سب کیا ہی عمدہ ساتھی ہیں‘‘۔ (النساء :69)
علامہ بغوی اس آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یہ آیت نبی کریمﷺکے آزاد کردہ غلام ثوبان کی شان میں نازل ہوئی، وہ رسول اللہﷺ سے شدید محبت کرتے تھے اور آپﷺ کو دیکھے بغیر ان کوقرار نہیں آتا تھا، ایک دن بارگاہِ نبوی میں آئے، ان کا رنگ متغیر تھا اور چہرے سے اداسی نمایاں تھی، رسول اللہﷺنے ان سے فرمایا:تیرا رنگ پھیکا کیوںپڑگیا ہے، انہوں نے کہا: یارسول اللہ!نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ کوئی تکلیف ہے، سوائے اس کے کہ میں جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا اور آپ سے ملاقات نہیں ہوجاتی، مجھے سخت وحشت لاحق ہوتی ہے، پھر مجھے آخرت کا خیال آیا تو مجھے اندیشہ ہو ا کہ میں وہاں آپ کو دیکھ نہیں سکوںگا، کیونکہ آپﷺ تو انبیاء کرام کے ساتھ اعلیٰ مقامات پر ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل بھی ہوا تو میرا مقام جنت میں آپ کے مقام سے بہت نیچے ہوگا اور اگر خدا نخواستہ میں جنت میں نہ جاسکا، تو آپ کو ہمیشہ کے لیے نہیں دیکھ سکوں گا، تو یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔ (تفسیر بغوی:ج:۱:ص:659)
ہنگامی حالات کے علاوہ عام حالات میں بھی صحابہ کرام رسول اللہﷺسے محبت اور تعظیم کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے اور آپ کابے انتہا ادب کرتے تھے اورحددرجے کی محبت کرتے تھے، جس کی گواہی آپﷺکے سخت ترین دشمنوں کو بھی دینا پڑی، صلح حدیبیہ کے موقع پررسول اللہﷺ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قریش کا جو وفد آیا اس میںعروہ بن مسعود بھی تھے، امام بخاری لکھتے ہیں :وہ(عروہ بن مسعود) کن انکھیوں سے نبیﷺ کے اصحاب کی طرف دیکھ رہے تھے جب بھی رسول اللہﷺ تھوکتے تو وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہتھیلی پر آجاتا وہ اس لعاب مبارک کو اپنے چہرے اور بدن پر ملتا اور جب آپ کوئی حکم دیتے تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور جب آپ وضو کرتے تو وہ آپ کے وضوکے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے تھے کہ گویا ایک دوسرے کو مار دیں گے اور جب آپ بات کرتے تو سب آپ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرلیتے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آ پ کو جی بھر کردیکھ نہیں پاتے تھے۔ پھرعروہ اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور کہا: اے لوگو! میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں، میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں، اللہ کی قسم میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا)محمدﷺ کے اصحاب آپ کی کرتے ہیں، اُن کے لعابِ دہن کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر ملتے ہیں، جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وہ ان کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے ہیں گویا ایک دوسرے کو مار دیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ سب ان کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں اور وہ ان کی عظمت وجلالت کے سبب ان کوجی بھر دیکھ نہیں پاتے‘‘۔ (بخاری : 2731 )
شدت ِتعظیم جبکہ ظاہری وحقیقی دونوں صورتوں پر مشتمل ہو، شدتِ محبت کی علامت ہے، صحابہ کرام رسول اللہﷺ کی حد درجہ تعظیم کرتے، جس سے اُن کی محبت کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے، حضرت عبد اللہؓ بن بریدہ بیان کرتے ہیں :''ہم جب نبیﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے، تو ہم آپ کی تعظیم کی وجہ سے سر نہیں اٹھاتے تھے‘‘۔ (مستدرک للحاکم: 415)حضرت براءؓ بن عازب بیان کرتے ہیں: ہم رسولﷺکے ساتھ ایک جنازہ کے لیے باہر نکلے، جب ہم قبرستان پہنچے، تو ابھی لحد نہیں بنی تھی، نبی اکرمﷺ بیٹھ گئے اور ہم آپ کے گرد اس طرح بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں(یعنی آپ کے سامنے حرکت کرنا بھی ان کو گوارا نہ تھا)‘‘۔ (نسائی:2001)
صحابہ کرامؓ آپﷺ کے تبرکات سے بھی بے حد محبت کرتے تھے اور آپ کے موئے مبارک کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے تھے، حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں :''میں نے رسول اللہﷺکو دیکھا کہ نائی آپ کے بال مونڈ رہا تھا اور صحابہ آپ کے گرد گھوم رہے تھے، ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ کوئی بال ان کے ہاتھ لگے‘‘۔ (مسلم:2325)
صحابہ کرامؓ کی محبت کایہ عالم تھا کہ نماز میں بھی ان کی نگاہیں صرف اور صرف آپﷺ کی طرف ہوتی تھیں، ایامِ علالت میں جب آپ باہر تشریف لائے، صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کی اقتدا میں نمازکے دوران آپ کے رخِ انور کادیدار کیا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں :آپ کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح لگتا تھا، آپ مسکرائے تو آپ کے چہرہ انور کو دیکھ کر ہم اس قدر خوش ہوئے کہ خدشہ تھا ہم نماز توڑ ڈالیں گے‘‘۔ (بخاری:680)